سندھ کے سیاسی و انتظامی مسائل اور اُن کا قانونی حل ؟
شیئر کریں
کیا ہی اچھا ہو،اگر مغربی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر ایوان ِ اقتدار تک پہنچنے والا سیاست دان، اپنے دورِ حکمرانی میں ’’عوامی خدمت ‘‘ کے سنہری اُصول کو اپنی ترجیح اوّل بنالے ۔مگر یہ خواب اُس وقت تک حقیقت کا روپ دھار نہیں سکتا ،جب تک عوام اپنے ’’سیاسی نمائندہ ‘‘کا انتخاب زبان ، نسل ، برادری اور قومیت کی پیش نظر رکھ کر کرتے رہیں گے۔بدقسمتی سے گزشتہ چالیس برسوں میں سندھ کی سیاست میں فیصلہ کن حیثیت اور فوقیت ’’خدمت ‘‘ کے بجائے ’’عصبیت ‘‘ کی سیاست کو ہی حاصل رہی ہے۔زیادہ نہیں تو کم ازکم تین دہائیوں تک اُردو بولنے والے صرف زبان کی بنیاد پر اپنے ’’عوامی نمائندے ‘‘ منتخب کرکے ایوانِ اقتدار میں بھیجتے رہے مگر جواب میں انہیں جو ’’سیاسی فصل ‘‘ تیار حالت میں حاصل ہوئی اُس میں پھل اور پھولوں کے بجائے ’’کانٹے ‘‘لگے ہوئے تھے۔
مگر دوسری جانب سندھی بولنے والوں نے بھی لسانی تعلق کی وجہ سے جن ’’اپنوں ‘‘ کو اپنے قیمتی ووٹ کی طاقت سے منتخب کروا کر صوبہ کا مالک و مختار بنایا ،افسوس صد افسوس کہ انہوں نے بھی دیہی سندھ کے لیے کچھ نہ کیا اور نہ ہی کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کراچی اگر پینے کے پانی سے محروم ہے تو اندرون ِ سندھ میں بھی ہر طرف خاک ہی اُڑرہی ہے۔ بنیادی صحت کی سہولیات جہاں کراچی کے ہسپتالوں میں عنقا ہیں تو وہیں دیہی سندھ میں بھی غریب لوگ کتے اور سانپ کے کاٹنے سے سسک سسک اس لیے مر جاتے ہیں کہ ہسپتالوں میں ادویات ہی دستیاب نہیں ہوتیں۔بے روزگاری اور بے کاری کا طوفان کراچی کے نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے تو اندرونِ سندھ کا نوجوان بھی جاگیرداروں کی اوطاق میں بے کسی و لاچاری و تصویر بنا کسی بے جان پتھر کے بت کی مانند کھڑا نظر آتاہے۔حد تو یہ ہے کہ رشوت کا بازار کراچی ، حیدرآباد سمیت سندھ کی ہرچھوٹی بڑی تحصیل ،قصبہ اور یونین کونسل میں بھی یکساں گرم ہے۔
دراصل سندھ میں حقیقی تقسیم زبان،نسل اور علاقے کی بنیاد پر نہیں بلکہ ’’کلاس ‘‘کے حساب سے ہے ۔یعنی اَپر اور متمول کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد شہری سندھ سے ہوں یا دیہی سندھ سے ، وہ صوبہ کے تما م وسائل، نوکریاں اور انتظامی اختیارات پر قابض ہونا اپنا ’’سیاسی حق ‘‘ سمجھتے ہیں۔ جبکہ درمیانی اور نچلے طبقہ کے افراد خواہ اُن کا واسطہ شہر سے ہو یا گاؤں سے۔بہرکیف اُن کی قسمت میں ’’کاتبانِ سیاست ‘‘ نے انتظامی اور سیاسی استحصال کا شکا ر ہونا لکھ دیا ہے۔یوں جان لیجئے کہ سندھ کے شہروں اور گوٹھ ،دیہات میں رہنے والے آپس میں بقائے باہمی کے مسلمہ اُصول کے تحت اَمن و آشتی کے ساتھ رہنا چاہتے ہی نہیں بلکہ رہ بھی رہے ہیں۔ لیکن سیاسی رہنما اپنی اپنی سیاست کو پروان چڑھانے کے لیے ہمیشہ ہی شہری اور دیہی سندھ کے عوام کے درمیان زیادہ سے زیادہ دُوریاں اور اختلافات پیدا کرنے کے در پر رہتے ہیں۔
حالات اتنے نازک اور بدتر ہو چکے ہیں کہ اَب تو چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس گلزار احمد بھی اپنے ریمارکس میں کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ’’ سوائے سندھ کے پورا ملک ترقی کر رہا ہے،ایک طویل عرصے سے آپ کی حکومت ہے صوبے میں لیکن کیا ملا شہریوں کو؟، سندھ میں کوئی حکومت نہیں، یہاں لندن، دبئی اور کینیڈا سے حکم چلتا ہے، صوبے کا اصل حکمران یونس میمن ہے۔سندھ حکومت کا ایک ہی منصوبہ ہے صوبے کو بد سے بدتر بنائو، جولوگ ایک نالہ صاف نہیں کرا سکتے وہ صوبہ کیسے چلائینگے،جب واٹر بورڈ صارفین کو پانی کیوں نہیں دیتا، ختم کریں ایسا ادارے کو‘‘۔سندھ حکومت کے وکیل کو مخاطب کرکے کہے جانے والے یہ ریمارکس سندھ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور اُس کی حکومت کے لیے ایک چارج شیٹ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اگر یہ ہی الفاظ چیف جسٹس آف پاکستان کے بجائے کوئی اور شخص کہتا تو اُس پر باآسانی ’’سیاسی جانب داری ‘‘ کا الزام دھرا جاسکتاتھا۔ لیکن پاکستان کے سب سے بڑے اور خالص انتظامی ادارے کے سربراہ کی جانب سے صوبہ سندھ کے انتظامی معاملات پر عدم اعتماد اور سخت سرزنش کا اظہار لمحہ فکریہ ہے۔
واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے مذکورہ ریمارکس سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں مختلف زیر سماعت مقدمات کے دوران دیئے گئے۔ معزز چیف جسٹس کا اپنے ریمارکس میںمزید کہنا تھا کہ’’ کسی نے کل ویڈیو کلپ بھیجا ہے بوڑھی عورت کو کس طرح سے اسپتال لے جایا جارہا تھا ،جائیں اندرون سندھ میں خود دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ سب نظر آجائیگا کہ ہو کیا رہا ہے یہاں۔ پتا نہیں کہاں سے لوگ چلتے ہوئے آتے ہیں جھنڈے لہراتے ہوئے ،شہر میں داخل ہوتے ہیں اور کسی کو نظر نہیں آتے۔ کم از کم 15، 20 تھانوں کی حدود سے گزر کر آئے ہوں گے کسی کو نظر نہیں آیا۔ ابھی تو وہاں رک گئے تھے، کل یہاں بھی آجائیں گے‘‘۔چیف جسٹس صاحب کا اشارہ گزشتہ دنوں قوم پرست جماعتوں کی صفوں میں چھپے ہوئے شرپسند عناصر کی طرف سے بحریہ ٹاؤن پر ہونے والی یلغار سے تھا۔یاد رہے کہ بحریہ ٹاؤن کے واقعہ نے جب پاکستان کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان افراد کو اس قدر تشویش میں مبتلاء کردیا ہے تو اَب آپ خود ہی اندازہ لگالیں اس حادثے کے رونما ہونے کے بعد اہلیان کراچی کے عدم تحفظ اور اندیشوں کا عالم کیا ہوگا؟۔
علاوہ ازیں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کنٹونمنٹ علاقوں اور ڈی ایچ اے سمیت شہر کے دیگر علاقوں میں پانی کی فراہمی سے متعلق کراچی رجسٹری میں سماعت بھی کی۔ چیف جسٹس نے ایم ڈی واٹر بورڈ کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ’’ جب ٹینکر میں پانی آتا ہے تو گھروں کو کیوں نہیں ملتا؟ ڈی ایچ اے کی سڑکیں بھی تباہ حال ہیں۔ واٹر بورڈ صارفین کو پانی کیوں نہیں دیتا؟ ہاکس بے کی طرف نئی سوسائٹیز بن رہی ہیں سارا پانی وہاں ڈائیورٹ ہورہا ہے۔ کراچی والے کیا کریں گے؟ کراچی کو پانی کیسے ملے گا؟۔ سب پانی چوری میں ملوث ہیں‘‘۔ چیف جسٹس نے ایم ڈی واٹر بورڈ کو جھاڑ پلاتے ہوئے مزید کہا کہ’’ آپ شہریوں کو پانی نہیں دیتے تو کیوں بیٹھے ہوئے ہیں؟ اس ادارے کے رہنے کا کیا مقصد؟ ختم کریں ایسا ادارہ‘‘۔یہ سب وہ سوالات اور اعتراضات ہیں ،جو سندھ کی عوام کے اذہان میں برسوں سے پنپ رہے ہیں لیکن ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے جس قدر سیاسی ہمت اور انتظامی طاقت درکا ہے ، وہ شاید صرف اعلیٰ عدلیہ کے پاس ہی ہے ۔اس لیے اہلیانِ سندھ عدلت عظمی سے قوی اُمید رکھتے ہیں اگراُس نے عوامی مسائل کا’’قانونی تذکرہ ‘‘چھیڑ ہی دیا ہے تو یقینا ایک قدم مزید آگے بڑھاتے ہوئے مسائل کے حل کے لیے کوئی مستقل سیاسی و انتظامی بندوبست بھی فرمادیا جائے ۔
؎۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔