
بھارت کے خلاف موثر حکمت عملی بنانے کی ضرورت
شیئر کریں
بھارت نے کھلی شکست کے بعد جنگ بندی کے باوجود پاکستان کے خلاف چو طرفہ محاذ کھولنے کی تیاری شروع کردی ہے۔
ایک ہی دن میں بھارت سے مختلف قسم کی خبریں یہ واضح کر رہی ہیں کہ بھارت ہر محاذ پر اپنے ترکش کے تمام تیر آزمانے پر تُلا ہوا ہے۔
بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے مقبوضہ کشمیر میں بادامی باغ کنٹونمنٹ میں بھارتی فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
‘‘میں دنیا سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا پاکستان جیسی غیرذمہ دار قوم کے ہاتھوں میں موجود ایٹمی ہتھیار محفوظ ہیں؟ میرا ماننا ہے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے ) کی نگرانی میں لیا جانا چاہیے کیوں کہ پوری دنیا نے دیکھا ہے کہ کیسے پاکستان کی جانب سے بھارت کو ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق دھمکیاں دی گئیں’’۔
بھارتی وزیر دفاع کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر آیا ہے جب عالمی جوہری توانائی ایجنسی نے پاکستان کی تمام ایٹمی تنصیبات کو محفوظ قرار دے دیا ہے۔
آئی اے ای اے نے کہا ہے کہ بھارت کے حملوں کے دوران پاکستان کی تمام ایٹمی تنصیبات محفوظ رہیں، پاکستان کی جوہری تنصیبات سے کوئی تابکاری خارج نہیں ہوئی۔
عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی نے واضح کیا ہے کہ بھارت کے میزائل حملوں کے دوران پاکستان کی میزائل تنصیبات مکمل محفوظ رہیں اور پاکستانی جوہری تنصبات سے تابکاری خارج نہیں ہوئی۔عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کی جانب سے پاکستان کی جوہری تنصیبات کو محفوظ قرار دیے جانے کے بعد پاکستان کی دفتر خارجہ نے بجا طور پر بھارت کے اپنے ایٹمی پروگرام پر سوالات اُٹھاتے ہوئے بھارت میں جوہری مواد کی چوری کی تحقیقات اور ایٹمی تنصیبات کی سیکیورٹی کا جائزہ لینے کا مطالبہ کیا۔
یہ مطالبہ کچھ اتنا بے وزن بھی نہیں ہے کیونکہ بھارت میں جوہری اور تابکار مواد کی بار بار چوری اور غیرقانونی اسمگلنگ کے متعدد واقعات ریکارڈ پر ہیں۔ ابھی ایک سال قبل ہی بھارت کے بھابھا ایٹمی تحقیقاتی مرکز (بی اے آر سی) سے چوری شدہ تابکار آلہ رکھنے والے پانچ افراد کو دہرادون میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ایک اور گروہ کو 10 کروڑ ڈالر مالیت کے غیر قانونی طور پر رکھے گئے تابکار اور زہریلے مادے کالیفورینیم کے ساتھ پکڑا گیا تھا، 2021میں بھی کالیفورینیم کی چوری کے تین واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ دنیا کو ایک ایسے ملک کے لیے زیادہ حساس ہونا چاہئے جہاں جوہری تابکار مواد کی باربار چوری اور غیر قانونی اسمگلنگ کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ مگر بھارت کی دیدی دلیری دیکھیے کہ اپنے ملک میں ایٹمی تابکار مواد اور زہریلے کالیفوینیم کی چوری اور غیر قانونی اسمگلنگ روکنے کی پوری قدرت نہیں مگر پاکستان کے محفوظ اور مضبوط ایٹمی پروگرام کے خلاف انگلیاں اُٹھانے کی ہمت جمع کر لی گئی۔
یہاں بھی بھارت کا معاملہ بالکل پہلگام کی طرح ہے جس پر خود بھارت کے اندر یہ جائز سوال اُٹھا کہ مودی حکومت دہشت گردی کا یہ واقعہ خود روکنے میں کامیاب کیوں نہیں ہوسکی؟ بالکل اسی طرح یہاں بھی پوچھا سکتا ہے کہ بھارت اپنے ملک میں ایٹمی مواد کی چوری کو روکنے میں کامیاب کیوں نہیں اور جس طرح پہلگام واقعے کے بعد بغیر تحقیق کے پاکستان پر الزام عائد کر دیا گیا ٹھیک اسی طرح بھارتی وزیر دفاع نے پاکستان کے ہی ایٹمی پروگرام کو ہدف بنا ڈالا۔ بھارت نے عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے )پر بھی ایسے ہی اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہے جیسے آئی ایم ایف پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی کہ پاکستان کو یہاں سے قرض کی کوئی قسط نہ ملے۔ مگر جس طرح بھارت کو آئی ایم ایف پر اثرانداز ہونے کی کوشش میں ناکامی ہوئی، ٹھیک اسی طرف پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کوئی کامیابی نہ مل سکی۔
بھارتی وزیر دفاع کی لن ترانیوں کے عین ہنگام بھارتی وزیرِ خارجہ جے شنکر بھی خاموش نہیں رہے۔اُنہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے قوم سے خطاب کے لب ولہجے کو مستعار لے کر زہر میں ڈوبی زبان سے کہا کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں دہشت گری پر بات چیت ہو گی اور سندھ طاس معاہدہ التواء میں رہے گا۔بھارتی وزیر خارجہ نے اپنی دیرینہ پوزیشن پر اِصرار کرتے ہوئے کسی ثالث کی موجودگی کے امکانات کو یہ کہہ کر رد کردیا کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات اور معاملات دو طرفہ ہوں گے ۔
اگر بھارتی رہنماؤں کے لب ولہجے پر غور کیا جائے تو سرے سے یہ لگتا ہی نہیں ہے کہ دونوں ممالک میں کسی سطح پر کوئی جنگ بندی بھی ہوئی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے باوجود بھارتی وزیر اعظم سے لے کر بھارتی وزیر دفاع تک اور بھارتی وزیر خارجہ سے لے کر بھارتی وزیر داخلہ تک تمام بھارتی انتہا پسند رہنما جس طرح کا لب و لہجہ اختیا رکیے ہوئے ہیں اس سے صاف لگتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کی موجودہ صورت حال مستقل خطرے سے دوچار ہے اور پاکستان بھارت کا نیا نارمل دراصل مستقل ابنارمل ہی ہوگا۔واضح ہے کہ پاک بھارت جنگ بندی کے بعد عملاً سب کچھ جوں کا توں ہے اور کسی بھی سطح پر کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے ۔ اس دوران اگر کچھ ہے تو وہ ڈی جی ایم اوز کی سطح پر ہاٹ لائن کے رابطے ہیں۔ اس ضمن میں جنگ بندی کے بعد تیسرے رابطے کے باوجود اگرکچھ کہنے سننے کو ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ جنگ بندی برقرار ہے۔ اس دوران میں بھارت کے اندر مستقل جنگی الاؤ دہک رہا ہے۔ بھارتی میڈیا انگارے اُگل رہا ہے۔ ہر سیاسی رہنما چیخ وپکار کی حالت میں ہے۔
یہاں تک کہ بھارتی میڈیا میں پاکستان پر حملے کی تاریخ تک دی جا رہی ہے۔ کم ظرف بھارت کی یہ حالت دراصل اُسے سکون سے بیٹھنے نہیں دے گی۔ چنانچہ پاکستان کو اب بھارت کے مقابلے میں ہمہ وقت تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کو ایک مرتبہ پھر سفارتی، سیاسی، عسکری اور بین الاقوامی سطح پربھارت کے عزائم کے خلاف موثر حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ بھارت کے کسی بھی سرپرائز کا مقابلہ کیاجاسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔