میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
حکومت سے حکومت کااحتجاج

حکومت سے حکومت کااحتجاج

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۷ مئی ۲۰۲۳

شیئر کریں

حمیداللہ بھٹی

 

پندرہ مئی کو عدلیہ کے حمایتی حلقوں میں خاصی بے چینی دکھائی دی ۔اکثر کا خیال تھا کہ یہ حکومت کے خلاف حکومت کااحتجاج ہے۔ حالانکہ اسی عدلیہ نے پی ڈی ایم حکمرانی کا راستہ ہموار کیا۔شایداسی لیے اپنی محسن عدلیہ کے خلاف مولانافضل الرحمان اور مریم نواز کا احتجاج کچھ لوگوں کی سمجھ سے بالاتر رہا۔ احتجاج سے قبل مولانا غفور حیدری نے فرمایا دھرناغیر معینہ مدت کے لیے ہوگا۔ جبکہ عطاتارڑ کا دعویٰ تھا کہ چیف جسٹس عمرعطا بندیال کے استعفے تک دھرنا جاری رہے گا۔ لیکن غیر معینہ مدت تو ایک طرف یہ احتجاج تو ایک دن بھی نہ رہ سکا جس طرح آندھی کی طر ح شرکاء آئے تھے۔ اُس سے زیادہ عجلت میں واپس گھروں کو چلے گئے ۔کوئی عدلیہ کومحسن کہے یا حکومت کو احسان فراموش قرار دے ۔اِس احتجاج پر مجھے کوئی حیرانی نہیں بلکہ میرے خیال میں تو موجودہ حکومت نے کافی صبر اور برداشت کا مظاہرہ کیا ہے جس کی وجہ یقیناََ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور آصف زرداری ہیں۔ اگر میاں نواز شریف حکمران ہوتے تویہ احتجاج ہرگز محدود نہ رہتا بلکہ اب تک حالات خاصے خراب ہو چکے ہوتے۔ عین ممکن ہے پارلیمنٹ سے منصفوں کے خلاف کسی نوعیت کی کارروائی بھی شروع ہوچکی ہوتی۔ نیز ریڈ زون سے آگے سپریم کورٹ پر یلغارکاواقعہ بھی رونماہوچکاہوتا ۔ایسا ماضی میں ہوچکا سپریم کورٹ کی طرف سے پنجاب میں الیکشن کمیشن کا کیس ملتوی ہونے کی وجہ سے منتظمین اورشرکا ششدراب گھروں کوواپس چلے گئے ہیں لیکن مولانا کو قریب سے جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ وہ نفع و نقصان کا حساب و کتاب کرنے کے بعد ہی قدم اُٹھاتے ہیں اور ممکن ہے کسی وقت پھر اسلام آباد کا رختِ سفر باندھ لیں کیونکہ چاہے اسلام آباد میں اسلام نہیں ملتا لیکن اقتدار و اختیارکا نشہ تو اسی شہر سے دستیاب ہے ۔
جو قانون دان سپریم کورٹ کے باہر احتجاج کا زمہ دار حکومت کو ٹھہراتے ہیں میرے خیال میں وہ جلد بازی کے مرتکب ہورہے ہیں اگر حالات کو مدِ نظررکھتے ہوئے سوچ و سمجھ کر بات کریں تو یقیناََ اُنھیں بھی حکومت معصوم دکھائی دے گی۔ اب دیکھیں ناںیہ کیا کم ہے کہ رانا ثنااللہ اور اسحاق ڈار جیسے بے پناہ مصروف وزرا نے خاص طور پر اپنی مصروفیات سے وقت نکالا اور جا کر نہ صرف مولانا سے بالمشافہ ملاقات کی بلکہ ریڈزون کی بجائے ڈی چوک پر دھرنادینے کی تجویز بھی پیش کی جس سے اِ س خیال کو تقویت ملتی ہے کہ حکومت کا احتجاج میں کوئی ہاتھ نہیں ۔اگر ہوتا تو میاں شہباز شریف اورحضرت آصف زرداری جیسے نابغہ روزگار لوگ بھی شاملِ احتجاج مولانا کے ہمرکاب ہوتے۔ سچی بات تویہ ہے کہ حکومت کا یہ بڑا پن ہے کہ وہ اپنی صفائی میں کچھ کہہ رہی ہے ۔وگرنہ جو نہ مانے اُس پر تشدد کا آپشن بھی تو موجودہے ۔ ویسے بھی کیا یہ کافی نہیں کہ حکومت نے دو اہم ترین وزرا کوتجویز دیکر پی ڈی ایم کے سربراہ کے پاس بھیجا وہ تو مولانا نے غصے میں یہ کہہ کر تجویز رَد کردی کہ اب اعلان کر چکے اِس لیے فیصلہ عوامی عدالت میں ہوگا لیکن منصفوں نے کیس ملتوی کرکے ساراپروگرام ہی چوپٹ کر دیا وگرنہ ممکن ہے شہرِ اقتدار میں چند دن اور تماشا لگتا اورتتلیوں کے لیے زمین گرم کی جاتی۔ ایک عدالتی التوا سے سارے پروگرام ہی دھرے کے دھرے رہ گئے۔ کچھ معصوم احتجاجی مظاہرین سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے دریافت کیاکہ آپ اسلام آباد کیا کرنے آئے ہیں تو جو اب دیا آئین بچانے آئے ہیں اور جب یہ پوچھا کہ آئین کیا ہے توسبھی لاجواب دکھائی دیے یہ حکومتی احتجاج کے متعلق حکومتی موقف کی تصدیق ہے ۔
معصوم حکومت کے امن پسند اور شریف ترین وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ فرماتے ہیں کہ دفاعی اِداروں کی اطلاعات الارمنگ ہیں اسی لیے ریڈ زون سے باہر دھرنے کی درخواست کی مگر درخواست کو مولانا نے پزیرائی نہیں بخشی، جس پر شاید غصے میں آکر انھوں نے پولیس،رینجر اور دیگر قانون ساز اِداروں کو ہدایت کردی کہ جو جس طرف جاتا ہے جانے دیں کسی کو روکنے یا ٹوکنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ اتنی زحمت ضرورکریں کہ اگر کوئی دھرنے سے الگ ہو کرسیر وتفریح کی طرف لگتادکھائی دے تو اُسے گھیر گھار کر احتجاج کی طرف لے آئیں جس پر کچھ لوگوں کو پولیس مظاہرین کی سہولت کار نظر آئی ۔حالانکہ ہماری پولیس ویسے ہی کافی نبض شناس ہے کچھ بھی ہوجائے یہ کبھی حکومتی جماعتوں پر سختی نہیں کرتی بلکہ جی حضوری میں حاصل تربیت کابھرپور مظاہرہ کرتی ہے لیکن اپوزیشن کے کارکنان کو یہی پولیس آہنی ہاتھوں سے کچلنے میں خاص مہارت رکھتی ہے جس کی گزشتہ کئی دنوں سے جھلکیاں نظر آرہی ہیںتحریکِ انصاف کے لوگ دفعہ 144 کے دوران احتجاج کریں تو بلوائی اور دہشت گرد قرار پاتے ہیں لیکن مذکورہ دفعہ کی حکومتی جماعتوں کے لوگ خلاف ورزی کریں تو مجاہدین تصور کیے جاتے ہیں پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان کو سپریم کورٹ میں جانے سے روکنے کا جواز دفعہ 144 بنایا گیا لیکن حکومتی جماعتوں کے کارکن گیٹ پھیلانگ کر ریڈ زون میں جانے پربھی کسی نوعیت کی کوئی تادیبی کاروائی نہیں کی جاتی پھر بھی پولیس سے اگر حکومت خوش نہ ہو تو یہ نامناسب بات ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ پولیس کی مہارت و چابکدستی حکومتی سطح پر تسلیم کی جائے حکومت کے خلاف حکومت کے احتجاج پر پولیس کی سہولت کاری پر اگر حکومت خوش ہے تو پولیس آفیسران کو انعام و اعزازات سے نوازکراُس کی تربیت و مہارت کاقومی سطح پر اعتراف کرے ۔
ہم ذرا دنیا سے منفرد ہیں کبھی کسی ملک نے کسی شہری کو اپنی فوج کے خلاف با ت کرنے کی اجازت نہیں دی نہ ہی کوئی سیاسی جماعت ججز کی پارٹی بنتی ہے ۔ہماری انفرادیت یہ کہ حکومت اپنی فوج کی حمایت میں اگر پیش پیش ہے تو اپوزیشن چارقدم آگے بڑھ کرعدلیہ کی حمایت کررہی ہے۔ کسی کی ضد میں آکرایک اِدارے کی حمایت اور دوسرے سے نفرت درست روش نہیں۔ ریاست کے تمام آئینی اِدارے اہم ہیں ۔اِس لیے سبھی کا احترام ملحوظ ِ خاطر رکھنا چاہیے۔ کسی ایک اِدارے کی توقیر سے کھلواڑتمام اِداروں کی توقیر سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ اسی لیے حکومت اپنے حکومتی مظاہرین سے فاصلہ رکھ رہی ہے۔ ویسے حکومت تو ذہانت کا بھرپور مظاہرہ کررہی ہے۔ بہترہے حکومتی طریقہ کارسے اپوزیشن بھی کچھ سبق حاصل کرے ۔حالیہ احتجاج کے دوران حکومت نے کمال مہارت سے حکومت سے مذاکرات کیے جو بدقسمتی سے ناکام رہے کیونکہ حکومت نے حکومتی تجویزپر دھرنے کی جگہ تبدیل کر نے سے انکار کرد یا۔ اسلام آباد پہنچے حکومتی کارکنوں کو حکومت نے ریڈ زون میں جانے سے روکنے کی پوری کوشش کی مگر حکومت نے اپنی حکومت کی بات نہ مانی اورحکومت زبردستی گیٹ پھیلانگ کرریڈ زون میں داخل ہو گئی۔ پھر بھی حکومت مذاکرات پریہ کہہ کرآمادہ رہی کہ وہ اب بھی حکومت سے حکومتی شرائط پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔ عین ممکن ہے حکومتی مظاہرین کی طرف سے پیش کیے گئے الیکشن نہ کرانے یا پھر رواں برس کے آخر پر عام انتخابات کرانے جیسے مطالبات ملکی سیاسی استحکام کے لیے تسلیم کرلیے جاتے لیکن عدالتِ عظمٰی کی طرف سے کیس ملتوی ہونے سے یہ منزل حاصل نہ ہو سکی اور مظاہرین گھروں کو واپس جانے پر مجبورہوئے ایسی زہانت کا مظاہر ہ کبھی اپوزیشن بھی کر لے تو کوئی حرج نہیں اب توخیر سے حکومت نے اپنی پسند کی ایک عدد اپوزیشن بھی بنا لی ہے جس سے نہ صرف ملک میں آئے روز جمہوریت مضبوط ہورہی ہے جس کے تناظرمیںہم کہہ سکتے ہیں جلد ہی حقیقی جمہوریت کی منزل بھی حاصل ہو نے کا قوی امکان ہے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں