سورہ نصر کی گونج
شیئر کریں
تاریخ اُنہیں کیسے یاد رکھے گی؟
افغانستان پر امریکی سرپرستی میں کٹھ پتلی حکومت کا قبضہ دراصل بھگوڑوں کی ایک کہانی کے طور پر سامنے آیا۔ اشرف غنی اب کسی سابقے لاحقے کے بغیر ہے۔ وہ تاجکستان فرار ہوا، ایسے کہ خود تاجکستان تسلیم نہیں کررہا کہ وہ اُن کے ملک میں وارد ہوا۔ تازہ انکشاف اشرف غنی کے کھوکھلاپن کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ بھگوڑے اشرف غنی نے جو وقت استعفیٰ لکھنے میں صرف کرنا چاہئے تھا، وہ افغانستان سے بھاگتے ہوئے امریکی ڈالرز کو جمع کرنے میں لگایا۔ وہ بھاگتے ہوئے ڈالرز سے بھری ہوئی چار گاڑیاں ساتھ لے گیا۔ ایک ہیلی کاپٹر بھی ۔ روسی سفات خانے کا انکشاف یہ ہے کہ جہاز میں جگہ نہ ہونے کے باعث اُسے ڈالر کی بڑی مقدار چھوڑنی پڑی۔ اشرف غنی امریکی انتخاب تھا۔ اور اشرف غنی کا کیا انتخاب تھا، یہ واضح ہے۔ اشرف غنی جب افغانستان میں خون بہانے پر اُٹھنے والے خرچے سے خُرد بُرد کیے گئے ڈالرز جمع کررہا تھا تو اُس پرجھوٹا اعتماد رکھنے والے کسی نہ کسی شکل میں طالبان کا راستار وکنے کے بھرم میں ابھی کابل میں موجود تھے۔وہ سب اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ بھگوڑا اشرف غنی امریکی چھتر سائے میں محفوظ رہے گا۔ اشرف غنی نے خود پر اعتماد کرنے والے اپنے ساتھی خونی درندوں میں سے کسی کو اعتماد میں نہیںلیا۔ غنی انتظامیہ کے قائم مقام وزیر دفاع جنرل بسم اللہ محمدی نے سے رہا نہیں گیا، اُس کا تبصرہ انتہائی غصے کی حالت میں فوری اور بے ساختہ تھا: ” اُس نے ہمارے ہاتھ ہماری پیٹھ کے پیچھے باندھے اور وطن کو بیچ دیا ، غنی اور اس کے گروہ پر لعنت ہو”۔عبداللہ عبداللہ بھی یہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ ”وہ قوم کو چھوڑ کر بھا گے ہیں ، ان کو اللہ پوچھے گا ”۔اشرف غنی تو محض ایک مثال ہے۔
کابل ائیرپورٹ پر ایک افراتفری دکھائی جارہی ہے۔ مگر یہ حقیقی منظر نہیں۔ یہاں سے فرار ہونے والے درحقیقت جنگ کا ”حلوہ” کھانے آئے تھے۔ یہ کون لوگ ہیں؟کابل شہر سے بھاگنے والے ان عناصر میں وہ لوگ شامل ہیں جو طالبان کے خلاف بھیانک جرائم میں ملوث رہے۔ امریکی سائے اور غنی انتظامیہ کی سرپرستی میں یہ ایسے مظالم کے مرتکب تھے، جو انسانیت کے لیے باعثِ عار سمجھے جاتے ہیں۔
ان مناظر میں اتحادی سفارت خانوں کے ”بزدل” اہلکار بھی دیکھے جاسکتے ہیں جو اپنے پیچھے ہتھیاروں کی طاقت سے زبانوں کو حرکت دیتے ہیں۔ اب یہ بھگوڑے کابل میں پائے جانے والی افراتفری کے طور پر دکھائے جارہے ہیں۔انہیںامریکا اور برطانیا کی طرف سے تازہ دم تعینات فوجیوں کی مدد سے یہاں نیانیا بھیجا گیا تھا۔ اشرف غنی نے افغانستان میں ان کی ہی چاکری کی تھی۔ اس کے پاس دو راستے تھے، وہ ان سب کو باہر نکالنے تک ایک جعلی ہمت دکھا سکتا تھا، جیسے اُس نے عید کی نماز پر ایک جعلی حملے کی ویڈیو سے اپنی بہادری دکھانے کی کوشش کی تھی۔ آخر وہ ان سے ڈالر لے رہا تھا۔ مگر اشرف غنی نے جان بچانے کو ترجیح دی۔ اس کے سامنے نجیب اللہ کی کھمبے پر لٹکی لاش کے مناظر رہے ہوں گے۔ اب ذرا ایک ایک کرکے اشرف غنی کے اُن بیانات کو یاد کیجیے جو وہ امریکا کی اشیر باد سے دیا کرتا تھا۔ سفلے اور اوچھے لوگوں کی شیخی بگھارنے کی روش پر اردو مثل یہاں کیا لطف دیتی ہے: تھوتھا چنا باجے گھنا”۔
ابھی چار روز قبل 11 اگست کو اشرف غنی اپنے جامے میں نہیں تھا،وہ کابل سے مزار شریف پہنچا، اُس کے ہمراہ خون کا پیاسا” آدم بو آدم بو ”کی صدا لگانے والا ازبک وحشی درندہ عبدالرشید دوستم تھا۔ جس نے قلعہ جنگی اور دشت لیلیٰ ایسی خونی اور وحشی داستانیں تخلیق کی تھیں۔ تُرک صدر رجب طیب اردوان کے حمایت یافتہ بدنام زمانہ عبدالرشید دوستم کے ساتھ غنی ایک او روحشی جنگجو عطا محمد نور سے ملا۔نسلاً تاجک جنگجو نے طالبان کے خلاف محاذ کو سنبھالنا تھا۔ طالبان کے خلاف امریکا کی فضائی حمایت کے ساتھ ایک مضبوط محاذ کی تشکیل کی یہ کوشش چار روز قبل بھی جاری تھی۔اس کے پیچھے ماضی میں ازبک تاجک اتحاد کے ساتھ طالبان کے خلاف لڑائیوں کے لمبے سلسلے کی مثالوں کو تقویت کے طور پر دُہرایا جارہا تھا۔ عطا محمد نور نے دو ماہ قبل صوبہ بلخ میں طالبان کا راستا روکنے کی ہامی بھری تھی۔وہ بلخ میں پسپائی کو شمال سے پسپائی سمجھتے تھے۔ اور شمال کی پسپائی کا مطلب کامل افغانستان پر طالبان کی ظفریابی تھا۔ نور ماضی میں طالبان سے کچھ معرکوں میں کامیابی کی ایک تاریخ رکھتا تھا مگر وہ دوستم کو 1993 ء میں چھوڑ چکا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ کوشش تمام طالبان مخالف قوتوں کو یکجا کرکے پسپائی کو روکنے کی آخری صورت تھی۔ ان کوششوں میں دورنگ واضح تھے۔ ایک نسلی جو ازبک اور تاجک جنگجو مل کر مختلف نسلی اکائیوں کی صف بندی کے ساتھ دکھا رہے تھے۔ دوسرا رنگ زیادہ خطرناک تھا۔ اس کے ذریعے عام شہریوں کو طالبان کے خلاف مختلف عنوانات سے اُبھارنا تھا۔ یہاں تک کہ سیاست دان بھی شہریوں کو طالبان کے خلاف اُکسا رہے تھے۔ یہ دونوں کوششیں رائیگاں گئیں۔ امریکیوں نے کن پر بھروسا کیا؟
یاد کیجیے ! امریکی صدر جوبائیڈن نے دو روز قبل ہی یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ”ہم امریکی اور دیگر اتحادی اہلکاروں کے علاوہ اپنے معاون افغانیوں کے منظم اور محفوظ انخلاء کو یقینی بنائیں گے”۔کابل ائیرپورٹ کے مناظر امریکی صدر کا مزاق اڑارہے ہیں۔ یہ طالبان کی آمد یا واپسی سے اُبھرنے والے مناظر نہیں، بلکہ امریکیوں اور اُن کے لے پالکوں کی رخصتی مناظر ہیں جو 1975 میں ویت نام سے امریکی انخلا کے ساتھ واضح مماثلت رکھتے ہیں۔ امریکیوں کو بنے بنائے کام بھی بگاڑ کر کرنے کی عادت ہے۔ یقین نہ ہوتو طالبان کے ساتھ افغانستان سے ”باعزت واپسی ”کی ضمانت پانے کے باوجود کابل ائیرپورٹ سے رسواکن رخصتی کے مناظر دیکھ لیں۔ اب ایک اور منظر ہے جو امریکا مخالف ہونے کے باوجود محض اسلام دشمنی میں بعضوں کو ہضم نہیں ہوتا۔ امریکا کو شکست دینے والے یہ لوگ چی گویرا جیسے کیوں نہیں؟ ان کی داڑھی کیوں ہے؟ارے یہ تو سفید اور کالے عمامے باندھتے ہیں۔یہ کون لوگ ہیں جو کابل کے صدارتی محل میں داخل ہورہے ہیں؟ان کے جوتے دیکھیں۔ انہیں عالی شان صدارتی محل میں ائیرکنڈیشنروں کی ذرا بھی پروا نہیں۔ یہ اپنے عماموں کے پروجیہ پیچوں سے لٹکتے کپڑے سے اپنا پسینہ پونچھتے ہیں۔تاریخ ان کے بانکپن کو ہمیشہ محفوظ رکھے گی۔ یہ کس کس کا سامنا کرتے یہاں تک پہنچے ہیں۔ صدارتی محل میں داخل ہونے سے قبل ان کا استقبال بی۔ 52طیاروں نے کیا۔ مہلک ڈرون ان کے تعاقب میں تھے۔ فارس اور وسطی ایشیا کے اڈوں سے اڑنے والے طیارے اُنہیں شکار کرنے کے لیے اڑتے رہے۔ امریکا ، نیٹو سمیت تیس ممالک اور افغانستان کے اندر حریف ملیشیاؤں کی افواج سے بھی یہ بچ گئے۔ اب وہ خود کو ایک ایسے شخص کی امارت میں پاتے ہیں جو کسی نامعلوم مقام پر حدیث اور تفسیر کا مطالعہ کرنے میں مصروف ہیں۔ جنہیں کسی خود نمائی کا شوق نہیں۔ اب آپ امارت اسلامیہ افغانستان میںہیں۔ تاریخ اپنا دائرہ بیس برس میں پورا کرکے واپس وہیں کھڑی ہے۔ مغرب کی جدید ترغیبات ، بھاری جنگی مشینری یہاں پر کہیں دفن ہو چکی ہیں۔ بس ایک صدارتی محل کے اندر میز پڑی ہے ، اور افغان صدر کی کرسی۔ یہاں امیر المومنین ملا ہیبت اللہ اخوند نہیں بیٹھے ہوئے، ابھی ملاعمر کے ہانڈی وال ملا عبدالغنی برادر بھی وہاں نہیں پہنچے۔میز دھری ہے اور کرسی پڑی ۔ جسے قرآن پڑھنے والے ایک مجاہد قاری آبرو دے رہے ہیں۔ اور ایک آواز آرہی ہے۔ ِذَا جَائَ نَصْرُ اللَّہِ وَالْفَتْحُ ۔۔۔۔۔۔
یہ سورہ نصر کی گونج ہے۔ اسے سننے والے وہائٹ ہاؤس کی طرف نہیں آسمان کی طرف دیکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔