الائنس موٹرز کے متاثرین بتیس برس کے باوجود انصاف کے منتظر
شیئر کریں
الائنس موٹرز کے متاثرین دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، عدالت سے انصاف کے منتظر ہزاروں متاثرین کی امیدیں دم توڑنے لگیں۔اربوں کی جائیدادوں پر مفاد پرست ٹولے نے اپنے دانت تیز کرنے شروع کردیے۔ تفصیلات کے مطابق الائنس موٹرز کے نام پر قائم سرمایہ کار کمپنی نے 33؍ برس قبل مذہبی جذبات کا استعمال کرتے ہوئے مختلف سرمایہ کاروں سے اربوں روپے اینٹھ لیے تھے۔ ٹی جے ابراہیم اینڈ کمپنی اور الائنس موٹرز پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام سے قائم دونوں سرمایہ کار کمپنیاں کسی کاروبار میں شامل نہیں تھیں، مگر ان کمپنیوں نے 1979 سے مئی 1988ء تک مختلف لوگوں سے سرمایہ اکٹھا کیا۔ اس دوران مارکیٹ میں کچھ اور سرمایہ کار کمپنیوں کے آنے اور رقوم لے کر فرار ہونے کے باعث مذکورہ کمپنیوں کے حوالے سے بھی سوالات اُٹھنے لگے جس پر ان کمپنیوں کے ڈائریکٹرز کے فراڈ واضح ہونے لگے۔ جس کے باعث یہ معاملہ اس قدر خطرناک رخ اختیار کر گیا ۔ جس پر ان کمپنیوں کے ڈائریکٹرز محمد ابراہیم ، محمد طیب، جاوید اور الائنس موٹرز کے چیئرمین پیر اصغر علی قریشی (بشمول برادران) ، ڈائریکٹرز حامد علی قریشی ، محمد یونس اور دیگر فرار ہوگئے۔ ڈائریکٹرز کے واضح فراڈ سامنے آنے کے بعد سرمایہ کاروں کی جانب سے مختلف فورم پر یہ مسئلہ اٹھایا گیااور اس حوالے سے ایک درخواست JM1/89 سندھ ہائیکورٹ میں بھی دائر کی گئی۔ جس کے بعد ایف آئی اے حرکت میں آئی اور اس کے مختلف ڈائریکٹرز گرفتار ہوئے۔ اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلچل پر سرمایہ کاروں کی ڈوبی ہوئی رقوم کی واپسی کی ایک امید بندھی۔ یہاں تک کہ سرمایہ کاروں نے مختلف ڈائریکٹرز کے فراڈ کے ثبوت اور اُن کی خفیہ سرمایہ کاری کے شواہد تک تلاش کرکے عدالت میں پیش کیے ، بعدازاں 4؍ دسمبر 1989 کو دونوں کمپنیوں کو دیوالیہ قرار دے کر آفیشل اسائنی کو آفیشل لیکویڈیٹر مقرر کردیا گیا۔ ان تمام کاوشوں کے باوجود مختلف مفاد پرستوں نے اس عمل کو تاخیر کا شکار بنائے رکھا اور سرمایہ کاروں کی رقوم کے برابر بلکہ اس سے زائد کی پراپرٹیز کے ہونے کے باوجود انہیں رقوم دینے اور دیوالیے کی کارروائی کو التوا میں ڈالے رکھنے کی سازشیں بھی جاری رہیں۔ اس دوران نیب ، ایف آئی اے اور عدالت عالیہ سندھ میں سرمایہ کاروں کی جانب سے مسلسل آواز اُٹھانے کے نتیجے میں 14 سال بعد 2003ء کے اختتامی مہینوں میں مطلوبہ رقوم کا صرف پچیس فیصد سرمایہ کاروں کو دینا شروع کیا گیا۔ تاحال سرمایہ کار اپنے باقی پچھتر فیصد سرمایے کی واپسی کی امید میں دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ اس پورے فراڈ کو اب بتیس سال بیت رہے ہیں جس میں صرف محمد طیب نامی ایک بدعنوان اور عدالت سے سزایافتہ مجرم ڈائریکٹر زندہ رہ گیا ہے۔ جبکہ پچھتر فیصد سرمایے سے زیادہ مالیت کی مختلف جائیدادیں موجود ہونے کے باوجود سرمایہ کار عدالت عالیہ سندھ کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ آفیشل اسائنی کا دفتر اس حوالے سے سرمایہ کاروں کی امیدوں پر پورا اُترنے میں کامیاب دکھائی نہیں دے رہا۔ سرمایہ کاروں کی امیدیں اور اُن کی زندگیوں کے چراغ بھی اس دوران بجھ رہے ہیں۔ دوسری طرف مذکورہ کمپنیوں کے ڈائریکٹرز کے مختلف ورثاء اور فرنٹ مین مختلف جائیدادوں سے اپنے مفادات کشید کررہے ہیں۔(اس حوالے سے تفصیلات آئندہ شماروں میں پیش کی جائیں گی) واضح رہے کہ سرمایہ کاروں کی جانب سے اس معاملے میں مسلسل نگرانی جاری ہے اور کچھ مخصوص عناصر اس معاملے کو مزید تاخیر کا شکار کرکے مختلف جائیدادوں کو اپنے من پسند انداز سے کھپانا چاہتے ہیں۔