بدزبانی
شیئر کریں
بدزبانی بدکلامی ایک ناپسندیدہ فعل ہے، یہ شرفاء کا انداز نہیں ۔یہ درست ہے کہ اب لکھنوی زبان بولی نہیں جا رہی کہ آپ اور جناب کے معاملات ہوں لیکن جو زبان عام آدمی استعمال کرتا ہے ،وہ بھی ایک حد تک اخلاق کے دائرہ میں ہوتی ہے۔ خصوصاً خواتین کے معاملے میں زبان کھولنے سے پہلے جاہل بھی سوچتا اور الفاظ کا انتخاب کرتاہے لیکن گزشتہ دنوں وفاقی وزیردفاع پانی وبجلی خواجہ آصف نے جو زبان استعمال کی وہ تو لفنگوں کی زبان بھی نہیں ہے ۔یوں توخواجہ آصف اپنے فرائض میں ناکام رہے ہیں ،بجلی کا بحران کم ہونے کے بجائے بڑھ گیا ہے، پانی کی عدم دستیابی پر ملک کے تقریباً ہر حصہ میں مظاہرے ہو رہے ہیں ،دفاعی صورتحال بھی بہت زیادہ اچھی نہیں۔ افواج پاکستان کا کردار اور مورال انتہائی بلند ہے، افواج پاکستان اس وقت ایک سے زائد محاذوں پر لڑنے پر مجبور ہے، ایک جانب آپریشن ردالفساد جاری ہے تو دوسری جانب دشمن کی جانب سے سرحدوں پر گولا باری، تیسری جانب ناکام خارجہ پالیسی کے نتیجے میں دیرینہ برادر ملک بھی پاکستانی سرحد پر فوجیں لگانے پر مجبور ہوا ہے یہ تو بیرونی اور دہشت گردی کے معاملات ہیں لیکن ڈان لیکس کا معاملہ ہو یا فرنٹ آف بنگلہ دیش ایوارڈ یافتہ میر وارث کے فرزند پر ” قاتلانہ حملہ” افواج پاکستان نشانہ پر ہوتی ہے اور وزیر دفاع اپنی منطق کے ساتھ دلیل والوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں یہ دیکھیں بغیر کہ دلیل والے کتنے ” ذلیل” ہیں۔
سیاست میں بدزبانی کا الزام تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پر لگایا جاتا ہے جو کہ خلاف واقعہ ہے ۔سیاست میں 60 کی دہائی کے وسط تک مخالفین کی مخالفت کی جاتی تھی تذلیل نہیں، عنایت اللہ شاہ بخاری ہوں یا شورش کاشمیری ،عبدالستار نیازی ہوں یا شاہ نورانی ومفتی محمود سب اپنے مخالفین کا نام لیتے ہوئے ادب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا کرتے تھے۔ لیکن جب ذوالفقار علی بھٹو ” ڈیڈی” کے آنکھ کے تارے کے بجائے معتوب ٹہرے تو پہلی بار کسی مخالف کے نام کے ساتھ ایک جانور کا نام جوڑا گیا، میں جانور کا نام نہیں لکھتا لیکن جس مخالف کے ساتھ یہ نام جوڑا گیا تھا وہ نام جوڑنے والے کا ” ڈیڈی” تھا باقی آپ خود سمجھ گئے ہونگے۔ ذوالفقار علی بھٹونے ناصرف ایوب خان کے خلاف بدزبانی کی بلکہ ان کے اقتدار میںآنے سے قبل زبانی نشتروں اور اقتدار میں آنے کے بعد کرداری حملوں سے حزب اختلاف کا شاید ہی کوئی رہنما محفوظ رہا ہو۔ کسی کو انہوں نے آلو کہا تو کسی کو چوہا،کسی کا نام ڈبل بیرل خان رکھا تو کسی کا کچھ۔اور جب اقتدار میں آئے تو ان مخالفین کے ساتھ وہ سلوک کیا جس کی کسی باکردار شخص سے توقع رکھنا بھی حماقت کے سواء کچھ نہ تھا۔ میاں طفیل محمد مرحوم کو گرفتار کیا جانا تو رہا ایک طرف ، لیکن تھانے اور جیل میں ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ انتہائی شرمناک تھا۔ شاعر نے کہا ہے کہ
؎دامن نچوڑ دوں تو فرشتے وضو کریں
میاں طفیل محمد کا شمار انہیں نیک صفت افراد میں ہوتا تھاکہ دین اسلام کی سربلندی ان کی متاعِ حیات تھی ۔میاں طفیل محمد کو جب گرفتار کیا گیا تو پہلے تھانے کے لاک اپ میں ان کے ساتھ پیشہ ور فاحشہ عورتوں کو بند کیا گیا جنہوں نے اپنی فطرتِ بد کا کھل کر مظاہرہ کیا ۔اسی طرح جب رکن اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمد کو شہید کیا گیا تو اسمبلی فلور پر تعزیت کا اظہار اور قاتلوں کی گرفتاری کا وعدہ کرنے کے بجائے طنزاً کہا گیا کہ اب تو چار نہیں تین رہ گئے ہو،مودودی کا جنازہ کیسے اُٹھاؤ گے؟ اور اس پر درویش صفت پروفیسر غفور احمد نے جو جواب دیا وہ تاریخ کا حصہ ہے مجھے یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ بھٹو کے جنازے میں شریک افراد کی تعداد دہرے ہندسے میں بھی نہیں تھی اورابوالاعلیٰ مودودی کے جنازے میں شریک افراد کی تعداد 7ہندسوں پر مشتمل تھی ۔
خواجہ آصف ،خواجہ صفدر کے فرزند ارجمند ہیں اور خواجہ صفدر بدزبان نہیں تھے لیکن ناجانے خواجہ آصف میں کس کی روح داخل ہو گئی ہے کہ ان کی زبان ہر وقت بدزبانی پر آمادہ رہتی ہے۔ وہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ دفاعی تجزیہ نگار محترمہ شیری مزاری کو اسمبلی فلور پر ٹریکٹر ٹرالی کہہ چکے ہیں اور اب اپنی سیاسی حریف ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو ڈمپر۔ یوں تو پوری مسلم لیگ ہی بدزبانوں اور درغ گو عناصر کا ایسا ٹولہ ہے کہ جو اپنی بدزبانی اور درغ گوئی کو ہی اپنا اعزاز سمجھتے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق ہوں یا دانیال عزیز اور طلال چوہدری سب ہی بدزبانی میں اول نمبر کے لوگ ہیں مجھے خواجہ سعد رفیق کے انداز پر بھی افسوس ہے کہ ان کے والد خواجہ رفیق احمد جس اندازسے گفتگو کرتے تھے اس کا تو شائبہ تک خواجہ سعد رفیق کے انداز میں نہیں۔ دانیال عزیز اور طلال چوہدری کی کیا بات کروں، یہ کل تک پرویز مشرف کے کیمپ میں بیٹھ کر اس کے مخالفوں پر اپنی بدزبانی کے گولے برسایا کرتے تھے جس کا خاص ہداف نواز شریف اور شہباز شریف ہوا کرتے تھے لیکن آج وہ نواز شریف کے کیمپ میں بیٹھ کر عمران خان اور اس کے ساتھیوں پر اسی بدزبانی کے گولے برسا رہے ہیں ۔
عمران خان کا جرم کیا ہے جو اسے اور اس کے ساتھ شامل ہونے والوں کو اس بدزبانی کا سامنا ہے اور یہ بدزبان جب زبان چلاتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے گھر میں بھی ماں، بہن ، بیٹی اور بیوی کی شکل میں عورتیں موجود ہیں۔ وہ کسی خاتون کو جب ٹریکٹر ٹرالی اور ڈمپر قرار دیتے ہیں تو نہایت معذرت کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس بدزبانی کے ردعمل میں دوسروں کے منہ میں موجود زبان بھی بدزبانی پر آمادہ ہو سکتی ہے۔ اگر ان کے مخالفین میں سے کوئی ان کی خواتین میں سے کسی کو ٹیکسی اور گشتی کہہ دے تو ان کا ردعمل کیا ہو گا یہ وہ سوچنے کی بات ہے۔ جو یہ مسلم لیگی سوچنے پر آمادہ نہیں۔ شاید یہ ایفیڈرین عباسی کی صحبت کا اثر ہے کہ ایفیڈرین کا استعمال سب سے پہلے دماغ کو ماؤف کرتا ہے اور جب دماغ ماؤف ہو جائے تو جو چیز سب سے پہلے قابو سے باہر ہوتی ہے وہ زبان ہے۔ آپ نے نشہ کرنے والوں کو دیکھا ہوگا کہ وہ انتہائی بیہودہ گالیاںدیتے نظر آتے ہیں اب آپ خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق،طلال چوہدری اور دانیال عزیز کی گفتگو سنیں اور تصور میں ان نشہ بازوں کی گفتگو لائیں، اگر آپ کو فرق نظر آجائے تو آگاہ فرمائیے گا۔
٭٭…٭٭