ڈالر ختم ہونے کے باعث آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا،شوکت ترین
شیئر کریں
وفاقی وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ ڈالر ختم ہونے کے باعث ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا،غیر ملکی قرضے کی لاگت بڑھ گئی، بجلی اور گیس کے ٹیرف بھی بڑھا دیئے گئے، اس سے مہنگائی بڑھی اور انڈسٹری پر بھی منفی اثر پڑا ۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ حکومت جب آئی تو گروتھ کے باوجود مسائل بہت زیادہ تھے، کرنٹ اکائونٹ خسارہ 19 سے 20 ارب ڈالر تھا، مجموعی مالی خلا 28 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا، ڈالر ختم ہونے کے باعث ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، آئی ایم ایف اس بار پاکستان کے ساتھ فرینڈلی نہیں تھا۔انہوں نے کہاکہ پیپلز پارٹی دور میں آئی ایم ایف نے اچھا پیکیج دیا تھا، اس بار ہمیں آئی ایم ایف کی کڑوی گولی کھانا پڑی، آئی ایم ایف نے شرح سود 13 اعشاریہ 25 فیصد تک لے جانے کا مطالبہ کیا، اس سے ایک سال میں قرضوں کی لاگت 1400 ارب روپے بڑھ گئی۔ انہوںنے کہا کہ شرحِ تبادلہ بھی 168 تک چلا گیا، غیر ملکی قرضے کی لاگت بڑھ گئی، بجلی اور گیس کے ٹیرف بھی بڑھا دیئے گئے، اس سے مہنگائی بڑھی اور انڈسٹری پر بھی منفی اثر پڑا، اس سے معیشت سست روی کا شکار ہو گئی، یہی آئی ایم ایف کا طریقہ کار ہے۔ اس سے معاشی شرح نمو 2 اعشاریہ 1 پر گئی، پھر کورونا کی وبا آگئی، کورونا آنے سے سب کچھ بند ہو گیا، پاکستانی معیشت منفی 0.47 فیصد پر چلی گئی،ہر سال ایک فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی بڑھائیں گے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو 20 فیصد تک لے جانا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ اس سال 4700 ارب، اگلے سال 5800 ارب سے زیادہ ٹیکس ریونیو ہو گا، نان ٹیکس ریونیو ملا کر مجموعی آمدن 8 ہزار ارب روپے ہو گی، زرعی شعبہ ہماری اولین ترجیح ہے، ہم خوراک کی قلت کا شکار ہیں، دالوں اور گھی سمیت ہر چیز درآمد ہو رہی ہے، یہ ساری چیزیں عام آدمی کو متاثر کرتی ہیں۔