ذات پات کا نظام بھارت کی ترقی میں بڑی رکاوٹ
شیئر کریں
(مہمان کالم)
رام پنیانی
بھارت میں کمزور طبقات کی سماجی و اقتصادی حالت میں بہتری لانے یا اسے بہتر بنانے میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘ وہ یہاں کا ذات پات کا نظام ہے۔ ذات پات کی جو درجہ بندی ہے، اس میں سب سے نچلے حصے میں پائے جانے والی ذات کو اس نظام کے ذریعے سب سے زیادہ دبائو کا شکار بنایا گیا ہے۔ ذات پات کے اس نظام میں انہیں دلتوں یا پھر شیڈول کاسٹ یعنی ’’ایس سی‘‘ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ دوسری بھی کئی ذاتیں ہیں، جو ذات پات کی درجہ بندی میں نچلی سطح پر ہیں۔ ذات پات کے اس نظام میں انہیں شیڈول ٹرائبل (ایس ٹی) اور دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کا نام دیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو بھارت میں صدیوں سے پسماندہ طبقات اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ہاتھوں ظلم و ستم و استحصال کا شکار بنے ہوئے ہیں اور مذہب کے لبادے میں ان کے ساتھ غلامی کا ایک نظام چلایا جارہا ہے۔ مذہبی کتابوں میں بھی ذات پات کی اس درجہ بندی کو پیش کیا گیا ہے۔ ایسی ہی ایک مذہبی کتاب ’’منوسمرتی‘‘ کو ذات پات کے نظام سے شدید نفرت کرنے والے اور اس کے سب سے بڑے مخالف ڈاکٹر بھیم رائوبابا صاحب امبیڈکر کی جانب سے منظم کردہ ایک عوامی احتجاج میں نذرِ آتش کیا گیا تھا۔
آزادی سے پہلے بھی ذات پات کے نظام کے تحت شیڈول کاسٹ اور قبائل پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے اور انہیں انسان ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ انگریزوں کے خلاف جب ہندوستانیوں نے تحریک آزادی شروع کی‘ تب ملک میں ذات پات کی ساخت کی مخالفت کا آغاز ہوااور ڈاکٹر امبیڈکر جیسی شخصیتوں نے اس کی شدت سے مخالفت کی اور اس مخالفت پر برہمنی قوم پرستی کی جانب سے ردعمل ہندو قوم پرستی کی شکل میں ظاہر کیا گیا۔ ہندو قوم پرستی دراصل کمزور طبقات پر ظلم و جبر اور انہیں دبانے کے بارے میں سب سے زیادہ ضد و ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتی ہے اور یہی برہمنی قوم پرستی ہندو قوم پرستی کے طور پر پیش کی جاتی ہے اور آج ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کی شکل میں اپنے نظریات کا پرچار کر رہی ہے۔ آر ایس ایس نے گزرتے وقت کے ساتھ خود کو استحکام بخشا اور آج حال یہ ہے کہ وہ اس ملک کی سب سے طاقتور تنظیم بن کر ابھری ہے۔ اس کے بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ زمانہ قدیم کی ذات پات، صنفی امتیاز و درجہ بندی اور عدم مساوات کو بحال کرنے کے لیے کام کررہی ہے۔ آر ایس ایس زندگی کے ہر شعبہ میں داخل ہوگئی ہے اور اس کی ذیلی تنظیم بی جے پی سیاسی شعبہ میں کام کررہی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی پچھلے سات برسوں سے ملک پر حکمرانی کررہی ہے اور وہ اپنا ایجنڈا پیش کرنے میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتی بلکہ اپنے ایجنڈے کو‘ جو دلتوں اور دیگر کمزور طبقات کے خلاف ہے‘ بڑی تیزی سے آگے بڑھا رہی ہے۔ جہاں تک بی جے پی کا تعلق ہے، بی جے پی خود کو دلتوں سے قریب بتانے کوشش کرتی ہے جبکہ اس کی تمام تر پالیسیاں دلتوں کو دبانے اور انہیں اپنے حق سے محروم کرنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ انتخابی مقاصد کے لیے آر ایس ایس اور بی جے پی نے دلتوں کا بہتر انداز میں استعمال کرنے کی خاطر کئی حکمت ہائے عملی طے کیں اور پالیسیوں کو ایسی جانب رواں دواں کیا جو دلتوں کی ہمہ جہت تباہی کو یقینی بناتی ہیں‘ جن میں دلتوں کے اقتصادی حالات بھی شامل ہیں۔
1980ء کی دہائی میں بی جے پی نے اپنی مہم کا آغاز کیا اور اسی وقت سے وہ سیاسی طور پر ملک کی صف اول کی جماعتوں میں شامل ہوگئی۔ 1990ء میں اس وقت کے وزیراعظم وی پی سنگھ نے منڈل کمیشن پر عمل درآمد کا آغاز کیا۔ منڈل کمیشن دراصل دیگر پسماندہ طبقات کو 27 فیصد کوٹہ دیتا تھا۔ اس سے پہلے ہی شیڈول کاسٹ کو15 فیصد تحفظات، شیڈول قبائل کو 7.5 فیصد کوٹہ حاصل تھے اور وی پی سنگھ نے اس میں او بی سی کے لیے 27 فیصد کا اضافہ کیا۔ اس سے بی جے پی کو اپنی طاقت اور تائید و حمایت کا دائرہ وسیع کرنے میں مدد ملی۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ وی پی سنگھ‘ ایس سی ، ایس ٹی اور او بی سی کے لیے کوٹہ نظام پر عمل کروارہے ہیں، اعلیٰ ذات طبقہ نے آگے بڑھ کر رام مندر کی تعمیر اور اس کے تخریبی ایجنڈے سے متعلق بی جے پی کی مہمات کی تائید کی۔ اس طرح وی پی سنگھ نے ملک میں سماجی مساوات کا فارمولا نافذ کرنے کی جو کوشش کی تھی ، وہ پس منظر میں چلا گیا جبکہ شناخت پر مبنی رام مندر مہم نے معاشرے میں کمزور طبقات کی حالت ِ زار پر سے توجہ ہٹانے کا مقصد بھی پورا کردیا۔
2004ء سے 2009ء تک یو پی حکومت نے حقوق پر مبنی طریقہ کار اپنایا۔ حقِ معلومات، حقِ ملازمت ، حقِ تعلیم، حقِ صحت اور حقِ غذا پیش کیا، اس سے خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے دلتوں کی ایک کثیر تعداد کو بہت فائدہ ہوا۔ آزادی کے بعد کئی دہائیوں سے دلتوں کو ترقی دینے اور انہیں ترقی کے ثمرات سے بہرور کرنے کے لیے جو اقدامات کیے گئے‘ ان سے کچھ حد تک دلتوں کو اوپر اٹھانے میں مدد ملی۔ ایک اور سکالر دلیپ منڈل کا کہنا ہے کہ معاشی بنیادوں پر کوٹے متعارف کروانے سے دلتوں کا موقف مزید کمزور ہوگا۔ بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے نے معاشی بنیادوں پر اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والوں کے لیے 10 فیصد کوٹے کی منظوری کے لیے قرارداد منظور کی۔ یہ پیمانہ یا کسوٹی، دلتوں‘ او بی سیز کو حاصل کوٹے کی قیمت پر آبادی کے ایک بڑے حصے کو کوٹے کا حقدار بنانے کے لیے کافی ہے۔ اس کے بعد 2014ء تک‘ ایسی مدت ہے جب کانگریس نے بھی دلتوں کی بھلائی کے لیے کوششیں نہیں کی اور نہ ہی دلتوں کی حمایت میں یا ایجنڈوں پر عمل درا?مد کیا جبکہ دوسری طرف بی جے پی ، کوٹے کی پالیسی کی مسلسل مخالفت کررہی تھی اور ساتھ ہی دلتوں کو اپنے نظریاتی و سیاسی گھیرے میں شامل بھی کرتی جارہی ہے۔ اس کا ایک ہی مقصد تھا کہ دلتوں کے لیے کوٹہ سسٹم باقی نہ رہے اور وہاں وہ بی جے پی کے فرقہ وارانہ نظریے سے پوری طرح جڑ جائیں۔ سیاسی شعبے میں بی جے پی کا اہم منصوبہ شناختی سیاست ہے اور یہ سیاست مذہب کے نام پر لوگوں کو تنقید کرنے اور اقلیتی طبقے کی اکثریت میں احساسِ خوف پیدا کرنے کی بنیاد پر ہے اور اپنے اس مقصد کی تکمیل کے لیے وہ اقدامات کررہی ہے جبکہ پہلے ہی سے وہ رام مندر کا مسئلہ اچھالتی رہی ہے لیکن 2014ء سے جب بی جے پی نے پہلی مرتبہ اکثریت حاصل کی‘ اس نے مقدس گائے اور اس کے تحفظ کو سب سے بڑا مسئلہ بنالیا جس کا نتیجہ دلتوں اور مسلمانوں کی ہجومی تشدد میں ہلاکتوں کی شکل میں برآمد ہوا۔ دلت اور مسلم ہی ذبیحہ گائو اور چمڑے کے کام سے تعلق رکھتے ہیں۔گائے کے مسئلہ پر 8 برسوں (2010ء سے 17ء تک ) کے دوران ہجومی تشدد کے 63 واقعات پیش آئے جن میں 28 بھارتی مارے گئے جن میں سے 86 فیصد مسلمان تھے۔ ان میں 97 فیصد واقعات مئی 2014ء میں وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد پیش آئے اور گائوکشی کے نام پر جو 63 واقعات رونما ہوئے، ان میں نصف تعداد ان ریاستوں سے تعلق رکھتی ہے جہاں بی جے پی برسرِاقتدار ہے۔
دوسری طرف دلتوں کے کوٹے کی بات تو کی جاتی ہے لیکن یونیورسٹیز میں ہی دیکھ لیجئے۔ 2018ء میں یو جی سی نے فیکلٹی جاب کے لیے اشتہار دیا جس میں ایس سی کے لیے 2.5 فیصد عہدے رکھے گئے جبکہ ایس سٹیز کے لیے کوئی عہدہ نہیں تھا جبکہ ایس سی کے لیے 15 فیصد‘ ایس ٹی کے لیے 7.5 فیصد اور او بی سی کے لیے 27 فیصد کوٹہ مقرر ہے۔وزارتِ اقلیتی اْمور کے امیتابھ کانڈو کے مطابق‘ دیہی علاقوں میں رہنے والے 44.6 فیصد شیڈول قبائل، 33.8 فیصد شیڈول ذاتوں کی ا?بادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ (یہ اعداد و شمار 2011 سے 12ء کے ہیں) جبکہ 30.8 فیصد بھارتی مسلمان انتہائی غریب ہیں۔ اس کے بہ نسبت شہری علاقوں میں 27.3 فیصد ایس ٹیز اور 21.8 فیصد ایس سیز غریب ہیں‘ اس کے برعکس شہری علاقوں میں 26.5 فیصد مسلمان خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔