میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جسٹس قاضی فائز کیس ریفرنس میں بدنیتی ہوئی تو کیس خارج ہوسکتا ہے،سپریم کورٹ

جسٹس قاضی فائز کیس ریفرنس میں بدنیتی ہوئی تو کیس خارج ہوسکتا ہے،سپریم کورٹ

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۷ جون ۲۰۲۰

شیئر کریں

سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہاہے کہ ریفرنس میں قانونی نقائص موجود ہیں ،اگر ریفرنس میں بدنیتی ثابت ہوئی تو کیس خارج ہو سکتا ہے، کسی جج کے خلاف کونسل کے سوا کوئی ایکشن نہیں لے سکتا،قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنے دیں،کسی جج کے خلاف کونسل کے سوا کوئی ایکشن نہیں لے سکتا،ایسیٹ ریکوری یونٹ کیا ہے؟ معلومات کیسے حاصل کی گئی؟ ۔ منگل کو سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی لارجر بینچ نے کی ۔ دو ران سماعت جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ فروغ نسیم کفالت پر دلائل دیں گے جس پر فروغ نسیم نے کہاکہ پبلک ٹرسٹ اور ججز کی معاشرے میں حیثیت پر دلائل دوں گا۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ آپ اپنے نکات پر دلائل دیں، ہم ججز کے احتساب سے متفق ہیں، درخواست گزار نے بدنیتی اور غیر قانونی طریقے سے شواہد اکٹھے کرنے کا الزام لگایا ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ ریفرنس میں قانونی نقائص موجود ہیں، عمومی مقدمات میں ایسی غلطی پر کیس خارج ہو جاتا ہے، اگر ریفرنس میں بدنیتی ثابت ہوئی تو کیس خارج ہو سکتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ ابھی تک ریفرنس میں کئی خامیاں موجود ہیں، لندن کی جائیدادوں کی ملکیت تسلیم شدہ ہے، مقدمے میں سوال جائیداد کی خریداری کا ہے، درخواست گزار نے جائیدادوں کے وسائل خریداری بتانے سے بھی انکار نہیں کیا، درخواست گزار چاہتا ہے کہ قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ ایف بی آر نے 116 اور 114 کے تحت نوٹس جاری کئے، معاملہ جوڈیشل کونسل کے پاس بھی چلا جائے، اگر بدنیتی نہیں ہے تو کونسل رکاروائی کر سکتی ہے، آپ بدنیتی اور شواہد اکٹھے کرنے پر دلائل دیں۔ انہوںنے کہاکہ ہم اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں، یہ ہوسکتا ہے پہلے ایف بی آر کو معاملے پر فیصلہ کرنے دیا جائے، وہاں پر فیصلہ اہلیہ کے خلاف آتا ہے تو پھر جوڈیشل کونسل میں چلا جائے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ کسی جج کے خلاف کونسل کے سوا کوئی ایکشن نہیں لے سکتا۔ جسٹس سجاد علی شا ہ نے کہاکہ ایف بی آر میں جائیدادوں کی خریداری کے ذرائع بتائے جائیں تو کونسل میں دوبارہ واپس آجائیں، قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنے دیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ فروغ نسیم صاحب ایف بی آر میں کارروائی کے معاملے پر سوچ لیں،وقفے کے بعد بتا دیں کیا کرنا ہے۔ فروغ نسیم نے کہاکہ عدالت کی نظر میں یہ ایک بہتر راستہ ہوسکتا ہے، جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف ضابطے کی کارروائی ہوتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ضابطے کی کارروائی کا انحصار کسی دوسری کارروائی پر ہوگا،جب ضابطے کی کارروائی کسی دوسری کارروائی پر انحصار کرے گی تو آزادانہ کارروائی کیسے ہوگی، اس صورتحال میں ضابطے کی کارروائی کا بھی فائدہ نہیں ہوگا۔ فروغ نسیم نے کہاکہ جوڈیشل کونسل کی کاروائی کا انحصار کسی فورم کی کارروائی پر نہیں ہے، ضابطے کی کارروائی میں نہیں کہہ سکتے کہ میری اہلیہ خودکفیل ہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ آپ کے مطابق قانون کی سہولت عام شہری کو دسیتاب ہے، ججز کو قانون کے مطابق یہ سولہت میسر نہیں ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ آپ کا یہ اچھا نقطہ ہے۔ فروغ نسیم نے کہاکہ سروس آف پاکستان کے تحت اہلیہ خاوند سے الگ نہیں ہے، ایف بی آر کو فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے تو ٹائم فریم کیا ہوگا۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ ہو سکتا ہے کہ انکم ٹیکس کہہ دے کہ ذرائع درست ہیں، ہو سکتا ہے ٹیکس اتھارٹی کے فیصلے سے جوڈیشل کونسل اتفاق کرے نہ کرے، دیکھنا تو یہ ہے جائیداد کی خریداری حلال ہے یا دوسرے طریقے سے، ہمیں جوڈیشل کونسل پر مکمل اعتماد ہے۔ فروغ نسیم نے کہاکہ مجھے وزیراعظم اور صدر مملکت سے مشاورت کے لئے وقت دیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ چلیں ابھی آپ اپنے دلائل دیں۔ فروغ نسیم نے کہاکہ سروس آف پاکستان کے تحت کوئی اہلیہ کی پراپرٹیز کا جواب دینے سے انکار نہیں کر سکتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ اگر سرکاری ملازم اپنی اہلیہ سے معلومات لینے سے قاصر ہو تو پھر ایسی صورت میں کیا ہوگا۔فروغ نسیم نے کہاکہ سرکاری ملازم ملازم اگر اہلیہ کا بہانا بنائے تو اسے جیل بھیج دیا جائے گا، جج نے نہیں کہا میری اہلیہ مجھے معلومات فراہم نہیں کر رہی ۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ خاوند اگر ایف بی آر سے ریکارڈ نہیں لے سکتا تو پھر تو اسکے ہاتھ باندھ دیئے گئے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ انکم ٹیکس کی مشینری کا استعمال کیا گیا، جو قانونی طریقہ کار ہے اسکو چلنے دیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں