خطے میں تیزی سے بگڑتے حالات‘نواز حکومت غیر یقینی کا شکار؟
شیئر کریں
حال ہی میں سوشل میڈیا پر نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کی ایک تصویر شائع کی گئی جس میں انہیں جے آئی ٹی ٹی کے سامنے بیٹھا دکھایا گیا ہے ۔ یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ کس نے کیا؟ کیا حکومت کے کارندے اس میں شامل تھے ؟ ان سوالوں کا جواب ملنا فی الحال مشکل ہے ۔ اسلام آباد میں بیٹھے چند ذرائع کا خیال ہے کہ جن کاموں پر چند ہزار خرچ ہوسکتے تھے ان پر اگر کروڑوں خرچ ہوں گے تو ایسے امور کا’’ لیک‘‘ ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں۔۔۔۔ شاید اس سے عوام کی ہمدردیاں سمیٹنا مقصود ہو۔۔۔ حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے بعد باہر آکر میڈیا کے سامنے یہی بیان دیتے رہے کہ ’’ہمارے خاندان کا احتساب پہلے بھی ہوا اگر کچھ ہوتا تو پہلے ظاہر ہوجاتا‘‘ان کا اشارہ غالبا مشرف دور کی جانب ہے کیونکہ وہی دور اس خاندان کے لیے سخت ترین تھا لیکن کوئی موصوف کو یہ نہیں سمجھا رہا کہ جناب مشرف دور میں تو ابھی احتساب شروع ہی ہوا چاہتا تھا کہ قطری اور سعودی بیچ میں کود پڑے تھے یوں احتساب کی جگہ’’ ڈیل‘‘ نے لے لی یا کم ازکم انہیں سینئر صحافی سہیل وڑائچ کی کتاب ’’غدار کون؟‘‘ پڑھ لینی چاہیے تھی جو میاں نواز شریف کے انٹرویوز پر مبنی ہے اور جس میں خود موصوف کے بیانات بھی موجود ہیں جس میں انہیں بتایا تھا کہ کس طرح اس وقت کے سعودی شاہ عبداللہ مرحوم نے پاکستان پر دبائو ڈال کر شریف خاندان کو سعودی عرب میں پناہ دی تھی۔۔۔ اس وقت بھی یہ ’’سیاسی پناہ گزین‘‘ یہی دعوی کررہے تھے کہ کوئی ڈیل نہیں ہوئی لیکن بعد میں عرب میزبانوں نے خود اسلام آباد میں میڈیا کے سامنے ’’ڈیل ‘‘کی دستاویز لہرا کر ڈیل کی تصدیق کردی تھی۔اس لیے شریف خاندان کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ماضی میں ان کا احتساب نہیں بلکہ ڈیل ہوئی تھی اور ساری پاکستانی قوم اس بات کی گواہ ہے اس کا حافظہ اتنا کمزور نہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ خاندان اس مرتبہ بھی کسی سیاسی ڈیل کے انتظار میں تھا جو فی الحال ناممکنات میںسے نظر آتی ہے۔ کیونکہ بین الاقوامی سیاست کا محور یکسر بدل چکا ہے۔
دوسری جانب نون لیگ کے سابق سینیٹر نہال ہاشمی کا معاملہ ہے جسے صحیح معنی میں قربانی کا بکرا بنایا گیا۔۔۔ وہ ایک کارنر میٹنگ تھی جس میں نہال ہاشمی نے سمجھا ہو گا کہ اس ’’غیر اہم‘‘ میٹنگ میں جو مرضی بول دو اس پر بھلا کون توجہ دے گا ۔یوں ’’دیگ سے زیادہ چمچہ گرم ‘‘کے مصداق جب انہوں نے پاکستان کی محترم عدلیہ سے متعلق اشخاص کو دھمکیاں دیں تو ’’بڑے صاحب‘‘یا ’’صاحبہ‘‘ کے لیے یہ غیر اہم میٹنگ زیادہ’’ اہم‘‘ ہوگئی اور ان کے اس بیان کو ایک ’’پیغام‘‘ کے طور جاری کروادیا گیا جو شاہد نہال ہاشمی کے وہم وگمان میں بھی نہ ہو۔ بہرحال تیر کمان سے نکل چکا تھانتائج سب کے سامنے ہیں۔ نہال ہاشمی کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے ان سے سینیٹ کی نشست پر استعفی لے لیا گیا۔اب خبر گرم ہے کہ خیر سے آصف کرمانی صاحب کی ’’خدمات‘‘ کے عوض انہیں یہ نشست سونپ دی جائے گی۔ اس موقع پر مرحوم جنرل ضیاء الحق کے دور کا ایک واقعہ یاد آتا ہے جب انہوں نے اپنی شہادت سے کچھ عرصہ قبل ’’عوامی رابطے‘‘ کی وزارت تخلیق کرکے اس کا قلمدان مرحوم مصطفی صادق صاحب کو سونپ دیا تھا۔ غالبا ابھی مصطفی صادق صاحب نے ڈھنگ سے اس وزارت کا قلمدان بھی نہیں سنبھالا ہوگا کہ بہاولپور حادثے میں جنرل ضیاء الحق اپنے دیگر عسکری رفقا کے ساتھ ایک سازش کا شکار ہوگئے، یوں جنرل ضیاالحق کی شہادت کے ساتھ ہی عوامی رابطے کی یہ وزارت بھی شہید ہوگئی۔
ان تمام معاملات میں سب سے بڑا امتحان پاکستان کے مختلف اداروں کا ہے کیونکہ جس تیزی کے ساتھ خطے اور بین الاقوامی صورتحال نے کروٹ لی ہے اس میں اب وقت بہت کم بچا ہے۔ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ کشمیری اور بھارتی مسلمانوںپر بھارت کے ریاستی مظالم کئی گنا زیادہ ہوچکے ہیں۔دوسری جانب کابل کے درودیوار دھماکوں سے گونج رہے ہیں تو ذرا کچھ پرے مشرق وسطی میں آگ لگی ہوئی ہے یہ صورتحال پاکستان کے لیے انتہائی نازک ہے ۔ جہاں تک کابل کے حالیہ دھماکوں کا تعلق ہے تو سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ نہ تو داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے اور نہ ہی افغان طالبان نے۔ حالانکہ ان حالات میں اپنی قوت کا مظاہرہ کرنے کے لیے کسی بھی واقعے کی ذمہ داری قبول کرلینا کوئی بڑی بات نہیں لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔ دوسری جانب اشرف غنی حکومت اور اس کی بھارتی طفیلی انٹیلی جنس ایجنسی نے آئی ایس آئی اور حقانی نیٹ ورک کا پرانا راگ الاپنا شروع کردیا تاکہ افغان عوام کو پاکستان سے بدظن کیا جائے۔ حال ہی میں افغان جنگ کا حصہ رہنے والے برطانوی میجر رابرٹ گیلی مور نے پاکستان کے خلاف بھارتی اور افغان سازشوں کا بھانڈاپھوڑ کر بھارت اور این ڈی ایس کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ برطانوی میجر کا کہنا ہے کہ’’ افغان عوام اور افغان فوج میں بھارت ہی پاکستان کے خلاف سازشیں کرکے بدگمانیاں پھیلا رہا ہے لیکن درحقیقت افغانستان میں پاکستان یا آئی ایس آئی کی مداخلت محض ایک افسانہ ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ تین مرتبہ افغانستان میں تعینات رہا ہے لیکن ہمیں آج تک افغانستان میں آئی ایس آئی کی مداخلت کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔ برطانوی میجر کا یہ کہنا بھی ہے کہ کابل میں بڑھتا ہوا بھارتی اثرورسوخ خطے کے لیے بڑا خطرہ ہے۔بھارت پاکستان کے خلاف افغانستان میں پراپیگنڈے کے لیے باقاعدہ فنڈنگ کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں ہونے والے ہر دھماکے میں مغربی ممالک اور افغانستان میں یہی تاثر لیا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے‘‘۔یوٹیوب پر موجود ان کے بیان کے مطابق ’’ماضی میں افغانستان میں روس اور برطانیہ کے درمیان ’’گریٹ گیم ‘‘ لڑی گئی پھر اسی کی دہائی میں روس کی مداخلت کے بعد دوسری گریٹ گیم جاری رہی اب موجودہ دور میںافغانستان میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تیسری گریٹ گیم جاری ہے، میں نے جنوبی افغانستان میں افغان طالبان کے ساتھ متعدد بارجنگ لڑی ہے لیکن اس لڑائی کے دوران ہمیں کبھی پاکستانی مداخلت کے ثبوت نہیں ملے۔ہم نے جاسوسی کے آلات کی مدد سے کئی مرتبہ افغان طالبان جنگجوئوں کی باتیں بھی سنی ہیں لیکن کبھی ان میں کوئی پاکستانی لہجے میں بات کرتا نظر نہیں آیا۔پاکستان کے خلاف افغانستان میں بھارت کی گریٹ گیم کی وجہ سے پوراخطہ خطرناک صورتحال سے دوچار ہے‘‘۔
یہ برطانوی فوجی افسر کے ایسے بیانات ہیں جو اپنے اور پرایوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ افغانستان میں ہونے والے حالیہ دھماکوں کے بعد افغانستان میں عوامی مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔ اشرف غنی کی حکومت جو امریکی ڈالروں کے سہارے افغانستان میں اپنی عملداری کا دعوی کرتی تھی، بری طرح گرنے والی ہے۔ خود امریکا کے مفادات اس وقت افغانستان میں دائو پر لگ چکے ہیں۔ سولہ برس بعد امریکی جنگی مہمات پر سینکڑوں بلین ڈالر خرچ کرنے اور ہزاروں فوجی مروانے کے بعدامریکی امیدوں پر بری طرح اوس پڑ چکی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان سولہ برسوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکی اسٹیبلشمنٹ اور اس سے وابستہ افراد اور حکومتوں نے امریکی عوام کے ٹیکسوں کے اربوں ڈالر ہڑپ کرلیے ہیں لیکن اب نتائج دینے کے لیے ان کی زنبیل میں کچھ نہیں۔ ٹرمپ نیٹو ممالک سے افغانستان کے لیے دوبارہ ہزاروں فوجی بھجوانے اور مزید عسکری فنڈنگ کی بھیک مانگ رہا ہے لیکن یورپی ممالک جنگ کی بجائے اسے مذاکرات کے ذریعے یہ مسئلہ حل کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ خود یورپ جوہری تبدیلیوں کی وجہ سے ہل چکا ہے۔ برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہوچکا، باقی کئی یورپی ممالک اس اتحاد سے نکلنے کا عندیہ دے چکے اس ساری اتھل پتھل میں یورپ کی معاشی صورتحال تلپٹ ہوجانے کا پورا خطرہ موجود ہے اس لیے نیٹو کے ہزاروں فوجی دوبارہ افغانستان میں پھنسا کروہ معاشی دیوالیہ نہیں ہونا چاہتے ۔
دوسری جانب مشرق وسطی کی صورتحال مزید خطرناک کروٹ لینے والی ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے برسوں پرانے منصوبے کے تحت کردستان کی ’’آزاد ریاست‘‘ کے قیام کا ڈول ڈال دیا گیا ہے جس پر ترک رہنما اردگان نے کھلے الفاظ میں امریکا کو تنبیہ کی ہے کہ ترکی کسی صورت اپنی سرحدوں پر کرد دہشت گردوں کی ریاست برداشت نہیں کرے گا۔اس سخت بیان سے مسئلے کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ امریکا اور اسرائیل کی پہلے روز سے یہ کوشش رہی ہے کہ خطے میں روسی میزائلوں کو ’’انٹرسپٹ‘‘ کرنے کا نظام قائم کیا جائے تاکہ جس وقت اسرائیل کو مشرق وسطی میں کھلی عسکری مداخلت کا لائسنس جاری ہو تو روس کی جانب سے میزائل حملوں کو روکنے کا بندوبست کیا جائے ۔ سب سے پہلے یہ کوشش پولینڈ میں کی گئی تھی جسے روس نے ناکام بنادیا تھا اس کے بعد یہ کوشش جارجیا اور آب غازیہ کے علاقوں میں کی گئی جس پر روس نے مسلح مداخلت کرکے امریکی اور اسرائیلی عسکری ماہرین کو علاقے سے نکلنے پر مجبور کردیا تھا اس کے بعد یہ کوشش کی گئی کہ شمالی عراق اورشمالی شام کے کرد علاقوں کو آزاد کراکر وہاں پر ایک ایسی امریکا اسرائیل نواز انتظامیہ بیٹھا دی جائے جس کی مدد سے میزائل شیلڈ پروگرام کو وہاں نصب کیا جائے یہی وجہ ہے کہ پہلے عراق کو ایران کے حوالے کیا گیااس کے بعد ایران اور اس کی عسکری تنظیموں کو شام میں کھلی مداخلت کے مواقع فراہم کیے گئے پھر ایران کے ساتھ سابقہ اوباما انتظامیہ نے جوہری معاہدہ کرکے عالم عرب میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ اس سارے معاملے میں یہی منصوبہ کارفرما تھا کہ وقت آنے پرایران کے لیے خطے میں ایسے حالات پیدا کردیے جائیں کہ وہ کردستان کے معاملے پر سودے بازی پر مجبور ہوجائے۔ اب نئی ٹرمپ انتظامیہ نے آکر اس کے پہلے مرحلے پر یہ کام کیا ہے کہ دبائو ڈالنے کی غرض سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کیا،اس کے بعد ریاض میں کھڑے ہوکر ایران کو دہشت گرد ملک قرار دے دیا گیا دوسری جانب ایک تیر سے دوشکار کرتے ہوئے عرب سے کئی سو بلین ڈالر کے اسلحے کا معاہدہ بھی کرلیا تاکہ عربوں کی رہی سہی پونجی کو امریکا اور یورپ کے معاشی خسارے کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے اوراسی طرح اس معاہدے کی شکل میں ایران کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ایک طرف ایران کو عربوں کی نئی عسکری صف بندی سے ڈرایا جارہا ہے تو دوسری جانب عربوں کو ایران سے خوفزدہ کرنے کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے ۔لیکن ہوا یہ ہے کہ ٹرمپ کے دورہ مشرق وسطی کے اختتام پر خود عربوں میں پھوٹ پڑ چکی ہے اب ایک طرف قطراورکویت ہیں تو دوسری جانب باقی عرب ملک۔ اسی دجالی منصوبے کے لیے عراق اور شام میں تاریخ کی ایسی بھیانک ترین خونریزی کروائی گئی کہ انسانیت کا کلیجہ کٹ کر رہ گیا۔ اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ امریکا اور اسرائیل نواز کرد ریاست کا قیام اب سالوں کی نہیں بلکہ مہینوں کی بات ہے جس میں اقوام متحدہ جیسے صیہونی ادارے کواسی طرح استعمال کیا جائے گا جیسے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کو الگ کرنے کے لیے کام میں لایا گیا تھااس کے بعد تاریخ انسانیت کی اس ہولناک ترین جنگ کا آغاز ہوگاجسے تمام ’’جنگوں کی ماں‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
دوسری جانب افغانستان کے بعد بھارت مشرقی سرحدوں پر تیزی کے ساتھ جنگی حالات پیدا کررہا ہے افغانستان میں ہونے والے حالیہ دھماکوں کا کھرا کابل کے بھارتی سفارتخانے تک جاتا ہے ۔اس کا مقصد ہی یہی تھا کہ بھارت افغانستان میں امریکی بے بسی سے خوفزدہ ہے یہ نہیں چاہتا کہ افغانستان کی سرزمین سے اس نے دہشت گردی کی جو چھتری پاکستان پر تانی ہے وہ امریکی سہارے سے محروم ہوجائے یہی وجہ ہے کہ کابل میں دھماکے کروا کر امریکا اور یورپی ممالک کو یہ تاثر دینا مقصود تھا کہ افغانستان میں تاحال امریکا اور نیٹو کی مزید فوج کی ضرورت ہے لیکن ایسا ممکن کیسے ہو؟ نیٹو میں شامل یورپی ممالک صاف جواب دے چکے۔ اب رہ گیا امریکا تو جس وقت ٹرمپ افغانستان میں مزید فوجیں بھیجنے کی قرارداد امریکی کانگریس میں لے کر جائیں گے تو کیا وہاں سولہ برس سے افغانستان میںموجود امریکی موجودگی اور اس کے نتائج کے بارے میں سوال نہیں اٹھے گا؟ یہ صورتحال بھارت کے لیے انتہائی مایوس کن ثابت ہوگی اور وہ ایسے خوف میں مبتلا ہوگا کہ اس وقت جب کابل میں پاکستان نواز حکمتیار موجود ہے، اشرف غنی کی حکومت کا ناکام ہوجانا اور افغان عوام میں اشرف غنی کی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوجانا، بھارت کے لیے ڈرائونا خواب نہیں بن جائے گا؟ اشرف غنی کے مخالف عبداللہ عبداللہ پہلے ہی روس کے قریب تصور ہوتے ہیں ، افغان طالبان کی لیڈرشپ پہلے ہی ماسکو کے ساتھ رابطوں میں ہے پھر بھارت کونسا راستہ اختیار کرے گا ؟ یقینا وہ پاکستان پر عسکری مہم جوئی کا ارادہ کرے گا کیونکہ افغانستان میں امریکی ناکامی اور اشرف غنی حکومت کے زوال اورپختون حکمتیار کا سیاسی عروج مقبوضہ کشمیرمیں بھارت کی گرفت ڈھیلی کردے گا۔ایسی صورت میں بھارت محسوس کرے گا کہ مغربی سرحد سے پیٹھ محفوظ ہونے کے بعد اب پاکستان بھارت سے ان سولہ برسوں کا حساب چکائے گا جس میں اس نے افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں کا جال بناتھا۔اس لیے وہ امریکا اور اسرائیل کی مدد سے پاکستان کے خلاف مہم جوئی کی پوزیشن میں آجائے گا۔ ایسی صورتحال میں اسلام آباد پر ایسی حکومت کا مسلط ہونا جو ایک طرف بھارت نوازی اور دوسری جانب بے پناہ کرپشن کے حوالے سے بدنام ہوچکی ہو اور جس نے ملک کا معاشی بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ہو کسی طور بھی موجودہ صورتحال میں ملکی بقا کے لیے صائب نہیں ہوسکتی۔ اوپر بیان کردہ حالات تیزی سے رونما ہونے جارہے ہیں ہر ملک ان آنے والے حالات میں اپنی بقا کے انتظامات میں مشغول ہے جبکہ پاکستانی قوم کے سامنے اداروں اور معاشی دہشت گردوں کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل جاری ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کیسوں کو جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچایاجائے اور دہشت گردوں کو چاہے وہ عسکری ہوں یا معاشی، قرار واقعی سزا دے کر جلد از جلد ملک اور قوم کو آنے والے وقت کے لیے تیزی کے ساتھ تیار کیا جائے ۔۔ کیونکہ اب وقت بہت ہی کم ہے۔
٭٭…٭٭