میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پی پی میں شمولیت سے انکار ارباب خاندان میں دراڑڈالنے کی سازش

پی پی میں شمولیت سے انکار ارباب خاندان میں دراڑڈالنے کی سازش

منتظم
هفته, ۱۷ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

ارباب خاندان کو شمولیت پر ٹکٹوں اور ضلعی کونسل کی چیئرمین شپ کی پیشکش،کوششیں رائیگاں جانے پر افواہوں کا سہارا ،پی پی نے سندھ کے تمام سیاسی خاندانوں کو ملاکرنظریاتی سیاست دفن کردی ،ناقابل شکست بننا چاہتی ہے ،ناقدین
بار بار پی پی کی مالی بے قاعدگیوں کی نشاند ہی کرتا آیاہوں اور اب اپنے ہی اصولوں کو پیچھے چھوڑ کر پی پی کی ثناء خوانی نہیں کرسکتا،ارباب غلام رحیم کا پی پی جوائن کرنے سے صاف انکار،جتوئی اور شیرازی برادری بھی انکار کرچکی
پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008 کے بعد اپنی پالیسی تبدیل کی ہے اور نظریاتی سیاست کو عملی طور پر دفن کردیا ہے ۔ یہ کوشش کی گئی کہ ہر سیاسی شخصیت اور ہر سیاسی خاندان کو پی پی میں شامل کیا جائے چاہے اس کے لیے کچھ بھی قربانی دینا پڑے۔ جام مدد علی ،امتیاز شیخ، اسماعیل راہو، جاموٹ خاندان کو پی پی میں شامل کیا گیا تو پھر بات ہی ختم ہوگئی۔ اس پر بہت سے تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ اگر جام صادق علی زندہ ہوتے تو ان کو بھی شامل کرلیا جاتا۔ نظریاتی مخالف سیاستدانوں کو بھی پی پی میں شامل کیا گیا تو دنیا دنگ رہ گئی ۔اب پی پی کی قیادت کی نظر میں ارباب خاندان، جتوئی خاندان اور شیرازی خاندان رہ گئے تاکہ ان کو پی پی میں شامل کرکے پورے صوبے میں پی پی کو ناقابل شکست بنایا جاسکے۔ جتوئی خاندان نے تو کھل کر انکار کر دیا کہ وہ کسی بھی صورت میں پی پی میں شامل نہیں ہوں گے کیونکہ غلام مصطفی جتوئی نے جس طریقے سے پی پی چھوڑ کر نیشنل پیپلز پارٹی بنائی تھی اب ان کی بنائی گئی پارٹی این پی پی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ جس کے بعد شیرازی خاندان کی طرف رجوع کیا گیا تو اعجاز شاہ شیرازی نے وزیراعظم نواز شریف کو ٹھٹھہ بلا کر بڑا جلسہ عام کر وادیا تو پی پی کی قیادت خاموش ہوگئی اور اب آخر میں ارباب خاندان کے ساتھ رابطہ کیا گیا ۔ارباب غلام کو 2008 اور 2013 میں سید خورشید شاہ کے ذریعہ پیشکش کی گئی کہ وہ پی پی میں شامل ہوں تو ان کو نہ صرف پارٹی ٹکٹ ملے گا بلکہ ضلع کونسل کی چیئرمین شپ بھی ملے گی لیکن ارباب غلام رحیم نے صاف جواب دیا کہ وہ پی پی کے ساتھ کسی بھی طور پر نہیں چلیں گے کیونکہ میں بار بار پی پی کی مالی بے قاعدگیوں کی نشاند ہی کرتا آیاہوں اور اب اپنے ہی اصولوں کو پیچھے چھوڑ کر پی پی کی ثناء خوانی نہیں کرسکتا۔ جب ارباب رحیم نے صاف صاف جواب دیا تو پی پی کی قیادت نے ارباب خاندان میں دراڑیں ڈالنے کی منصوبہ بندی کرلی۔ ارباب خاندان کے کئی افراد کے ساتھ رابطے کیے گئے لیکن ان کو ناکامی ملی۔ پھر میر پور خاص ڈویژن کے پارٹی اجلاس کے بعد یہ افواہ پھیلائی گئی کہ ارباب رحیم کے بھتیجے ارباب لطف نے پی پی میں شمولیت کی حامی بھری ہے لیکن جب حقائق سامنے آئے تو پتہ چلا کہ ارباب خاندان کے کسی بھی فرد نے پی پی میر پور خاص ڈویژن کے کسی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ جب ارباب خاندان کھل کر سامنے آیا کہ جھوٹی افواہ کیوں پھیلائی جا رہی ہے ،اگر کوئی فرد پی پی قیادت سے ملا ہے تو پارٹی قیادت کھل کر بتائے؟ جس پر پی پی کی قیادت نے خاموشی اختیار کی۔ارباب خاندان کا مؤقف ہے کہ ماضی میں بھی ارباب خاندان کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ہر بار ناکامی ملی۔ اور اس بار بھی ارباب خاندان منظم اور متحد ہے ،ارباب خاندان کے ساتھ رزاق راہموں بھی اپنے قدم جمائے کھڑے ہیں اور انہوں نے بھی ہر طرح کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تمام اہم سیاسی خاندان پی پی میں شامل ہوگئے ہیں تو پھر ارباب خاندان کو پی پی میں کیوں شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ارباب غلام رحیم نے پیر پگارا، ایاز لطیف پلیجو، جلال محمود شاہ، ذوالفقار مرزا ، اعجاز شاہ شیرازی سے رابطہ کرکے انہیں مکمل یقین دلایا کہ حالات چاہے کچھ بھی ہوں وہ کسی بھی صورت میں پی پی میں شامل نہیں ہوں گے کیونکہ وہ نظریاتی طور پر پی پی کے مخالف ہیں۔ اورانہوں نے اپنی زندگی میں دو مرتبہ 1988 میں اور 1993 میں آزاد منتخب ہونے کے باوجود پی پی کی حمایت کی اور اس کا نتیجہ بھی دیکھ لیا۔ جس کے بعد ارباب خاندان نے پی پی سے کنارہ کشی اختیار کی اور اس وقت پی پی میں جو کھچڑی پک رہی ہے اس سے تو ارباب خاندان پی پی سے زیادہ بددل ہوگیا ہے۔ ارباب خاندان کو پی پی میں شامل کرکے پی پی کی قیادت سندھ میں ناقابل شکست بننا چاہتی ہے۔ لیکن ارباب خاندان نے حزب اختلاف کے اتحاد کے ساتھ رہ کر ثابت کیا ہے کہ چاہے کتنی بھی مشکلات آئیں، ارباب خاندان نہیں جھکے گا اور ارباب خاندان اپنے سیاسی ساتھیوں کے ساتھ مل کر اپنی سیاست کو آگے بڑھائے گا۔ سندھ میں اس وقت پیر پگارا، لیاقت جتوئی، ارباب رحیم، اعجاز شاہ شیرازی، ایاز لطیف پلیجو، مرتضیٰ جتوئی، ذوالفقار مرزا، جلال محمود شاہ، صفدر عباسی، شفقت انڑ اور دیگر نے منظم اتحاد کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں جس سے پی پی کی قیادت کو پریشانی ہو رہی ہے کیونکہ جس طرح سیاسی خاندانوں کو پی پی میں لایا گیا ہے وہ تو عام انتخابات میں مکمل طور پر پی پی کے ساتھ نہیں رہیں گے اور یہ بات اپوزیشن اتحاد کے لیے فائدے میں رہے گی۔
الیاس احمد


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں