میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۷ مئی ۲۰۲۴

شیئر کریں

زریں اختر

کوئی ہے جو اس صورتِ حال کو ذاتی ، اجتماعی اور قومی درد سے جوڑ رہا ہو؟کوئی ہے جواس معاملے کو نسلوں کے درد سے دیکھ رہاہو ؟ دکھ بھوگنے والی نسل گزر گئی تواگلی نسل کا کوئی ایسا پروردہ بچا ہے جو دبئی لیکس پر آنسو بہا رہا ہو؟ کسی ہندوبھارتی سیاست دان یاہندو فوجی کا دبئی لیکس میں نام نہیں ہے۔
کوئی ہے ایسی زمینی عدالت جس میں تاریخ کا مقدمہ درج کیا جاسکے ؟
مہاتماگا ندھی کا پاکستان کے حق میں اثاثوں کی تقسیم پر مرن بھرت اوراس کی پاداش میں قتل ، اس جان کا بھی سب کو پتاہے، اصل اس جسم کو ملنے والی روح اور سوچ تھی جس کو ختم کرنا تھا اور یہ ممکن نہیں ہوتا تاوقتیکہ اس سوختہ تن میں گولیاں نہیں اتاردی جاتیں۔جناح کیا اس مقدمے میں ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کریں گے کہ انہیں سانس کی بیماری ہوگئی تھی، جس کا اس وقت علاج دریافت نہیں ہوا تھایا یہ کہ انہیں ایسی ایمبولینس دی گئی جو خراب ہوگئی اوپر سے ٹریفک جام میں پھنس گئی ؟ یہاں لوگوں کی زندگیاں جام ہو گئی تھیں ایک عجب بندش میںاور ابھی تک پھنسی ہوئی ہیں نظریاتی اور نفسیاتی پیچیدگیوں اور گنجلکوں میں ۔
مذہب کے نام پر بٹوارے کا سودا ۔۔۔سوداگری کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق دبئی لیکس میں جن پاکستانیوں اور ان کی آل کے نام ہیں وہ مسلمان سیاست دان اورمسلم فوجی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ بھارت کے جن دوہندو شہریوں نے انہیں مات دی وہ کاروباری افراد ہیں۔ پاکستانی مسلم سیاست دان اورمسلم فوجی کاروباری اور سوداگری میں دوسرے نمبر پر رہے۔
ایک وہ نسل جو تقسیم کے فسادات کی بھینٹ چڑھی ، جان آبرو املاک ،ہر طرف خون آگ ، تعصب کے بیج ،نفرت کی فصل ؛ اس فصل کو پروان چڑھانے میں مذہبی نظریے کو کھاد بنا کے رکھ دیا۔
میں کہنا کیا چاہتی ہوں؟ سادہ زبان میں یہ کہ پاکستان مذہب اسلام کے نام پر مسلمانوں کے لیے حاصل کیا گیا ۔ یہ بات عوام سے کس نے کہی ؟ مسلمان سیاست دانوں نے ۔ اچانک ایک عرصے سے اپنے اپنے مذہب کے ساتھ بھی اور ایک دوسرے کے مذہب کے ساتھ بھی رہتے ہوئے ،اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر مذہب کے نام پر ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کی ضرورت کیو ں پیش آئی ؟ ایک گھرانے کو رہنے کے لیے ایک گھر چاہیے ،جس کی زندگی میں جیسی جدوجہد لکھی تھی وہ کررہا تھا تو پھر اوپر سے اتنی بھیانک ، وحشت ناک اور خوں خوار جدوجہد کہاں سے آگئی ؟ اچانک ہی کیوں یاد آگیا ان نوابوں ،جاگیر داروں کو کہ ہمیں بتائیں کہ ہمارا مذہب کیا ہے اور اس کے لیے یہ جو کر رہے ہیں وہ بالکل ٹھیک کر رہے ہیں؟ مسلمان دلی کی جامع مسجد بھول جائیں اور پاکستان میں جاکر اپنی اپنی مسجدیں بنائیں،لو بن گئیں ۔ ایسی بنیں کہ ایک دیوبندی کی ، ایک وہابی کی ، ایک اہلسنت الجماعت کی ، ایک اِ س کی ، ایک اُس کی ۔ پھر مسلما ن یہ بھی نہ بھولیں کہ وہ مہاجر ہیں ،سندھی ہیں ،پنجابی ہیں ، بلوچی ہیں ، پٹھان ہیں، جو بھولے انہیں ہم نے یاد دلا دیا کہ تم اصل میں بنگالی ہو۔ کوئی سوچ سکتاہے کہ عام آدمی نے کیا کچھ کھویا ؟ زمین چھٹ جانا ہوتا کیا ہے؟ ہمیں انعام میں مذہبی نظریہ دے کر ہمارے حکمران امارات میں جائیدادیں بنوا رہے ہیں اور وہ جو ہندو تھے ،جو بتوں کو پوجتے تھے ، جن سے ہمارا مذہب الگ تھا ،ہمارا رہن سہن جد اتھا،وہاں ان کے حکمرانوں کی جائیدادیں نہیں۔ہندو دھرم کے حکمرانوں کے نام وکی لیکس یا دبئی لیکس میں نہیں آئے ،ان کے اداکاروں اور کاروباری لوگوں کے نام اس میں آئے ۔ اسلام کے ماننے والے پاکستانی مسلمان سیاست دانوں اور فوجیوں کے نام ان لیکوں میں آئے ہیں جو عوام کی قسمتوں کے لیکھک ہیں۔
سادگی اور عیاشی کا واضح فرق شخصیات کے ظاہرسے بھی عیاں ہوتا ہے ۔ چند دن پہلے میں مانیکا گاندھی (شریمتی اندرا گاندھی کی بہو، سنجے گاندھی کی ودھوا ) کا بی بی سی کے نمائندے کو دیا جانے والا انٹرویو دیکھ رہی تھی ،اس میں مانیکا بالکل سادہ ہیں۔ یہاں آپ ان کا موازنہ اگر مریم نواز سے نہ بھی کریں تو کسی بھی قومی اسمبلی کی خاتون رکن کے بنائو سنگھار سے کرلیں۔ اندرا کا بے نظیر سے ،مانیکا کا مریم اورنگ زیب سے ، یہاں تک کہ لتا کا نور جہاں سے ۔۔۔ سادگی اور سنگھار کا موازنہ ہی غلط ہے ،کیوں کہ یہ ہندو اور مسلمان کا موازنہ ہے ۔ ہند و بھارتی جرنیلوں کا مسلمان پاکستانی جرنیلوں سے مقابلہ بھی درست نہیں ، ایک میدان جنگ میں مارا جائے تو سیدھا نرکھ میں جائے گا جب کہ دوسرا شہید ہوگا اور جنت میں حوریں اس کا استقبال کریں گی۔اگر اس پر کوئی تحقیق ہو کہ جنگوں میں سپاہی کتنے مارے جاتے ہیں اور اعلیٰ کمانڈر کتنے تو ۔۔۔ظاہر سی بات ہے کہ کمانڈر تو کم ہی ہوتے ہیں ،ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ یہ مٹھی بھر سیاست دان اور جرنیل عوام کی زندگیوں ، نظریوں ، قسمتوں کے فیصلے کرتے ہیں، تو بھی ٹھیک ہے ،یہی ہوتا ہے ، لیکن یہ کیا کہ ان کی املاک بیرون ملک ، ان کی تجوریاں فل اور عوام کے لیے مذہب کی افیون اور مولانا کا چورن ۔
عہدوں کے نام بدل دیں ، کچھ تو سچائی پر مبنی ہو ، مثلاًجمہوریت کے بجائے بادشاہت، صدر کی جگہ بادشاہ ،قومی اسمبلی کی جگہ دربار، قومی اسمبلی کے ممبران درباری ، چیف آف دی آرمی اسٹاف سپہ سالار، وزیرِ اعظم وزیرِاعظم ہی رہے گا، حزب ِ اختلاف ختم ، عوام رعایا۔ پھر آپ جس کو چاہیں منصب ِ شاہی عطا فرمائیں۔ اب شیروانیاں نہیں بلکہ شاہی خلعتیں تیار ہوں گی، لیکن یہاں ایک مسئلہ ہوسکتاہے کوئی امریکہ میں درزی نہیں ملے گا، برطانیہ میں شاید مل جائے ۔داستانوں ،کہانیوں یا ڈراموں اور فلموں میں ہی دیکھا اور سنا ، حقیقت میں سنائی دے جائے ہمارے ملکی ایوانوں میں کہ دربان پکارے :
دربان : باادب ،باملاحظہ ، ہوشیار ، نگاہ روبرو ، سلطان ِ معظم ، امیر ِ مملکت ، شاہ ِ پاکستان تشریف لارہے ہیں ں ں ںں۔
نامہ نگار : حضور کا اقبال بلند ہو ، جان کی امان پائوں تو کچھ عرض کروں ؟


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں