میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عوام کی طاقت کے سامنے

عوام کی طاقت کے سامنے

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۷ جولائی ۲۰۲۴

شیئر کریں

ب نقاب /ایم آر ملک

 

آزادی کی خاطر آپ کی جدوجہد اگر کامیاب ہو جائے تو انقلاب ورنہ بغاوت آپ کے ایسے جرم میں شمار ہوتی ہے جو آپ کو سامراج کے کسی پٹھو یا کٹھ پتلی حکمران کے ہاتھوں تختۂ دار تک لے جاتاہے۔
تھامس سنکارا کو بر کینا فاسو میں وہی مقام حاصل ہے جو کیوبا میں چی گویرا کو ،وہ بائیں بازو کا ایک محب وطن انقلابی تھا۔ فرانسیسی غلامی سے نجات دلانے کیلئے اُس نے اپنی قوم میں انقلاب کی نئی روح پھونک دی۔ برکینا فاسو مغربی افریقہ کا ملک ہے۔ فرانسیسی سامراج کے تسلط کے زیر اثر اس ریاست کی آزادی کیلئے تھامس سنکارا کی روح بے چین رہی ۔وہ چاہتا تھا کہ اُس کے ملک کے باسی آزادی کی فضا میں سانسیں لے سکیں۔ ایک آزاد ریاست میں اُن کو بھی جینے کا حق ہو فرانسیسی سامراج کے خلاف تھامس سنکارا نے ایک منظم جدوجہد کی بنیاد رکھی ۔آزادی کے متوالے اُس کے ساتھیوں نے قربانیوں کی ایک طویل تاریخ اپنے لہو سے لکھی پھر 1983میں ایک روز فرانسیسی سامراج کے تسلط کو اس جدوجہد کے تسلسل نے پارہ پارہ کر دیا۔ سنکارا آزاد قوم کا نجات دہندہ بنا سو اقتدار کا تاج اُس کے سر پر سج گیا جس دھرتی کی آزادی کی خاطر سنکارا اپنے لوگوں ،اپنی قوم کا ہراول بنا اُسی دھرتی کو سنکار ا نے ”برکینا فاسو (دیانت دار انسان کی سر زمین )کا نام دیا ”۔ سنکارا محب وطن تھا ،دھرتی کا بیٹا تھا وہ دھرتی کو اپنی ”ماں ”کہتا تھا ۔سو اُس نے اپنی مٹی کے ساتھ یہ عہد کیا ،یہ قسم اٹھائی کہ وہ ہر اُس لعنت سے اُسے نجات دلائے گا جو غلامی کی کسی بھی شکل میں دھرتی ماں کے ساتھ جڑی ہوئی ہوگی۔ اُس نے پہلا کام یہ کیا کہ برکینا فاسو کے تمام زمینی اور معدنی وسائل کو نیشنلائز کیا ،سامراج کے ساہو کار اداروں آئی ایم ایف ،ورلڈ بنک جن کے چنگل میں ملک کی معیشت سسک رہی تھی سے تمام تعلقات توڑ ڈالے، اُس نے بڑے پیمانے پر زرعی اصلاحات کیں جس کے نتیجے میں اناج کی ریل پیل ہو گئی اور بر کینا فاسو خوراک میں خود کفیل ہو گیا۔ سنکارا نے اقتدار میں آتے ہی صحت ،تعلیم کے مسائل کو ہنگامی حالت میں حل کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کی اور اپنی نو آزاد ریاست کے 25لاکھ بچوں کی ویکسی نیشن کر ڈالی۔ تعلیم پر توجہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے دو سالوں میں برکینا فاسو کے تعلیمی اداروں میں بچوں کی تعداد دوگنا ہو چکی تھی ۔سنکارا کا نظریہ تھا کہ کسی بھی دھر تی پر انقلاب اور آزادی شانہ بشانہ چلتے ہیں ۔آزادی کوئی خیرات نہیں بلکہ انقلاب کی فتح کی بنیادی شرط ہوتی ہے ۔سنکارا کے وزراء کی تنخواہیں انتہائی قلیل اور مراعات محدود تھیں ۔سنکارا کو جہاں اپنے عوام کے حقوق کی جانگسل جدو جہدکا سامنا تھا ،وہاں دو بڑے دشمن اُس کی تاک میں تھے ۔ایک وہ طبقہ جو فرانسیسی سامراج کا لے پالک اُس کی ریاست کے اندر تھا اور ایک فرانسیسی سامراج جو ریاست کی سر حدوں سے باہر سنکارا کے عوام دوست عوامل سے خائف سازشوں کے تانے بانے بننے میں مصروف تھا۔ سازشیں عروج پکڑتی چلی گئیںاور ایک انقلابی حکومت سامراج اور اُس کے پالتو غنڈوں کیلئے ناقابل برداشت ہوتی چلی گئی۔ ایک غدار وطن اور سامراج کے دست راست کمپیئورے کی مدد سے بالآخرریاستی سازش اپنے انجام کویوں پہنچی کہ سامراجی قوت نے اقتدار پر شب خون مار کر سنکارا کو قتل کر کے جسمانی طور پر مٹا دیا۔
عوامی خواہش پر پائوں رکھ کر ایک غدار وطن کا اقتدار 1991سے شروع ہوا ۔سامراج کے کارندے کو چار مرتبہ اقتدار کے سنگھاسن پر عوامی خواہش کے برعکس مسلط کیا گیا مگر جب اُس نے پانچویں مرتبہ ایک خود ساختہ آئینی ترمیم کے ذریعے ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہونے کیلئے خود ساختہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا توایک آمر کے مظالم سے ستائے لاکھوں افراد نے پارلیمنٹ کی طرف مارچ کیا۔ سخت سکیورٹی کے باوجود باغی عوام نے پارلیمنٹ کو آگ لگا دی۔ عوامی یلغار نے صدارتی محل کا رخ کیا تو اُس کو آنسو گیس کی شیلنگ اور گولیوں کی بوچھاڑ سے روکنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ بپھرے ہوئے لوگوں نے حکمران جماعت کے دفاتر جلاڈالے۔ صدر کے رشتہ داروں کے گھر نذر آتش کر دئیے ،آرمی چیف کی وارننگ اور کرفیو کا اعلان بے سود ثابت ہوا اور عوام نے دارالحکومت کے مرکزی چوک پر قبضہ کر کے اُس کا نام قومی چوک سے تبدیل کر کے ”انقلابی چوک ” رکھ دیا۔ یہ عوامی تحریک عوام کی جیت پر متنج ہوئی اور بالآخر 30اکتوبر2014کو امریکہ کا اہم اتحادی اور عوام پر ناجائز طور پر قابض ، دارالحکومت میں 2007سے امریکی اڈہ قائم کرکے امریکہ کیلئے جاسوسی کرنے والا دھرتی کا غدار کمپیئورے داستان عبرت بن گیا ۔عوام کے اندر کئی برسوں سے پکنے والا لاوہ غم و غصے اور تحریک میں بدلاتو 27برسوں سے اقتدار پر قابض امریکہ کا ایک ایجنٹ اُس کے سامنے نہ ٹھہر سکا۔ 2011میں بھی اس آمر نے عوام کے غصے ،نفرت ،احتجاج کو طاقت کے ذریعے ،جبر اور ریاستی تشدد سے روکا ، سراپا احتجاج لوگوں کو پابند سلاسل کیا ، مگر عوامی غصے کو ،تحریک کو احتجاج کو وقت کے آمر کچھ وقت کیلئے ۔کچھ عرصہ کیلئے شاید روکنے میں کامیابی کے دعویدار ٹھہریں۔ اقتدار کی اندھی طاقت کے زعم میں عقل کل کہلائیں مگر اُن کی یہی منطق ،اقتدار کی اندھی طاقت کازعم نوشتہ دیوار بن کر تاریخ کا حصہ بن جایا کرتا ہے۔
کئی روز سے میں حکومتی اکابرین ،حواریوں کو اس منطق میں مبتلا دیکھتا ہوںجو طاقت کے اس خمار میں گھرے ہوئے ہیں ،کہ ہم نے عوام کے ووٹ پر ڈاکہ مار کر جعلی حکومت بنا لی ،تحریک انصاف کے ورکروں پر ناجائز کیس بنواکر انہیں پابند ِ سلاسل کردیا ،عمران خان کو پس دیوار زنداں ڈال کر عوامی تحریک کے سیلاب کے آگے بند باندھ دیا مگر وہ شاید بھول رہے ہیں کہ اب کی بار جب عوام باہر نکلے تو اُنہیں نہ تو کوئی اقتدار کی اندھی طاقت روک پائے گی اور نہ ہی ریاستی جبر اور تشدد عوامی جذبات پر ضرب لگا پائے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں