کیاتحریک ِانصاف پرپابندی ممکن ہے ؟
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
حکومت ایسی جماعت پر پابندی لگانا چاہتی ہے جس نے عام انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اگر عمل درآمد ہوجاتا ہے تو اراکین کے اعتبار سے قومی اسمبلی کی بھی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی، فیصلہ پر عمل رکوانے کے لیے حکومت نے فی الحال نظرثانی کی اپیل دائر کر دی ہے مگر عدالتی تاریخ شاہد ہے کہ ایسی کسی اپیل پر کوئی فیصلہ مکمل طور پرکبھی تبدیل نہیں ہوا کیونکہ ایسی اپیل کامقصد دراصل فیصلے میں رہ جانے والے سقم کی نشاندہی ہوتا ہے۔ اسی لیے چاہے تاخیر سے ہی آخر کار عدالتی فیصلہ تسلیم کرنا پڑے گا۔ مگر ایسی کسی نوبت سے حکومت خوفزدہ ہے اور پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں بے اثر بنانا چاہتی ہے جس طرح ماضی میں کرچکی۔ تحریکِ عدمِ اعتمادکی کامیابی پر پی ٹی آئی اراکین نے غم و غصے میں استعفے دے دیے جنھیں قبول کرنے سے ابتدامیں انکارکردیاگیا اورجب مستعفی اراکین پارلیمان نے حکومت کو زچ کرنے کے لیے استعفے واپس لے کرایوان میں آنے کی کوشش کی تو اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے مرحلہ وار استعفے منظور کرتے ہوئے ایسا نہ ہونے دیا۔ لیکن کیا اب ایسا ممکن ہے ؟میرے خیال میں نہیں کیونکہ چاہے حکومت پابندی لگانے کے حوالے سے سنجیدہ ہے مگر حالات وواقعات ایسے کسی خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قطعی طورپر سازگارنہیں۔
پی ٹی آئی پر پابندی اور عمران خان ،سابق صدر عارف علوی سمیت سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر آرٹیکل 6لگانے کی جس نے بھی حکومت کو تجویز دی ہے وہ اور سب کچھ ہو سکتا ہے مگر حکومت کا خیر خواہ ہر گز نہیں۔ وطن ِعزیز میں پابندیاں اور آرٹیکل 6لگانے کی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط ہے لیکن عمل درآمد کی کوئی ایک نظیر نہیں۔ بظاہر مذکورہ بالا فیصلہ ایک چال ہے جس کا مقصد سپریم کورٹ کی طرف سے وابستگی ظاہرکرنے کے لیے اراکین اسمبلی کو دی گئی پندرہ دن کی مدت تک پی ٹی آئی سے دور رکھناہے جب حکومتیں ہی عدالتی فیصلے تسلیم کرنے سے انکارکرنے لگیں تو عام آدمی کوبھی لامحالہ ایسی شہ ملے گی جس سے نہ صرف عدالتی وقار ختم ہو سکتا ہے بلکہ شہریوں کو طاقت کے بل بوتے پر اپنی مرضی کا فیصلہ کرنے اور منوانے کی ترغیب ملے گی بہتر یہ ہے کہ سیاسی اختلاف اپنی جگہ،حکومتی طاقت کے بل بوتے پرعدالتی فیصلوں کی عدم تعمیل اور انصاف کی راہ میں رخنہ ڈالنے سے باز رہا جائے۔ وگرنہ سیاسی استحکام خواب بن کررہ جائے گا اور انتشار وافراتفری کی راہ ہموار ہوگی جو ملک کی کمزور معاشی حالت میں مزید گراوٹ لانے اور سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کاباعث ہوگا۔
آج پی ٹی آئی کو جیسی صورتحال کا سامنا ہے ایسا ماضی قریب میں کئی جماعتوں کوہوچکا ۔دور کیوں جائیں پی ٹی آئی حکومت نے 2020 میں جئے سندھ قومی محاذپر پابندی لگائی اِس کا جواز جئے سندھ قومی محاذ سے منسلک دو گرہوں سندھودیش لبریشن آرمی اور سندھو دیش ریولوشنری آرمی کو دہشت گردی میں ملوث ہونا پیش کیا گیا ۔2021 میںٹی ایل پی پر بھی پُرتشددحملوں اور سیکورٹی اہلکاروں کی جانیں لینے کا الزام لگا کر پابندی لگا ئی گئی اورپھر احتجاج پر نہ صرف سربراہ سعد رضوی کو رہا کر دیا گیا بلکہ الیکشن کمیشن کی طرف سے ڈی لسٹ نہ کرنے سے ٹی ایل پی نے رواں برس کے عام انتخابات میں بھی بھر پور حصہ لیا۔ ماضی بعید میں سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگانے کے کئی تجربات کیے گئے تاکہ حکومتیں مستحکم اور اقتدارکو طوالت ملے ۔ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی حکومت نے حکومت ختم کرنے کی کوشش کا الزام لگا کر 1951میںکمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی۔ یہ وہ دور تھا جب روس اور امریکہ سرد جنگ شروع نیزدنیامیں کمیونزم کو فروغ مل رہاتھا۔ اسی بناپر خیال کیا جاتا ہے کہ امریکی ایما پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیاگیا۔ 1964میں ریاست مخالف سرگرمیوں اور غیر ملکی فنڈنگ کے الزام میں جماعت اسلامی پر پابند ی ، اہم رہنمائوں کو گرفتاراور دفاتر کو بند کر دیا گیا ۔پاکستان کے پہلے فوجی صدرایوب خان کے پابندی کے اِس فیصلے کو جماعتِ اسلامی کی قیادت نے چیلنج کیا جسے سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بطور جماعت بحال کر دیاپاکستان کے دوسرے فوجی صدریحییٰ خان نے بھی اپنے پیش روکی روایت کو قائم رکھاپرچم کی بے حرمتی اور قائد اعظم کی توہین کے الزام میں1971 میںشیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ پرپابندی لگا دی ۔یہ پابندی تحریک ِعدمِ تعاون کی بنیادبنی اور ملک دولخت کرنے کی اہم وجہ قرارپائی۔ علاوہ ازیں ولی خان کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کوبھی 1971میں پہلی بارپابندی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ دوسری بار 1975میں اِس جماعت پرذوالفقار علی بھٹونے پابندی لگائی لیکن پہلی بار پابندی لگنے پر نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی جبکہ دوسری بار عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے اِس جماعت نے سیاسی جدوجہد جاری رکھی۔ یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ملکی تاریخ چاہے پابندیوں کی طویل تاریخ رکھتی ہے لیکن اِس تاریخ کا سبق یہ ہے کہ پابندیاں لگانے والے بے نام و نشان جبکہ جماعتیں اب بھی سیاسی میدان میں فعال ہیں۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت کیوں ایسی کالک چہرے پر لگاناچاہتی ہے جسے مستقبل کا مورخ مذموم فعل قرار دے۔ اگر کوئی یہ سوال دریافت کرے کہ کیا تحریکِ انصاف پر پابندی ممکن ہے ؟ تومیرافوری جواب یہی ہوگا کہ ایسا کسی صورت ممکن نہیں کیونکہ ایسے کسی فیصلے کو خلاف ِآئین و قانون قرار دینے کے لیے عدالتیں موجود ہیں جو مخصوص نشستوں کافیصلہ دے کر ثابت کرچکیںکہ انصاف کرتے ہوئے کسی دبائو یاپسندکو خاطر میں نہیں لائیں گی۔
آئین کے تحت وفاقی حکومت کو اختیار ہے کہ کسی جماعت چاہے سیاسی ہو یا مذہبی،کوملکی سلامتی کے لیے خطرہ قراردیکر پابندی لگا سکتی ہے۔ اِس کا طریقہ کار یہ ہے کہ وزارتِ داخلہ مفصل الزامات کی سمری حکومت کو ارسال کرے جسے اگر وفاقی کابینہ منظور کرلے تو وزارتِ داخلہ کی طرف سے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا جاتا ہے۔ اِس فیصلے پر الیکشن کمیشن اگرڈی لسٹ کرتے ہوئے رجسٹریشن ختم کردے تو پابندی کی زد میں آنے والی جماعت کے اسمبلی ممبران کی رُکنیت بھی ختم ہو جائے گی۔ یہ سب کچھ اِتنا سادہ یا آسان نہیں کیونکہ پابندی کے محرکات کا ایسا ہونا ضروری ہے، جسے عدالتیں تسلیم کریں۔ موجودہ حالات میں ایسا کوئی امکان نہیں کہ عدلیہ حکومتی ہدایات کے مطابق چلے جب ملک کی سب سے بڑی عدالت متفقہ فیصلہ دے چکی کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے توپابندی کے فیصلے کو درست قراردینے کی کوئی وجہ نہیں رہتی ۔
پاکستان پہلے ہی مذہبی اور آزادی اظہار کے حوالے سے عالمی تنقید کی زد میں ہے۔ آئینی امور کے ماہرین پابندی کے حکومتی فیصلے کو غلط اور غیرجمہوری کہتے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے تحریک ِ انصاف پر پابندی کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے فوری طورپر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے ۔واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیوملرنے فیصلے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم انسانی حقوق ،آئینی اور جمہوری اصولوں کی پُرامن پاسداری کی حمایت کرتے ہیں۔ اِن حالات میں ممکن ہی نہیں کہ پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے پر عملدرآمد ہوسکے۔ ایسا کرنے کی کوششوں سے البتہ ملک کا جمہوری تشخص داغدارہو سکتاہے۔