الیکشن کے واضح اعلان کے باوجود بے یقینی موجود
شیئر کریں
وزیراعظم شہباز شریف کے اس اعلان کے بعد کہ 14 اگست کو موجودہ مخلوط حکومت اختیارات نگراں حکومت کے حوالے کرکے سبکدوش ہوجائے گی اور عام انتخابات کی تیاریاں شروع کردی جائیں گی،یہ ظاہرہوتاہے کہ ملک کی سیاسی صورتحال ایک نئے دور میں داخل ہونے والی ہے۔ وفاقی وزراء اور دیگر سیاستدانوں کے حالیہ بیانات سے بھی یہی تاثر ملتا ہے کہ اب موجودہ وفاقی حکومت کی مدت اگلے ماہ کے آغاز میں ختم ہوجائے گی۔ اسمبلیاں تحلیل ہوجائیں گی اور انتخابات اسی سال اور بر وقت ہوں گے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے پہلی بار اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے بعد نگران سیٹ اپ کی بات کی ہے، اس لیے اسے قابل بھروسہ تصور کیا جا رہا ہے۔وزیر اعظم نے اگست میں اقتدار چھوڑنے کی بات یقینا اپنے اتحادیوں کے ساتھ حالیہ عرصے میں ہونے والے مذاکرات کے بعد طے پانے والے اتفاق رائے کے بعد کی ہے۔ وزیراعظم کے اعلان کو پیش ِ نظر رکھا جائے تو اب ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں اقتدار کا منظرنامہ تبدیل ہو جائے گا۔ نگران حکومتیں آ جائیں گی اور الیکشن کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوگا،لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انتخابات کے بارے میں وزیراعظم کے دو ٹوک اعلان اور موجودہ کابینہ کے اہم وزرا کے بیانات کے باوجود ملک میں کہیں بھی ایسی کوئی سرگرمی نظر نہیں آتی جس سے اندازہ ہوسکے کہ ملک میں انتخابات اتنے قریب ہیں، ایک مبہم سی فضا ہے جس نے سارے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔یہاں یہ سوال بھی بار بار اٹھایاجارہاہے کہ کیا الیکشن کمیشن اکیلا انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے؟ کیا وہ واقعی اتنا بااختیار ہے۔یہی وہ سوال ہے جس کی بنا پروزیراعظم کے واضح اعلان کے باوجود غیر یقینی موجود ہے۔ اس صورت حال کا بنیادی سبب وزیراعظم کی جانب سے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کیا جانا ہے۔ اس وقت جو 13جماعتیں اقتدار میں موجود ہیں، اگر وہ اس حوالے سے یکسو ہو جائیں اور انتخابات کے حوالے سے ابہام زدہ کیفیت سے نکل آئیں تو پھر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ انتخابات اکتوبر یا نومبر میں ہو جائیں گے، ابھی تو خود ان جماعتوں کے اندر سے مختلف آوازیں سامنے آ رہی ہیں۔ کوئی کہتاہے کہ انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں کوئی اس سیٹ اپ کی مدت بڑھانے پر مُصر ہے۔ اس سیٹ اپ کی مدت بڑھانے کی سب سے زیادہ مخالف پیپلزپارٹی ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ ایک بار انتخابات مقررہ وقت سے آگے گیا تو پھر انتخابات کی امید بہت دور چلی جائے گی۔ تاہم حیران کن امر یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس حوالے سے دوٹوک موقف اختیار نہیں کر رہی۔ وزیراعظم شہبازشریف نے یہ تو کہہ دیا ہے کہ 14اگست کو حکومت کی مدت ختم ہو رہی ہے، یہ نہیں کہا کہ اس کے بعد 60دن کے اندر انتخابات ہوں گے۔ یہ معاملہ الیکشن کمیشن پر چھوڑ دیا ہے۔ حالانکہ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ انتخابات مقررہ وقت کے اندر ہونے چاہئیں اور اس حوالے سے کوئی تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔جب نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے کئے جاتے ہیں تو سیاست اصولوں اور روایات سے ہٹ کر کسی اور سمت چلی جاتی ہے۔ کسی خاص جماعت کی مقبولیت کا ہوا کھڑا کرکے جمہوری روایات سے انحراف کرنا یا کوئی چور راستہ اختیار کرنا ملک کو نئی سیاسی بے یقینی سے تو دوچار کر سکتا ہے، مستحکم نظام کی طرف نہیں لے جا سکتا۔ اگر وزیراعظم شہبازشریف یہ سمجھتے ہیں کہ ایک ماہ بعداس سیٹ اپ کی مدت ختم ہونی والی ہے تو انہیں فوراً اپنی اتحادی جماعتوں کا اجلاس بلا کر اس یک نکاتی ایجنڈے پر مشاورت کرنی چاہیے کہ اسمبلیاں کب توڑی جائیں اور الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے کیا تجویز بھیجی جائے۔یہ بات واضح ہے کہ اگر انتخابات وقت پر اور شفاف ہوئے تو پاکستان کئی بحرانوں سے نکل آئے گا، جن میں معاشی بحران بھی شامل ہے۔ یہ سیاسی جماعتوں کا امتحان ہے کہ وہ تاریخ کے اس دوراہے پر دانشمندانہ فیصلے کرکے ملک کو استحکام اور ترقی کی راہ پر ڈال دیں۔یہ بات خوش آئند ہے کہ اب خود حکومتی حلقے اور مقتدر وزرا نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کو الیکشن میں حصہ لینے سے نہیں روکنا چاہیے۔سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور مسلم لیگ(ن) کے رہنما ایاز صادق نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ الیکشن میں کسی سیاسی جماعت پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ جبکہ اس سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے ہی چند وزراء جن میں رانا ثنا اللہ بھی شامل ہیں 9مئی کے واقعات کو بنیاد بنا کر تحریک انصاف پر پابندی لگانے اور الیکشن میں حصہ لینے سے روکنے کی بات کرتے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ تحریک انصاف کو روکنے کیلئے پوری تیاری کر لی گئی ہے، اگرچہ حکومتی حلقوں سے کسی بھی سیاسی پارٹی کو الیکشن میں حصہ لینے سے نہ روکنے کا مطالبہ کیاجارہاہے لیکن حکومتی سطح پر تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے کا عمل اب بھی زور شور سے جاری ہے اور حکومت کی جانب سے عمران خان کو الیکشن کے عمل سے باہررکھنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے، جس طرح تحریکِ انصاف کو پابندیوں کا سامنا ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ اسے الیکشن میں فری ہینڈ دیا جائے گا۔ تاہم تحریک انصاف یا عمران خان کو انتخابات سے باہر رکھنے کی کوشش کرنے والی تمام طاقتوں کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ پاکستان میں جب بھی انتخابات ہوں گے، دنیا بھر کے میڈیا اور مبصرین کی نظریں اُن پر ہوں گی، اُنہیں نظرانداز کرنا غلطی ہو گی کیونکہ پہلے ہی پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی سطح پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔مسئلہ پی ڈی ایم حکومت کے رخصت ہونے سے حل نہیں ہو سکتا۔ عوام کا مطالبہ عام انتخابات ہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں شرکت کے یکساں مواقع ملیں۔کسی جماعت کو انتخابی عمل سے نکالنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کو حق رائے دہی کے استعمال سے روک دیا جائے یا ان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ ایسا ہونے کی صورت میں نئی حکومت عوام کا اعتماد حاصل نہیں کر سکے گی۔ پاکستان مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔مشکل سے نمٹنے کے لئے تصادم کے بجائے سیاسی سطح پر مشاورت اور اتفاق کے ساتھ قومی ایجنڈا ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ آئین پاکستان انتخابی طریقہ کار، ذمہ داریوں،نگران حکومتوں اور سیاسی نمائندگی کے متعلق واضح رہنمائی کرتا ہے۔یہ امر مبنی بر بدنیتی تصور کیا جا سکتا ہے کہ آئین میں موجود بعض خامیوں کو قانونی آڑ بنا کر کسی کو بھی انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی روش اختیار کر لی جائے، یہ سلسلہ اب ترک ہونا چاہئے اور الیکشن کو زیادہ صاف،شفاف اور منصفانہ بنانے کیلئے تحریک انصاف کے ان ہزاروں کارکنوں کو فوری طورپر غیرمشروط طورپر رہا کیاجانا چاہئے جنھیں گزشتہ کئی ماہ سے مسلسل پابند سلاسل رکھ کر ان کی برداشت کی حد کی آزمائش کی جارہی ہے تاکہ وہ رہائی حاصل کرکے ملک میں اپنی پسند کی حکومت کے قیام کیلئے آزادانہ طورپر اپنا حق رائے دہی استعمال کرسکیں۔نگران حکومت کو غیر جانبدار ہونا چاہیے۔پنجاب جیسا انتظام مرکز میں کیا گیا تو آئندہ انتخابات مشکوک ہو سکتے ہیں، اور ملک کبھی نہ ختم ہونے والے سیاسی عدم استحکام کی جانب جا سکتا ہے۔ سیاسی مفاد اور ذاتی اغراض جب ریاست کے مفاد سے بلند ہو جائیں تو ریاست کیلئے روز مرہ کی ادائیگی مشکل ہو جاتی ہے۔ریاست کو یہ خرابی فوری طور پر دور کرنے پر توجہ دینا ہو گی جو عوام کے بھروسے کو مجروح کر رہی ہے۔ملک میں موجودہ غیر یقینی کی کئی وجوہات موجود ہیں۔ یہ وجوہات خود پی ڈی ایم جماعتوں نے پیدا کی ہیں اس لئے ان کا رفع کرنا بھی حکمران اتحاد اور اس کے قائدین کی ذمہ داری ہے۔
اس وقت بظاہر صورت حال یہ ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) حکومت کی مدت ختم ہونے سے قبل ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ تاحال حکومت کی اتحادی پارٹیوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا ایک ہی بینر تلے الیکشن لڑنے کا کوئی معاہدہ نہیں ہوسکاہے اور تمام پارٹیاں آزادانہ طور پر عام انتخابات کے میدان میں اترنے کیلئے منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔حکومت کی مدت ختم ہونے کے قریب ہے اور اسی دوران دبئی میں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے مابین ملاقاتیں اہمیت اختیار کرچکی ہیں جن میں اطلاعات کے مطابق نئے عبوری سیٹ اپ اور عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے مستقبل کے سیاسی منظر نامے پر تبادلہ خیال کیا جاچکا ہے لیکن کسی بات پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے اس کی تفصیلات منظر عام پر لانے سے گریز کیاجارہاہے۔
امیدکی جاتی ہے کہ الیکشن رواں برس ہوں گے اور لوگوں کو اپنے حکمرانوں کو خود چننے کا اختیار دیا جائے گا۔ہوسکتا ہے کہ مشکلات کا شکار پی ٹی آئی جیتنے کی پوزیشن میں نہ ہو لیکن اپنے مخالفین کا بھرپور مقابلہ ضرور کرسکتی ہے۔دوسری جانب جہانگیر ترین کی پارٹی استحکام پاکستان شاید ملک کی آئندہ کی سیاسی صورتحال میں کوئی فیصلہ کن کردار ادا نہ کرسکے، پھر بھی یہ امید اپنی جگہ قائم رہے گی کہ آئندہ آنے والے دور میں ملک سیاسی بحران سے نکلے اور معاشی صورتحال بھی بہتری کی جانب لوٹ آئے تاہم انتخابات کی حتمی تاریخ کے اعلان تک پی ڈی ایم جماعتوں کے مابین مزید بڑے اختلافات کے خدشات بھی جنم لیتے رہیں گے۔