اللہ کو جواب دینا ہے!!
شیئر کریں
جاوید محمود
۔۔۔۔۔۔
امریکہ سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسطینی شہادتوں کے اعداد و شمارکو عالمی اداروں کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ گزشتہ نو ماہ سے فلسطینیوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مارا جا رہا ہے جبکہ عالمی برادری بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ اسرائیل کے مہلک فضائی حملے جاری ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جنگ نے غزہ کی 90 فیصد آبادی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے ۔تقریباً پانچ لاکھ افراد کو تباہ کن بھوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور علاقے کے زیادہ تر ہسپتالوں کو بند کر دیا گیا ہے۔ 17اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں سے جاں بحق ہونے والے فلسطینیوں کی کل تعداد 38,153 تک پہنچ گئی ہے ۔ جس میں 15 ہزار سے زائد بچے ہیں اور 10ہزار سے زائد خواتین ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد 87 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ ابھی تک دنیا یہی سمجھ رہی ہے کہ غزہ میں شہید ہونے والوں کی تعداد وہی ہے جو وزارت صحت کے اعداد و شمار پر مبنی ہیں یعنی 38 ہزار کے آس پاس مگر حال ہی میں ایک ایسی چونکا دینے والی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس کے مطابق غزہ میں اب تک پونے دو لاکھ سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں ۔یہ انکشاف لندن سے شائع ہونے والے بین الاقوامی طبی جریدے لینسٹ نے کیا ہے ۔
غزہ میں اسرائیلی درندگی اور بربریت کا ننگا ناچ بلا روک ٹوک جاری ہے۔ ہر روز میڈیا میں اس کی دل دہلانے والی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ لیکن اب ہم ان خبروں کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ان پر شاز و نادر ہی نظر ڈالتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی چونکا دینے والی خبر منظر عام پر آتی ہے تو اس پر ضرور چہ مگوئیاں ہوتی ہیں ۔ایسی ہی خبر گزشتہ 8 جولائی کو جدہ لندن سے شائع ہونے والے بین الاقوامی طبی جریدے لینسٹ کے حوالے سے شائع ہوئی جسے بعض ہندوستانی ذرائع ابلاغ نے بھی نقل کیا۔ یہ خبر اس لیے چونکا دینے والی تھی کہ اب تک فلسطینی وزارت صحت کی طرف سے غزہ میں جاری بربریت کے نتیجے میں جو ہلاکتیں ہوئی ہیں ،ان کی تعداد 38 ہزار کے آس پاس بتائی جا رہی ہے اور اس میں ہر روز کچھ نہ کچھ اضافہ ہو رہا ہے لیکن لینسٹ نے جو اعداد و شمار شائع کیے وہ واقعی تشویش ناک ہیں۔ لینسٹ عالمی سطح پر ایک معتبر طبی جریدہ ہے اور اس کے اعداد و شمار کو کسی بھی طور جھٹلایا نہیں جا سکتا ۔جریدے کا کہنا ہے کہ غزہ میں گزشتہ نو ماہ سے جاری اسرائیلی حملوں میں مرنے والوں کی حقیقی تعداد ایک لاکھ 86ہزار سے زیادہ ہے۔ لینسٹ نے نشاندی کی ہے کہ جنگ میں ہلاکتیں صرف وہ نہیں ہوتیں جو حملوں کی زد میں ا کر براہ راست ہوتی ہیں بلکہ ان اموات کو بھی شمار کیا جانا چاہیے جو جنگ کی وجہ سے پیدا شدہ صورتحال کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس کے مطابق حملوں میں تقریباً 88ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم لینسٹ کی تحقیق کے مطابق اموات کی حقیقی تعداد کئی گنا زیادہ ہے کیونکہ اس میں وہ ہزاروں افراد شامل نہیں ہیں جو ملبے میں دب کر رہ گئے ہیں ،جو طبی سہولتوں کے تباہ ہو جانے کی وجہ سے مر گئے ۔یا جن کی موت غذاکی فراہمی متاثر ہونے یا عوامی ڈھانچے کے دیگر مسائل کی وجہ سے ہوئی ہے۔ لینسٹ کے مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ دنیا جانتی ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں اسرائیل نے غزہ پر جو آگ برسانی شروع کی تھی اس کے نتیجے میں 23لاکھ آبادی کی یہ محصور پٹی انسانی بے بسی اور لاچاری کا ایک ایسا مرکز بن گئی ہے جہاں زندہ رہنے کے تمام ذرائع ختم کر دیے گئے ہیں۔ بنیادی ڈھانچہ بُری طرح تباہ ہو چکا ہے۔ اسپتالوں سے لے کر پناہ گزین کیمپوں تک ہر جگہ تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔یوں تو غزہ میں پہلے ہی لوگ انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے تھے لیکن اسرائیل کی ننگی جاریت کے نتیجے میں وہاں زندہ رہنے کے سارے اسباب ختم کر دیے گئے ہیں۔ وہاں غذاؤں اور دواؤں کا ہی بحران نہیں ہے بلکہ بودو باش کی تمام راہیں مسدود کر دی گئی ہیں۔ غزہ ایک کھنڈر کی شکل میں دنیا کے سامنے ہے اور وہاں زندہ رہنا سب سے مشکل کام ہے۔ غزہ کی وزارت صحت نے 7اکتوبر کے بعد سے 8جون تک غزہ میں اسرائیلی حملوں میں 38ہزار افراد کے جاں بحق اور 10ہزار سے زیادہ کے لاپتہ ہونے کی تصدیق کی ہے۔ اس کے مطابق حملوں میں تقریبا 88ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں ۔تاہم لینسٹ کی تحقیق کے مطابق اموات کی حقیقی تعداد کئی گنا زیادہ ہے کیونکہ اس میں وہ ہزاروں افراد شامل نہیں ہیں جو ملبے میں دب کر رہ گئے ہیں جو طبی سہولتوں کے تباہ ہو جانے کی وجہ سے مر گئے یا جن کی موت غذا کی فراہمی متاثر ہونے یا عوامی ڈھانچے کے دیگر مسائل کی وجہ سے ہوئی ہے۔ لینسٹ کے مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے تنازعات میں تشدد کے اثر سے بالواسطہ اموات بھی بڑی تعداد میں ہوتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق غزہ جنگ اگر فوری طور پر بند بھی ہو جائے تب بھی اس کی وجہ سے ہونے والی اموات کا سلسلہ آنے والے کئی مہینوں اور برسوں تک جاری رہے گا جو جنگ کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں وسائل کی قلت اور دیگر وجوہات کا نتیجہ ہونگیں۔ لینسٹ نے غذا میں بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ غزہ میں بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوا ہے جس کی بنا پر اموات کی تعداد کہیں زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے ۔رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ غزہ کی قلت پانی کی عدم دستیابی اور رہائش کی کمی کے ساتھ ساتھ فلسطین کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کے فنڈ میں کمی آرہی ہے جس کا براہ راست اثر جنگ سے متاثرہ عام شہریوں کی زندگی پر پڑے گا ۔غزہ جنگ پر اپنی تحقیق رپورٹ میں لینسٹ نے نشاندہی کی ہے کہ حالیہ تنازعات میں دیکھا گیا ہے کہ حملوں کی وجہ سے براہ راست اموات کے مقابلے میں بالواسطہ اموات کی تعداد 15گنا سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ لینسٹ نے غزہ کے معاملے میں صرف چار گنا بالواسطہ اموات کا تخمینہ لگایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہر براہ راست موت کے ساتھ چار بالواسطہ اموات کے قدامت پسندانہ تخمینہ کو بنیاد بنائیں۔ تب بھی یہ اندازہ ناقابل فہم نہیں ہے کہ غزہ میں اس پوری جنگ سے ایک لاکھ 86 ہزار یا اس سے بھی زیادہ اموات ہو سکتی ہیں۔ اسرائیلی حملے شروع ہونے سے پہلے وہاں کی آبادی 23 لاکھ تھی۔ اس لحاظ سے لینسٹ کی تحقیق کے مطابق اسرائیلی حملوں میں غزہ کے آٹھ فیصد شہری جاں بحق ہو جائیں گے ۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ غزہ کا بحران اتنا سنگین ہے کہ اسے پوری طرح لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ سب سے بڑا المیہ شفا خانوں کے آس پاس وقوع پزیر ہو رہا ہے۔ بیشتر اسپتال تباہ کر دیے گئے ہیں۔ طبی کارکنوں اور ڈاکٹروں کی موت نے پورے نظام کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی علاقائی ڈائریکٹر ڈاکٹر بلخی کا بیان ہے کہ غزہ کے نظام صحت کی تباہی اور وہاں کے عوام نے جو شدید صدمے اٹھائے ہیں وہ اس قدر پیچیدہ ہیں کہ امدادی کارکنوں کے لیے ان کو سمجھنا ہی کافی مشکل ہے۔ ڈاکٹر بلخی کا کہنا ہے کہ ان کے لیے المناک کہانیوں کو سننا اور ان کے حوالے سے بات چیت کرنا مشکل ہے ۔امدادی ٹرکوں کے داخلے اور محدود رسائی کی وجہ سے غزہ کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو تباہ کن بھوک اور قحط کا سامنا ہے۔ غزہ کی 96فیصد آبادی مستقل بنیادوں پر شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہی ہے اور اس کی نصف سے زیادہ آبادی کے پاس اپنے گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے جبکہ 20فیصد افراد بغیر کچھ کھائے پیے دن اور راتیں گزار رہے ہیں۔ غزہ کی بھیانک صورتحال پر وہاں کے مشہور صحافی جاد ہیلس کی پوسٹ ملاحظہ فرمائیں جو صورتحال کی سنگین کو عیاں کرتی ہے ۔خدا کی قسم اگر اپ اہل غزہ پر ڈھائے جانے والے مظالم اور تکالیف دیکھیں تو آپ دنگ رہ جائیں۔ ذہن اس بات کو تسلیم نہیں کر پائے گا کہ آیا ایک انسان ان تمام مظالم اور تکالیف کو برداشت کر کے زندہ کیسے رہ سکتا ہے اور ان تکالیف کی شدت سے اس کی موت کیسے واقع نہیں ہوئی ۔خدا کی قسم اگر یہ تکالیف اور مشقتیں کسی چٹان پر گزرتی تو وہ تکلیف کی شدت سے پھٹ جاتی۔ سمندر پر اتنا ظلم ڈھایا جاتا تو وہ بخارات بن جاتا ۔دیو ہیکل پہاڑوں پر اگر اتنا ستم ڈھایا جاتا تو اس میں شگاف پڑ جاتے۔ لوہے جیسی مضبوط دھات تک اس تکلیف کی شدت سے پگھل جاتی۔ ہم نے جو آفتیں دیکھی ہیں۔ اس کے مقابلے میں آپ کی پریشانیاں ہیچ ہیں، بخدا یہ حقیقت ہے۔ ہم پر بیتنے والے دلسوز مناظر کے عادی نہ بنیں اسے ہماری عادی زندگی کی روٹین لائف نہ سمجھیں ۔بلا شبہ ہم کو تنہا بے یار و مددگار چھوڑنے والوں کو اللہ رب العزت دیکھ رہے ہیں اور ان سب کو اللہ رب العزت کے حضور جواب دہ ہونا ہے۔