اراکین کے ڈسپلن سے ہٹ کر ووٹ دینے سے سیاسی پارٹی 'ٹی پارٹی' بن جائیگی، چیف جسٹس
شیئر کریں
سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت پر بی این پی کے وکیل نے دلیل دی ہے کہ آرٹیکل 95 ارکان کو پارٹی ڈسپلن سے ہٹ کر ووٹ دینے کی اجازت دیتا ہے جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے ہیں کہ ڈسپلن سے ہٹ کر ووٹ دینے سے سیاسی پارٹی ٹی پارٹی بن جائیگی۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرینس پر سماعت کی۔دوران سماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے وکیل مصطفی رمدے نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 63 اے میں تمام طریقہ کار موجود ہے، اگر آرٹیکل 63 اے میں طریقہ کار موجود نہیں ہے تو عدالت آرٹیکل 62، 63 کی طرف بھی دیکھ سکتی ہے۔ انہوںنے کہاکہ یہ ضروری نہیں ہر انحراف کسی فائدے کے لیے ہو، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین سازوں نے ڈی سیٹ کی سزا رکھی ہے۔دلائل جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انحراف خالصتاً سیاسی اختلافات پر بھی ہوسکتا ہے، آرٹیکل 63 اے میں ڈی سیٹ کی سزا فراہم کی گئی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں منحرف اراکین کیلئے ڈی سیٹ کی سزا کافی ہے، آرٹیکل 63 اے کے طریقہ کار سے ہٹ کر مزید گہرائی میں نہیں جانا چاہتے ہیں۔پی این پی کے وکیل نے کہا کہ ڈی سیٹ کے ساتھ مزید سزا شامل کرنے سے سیاسی تقسیم میں اضافہ ہو گا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن قومی اسمبلی کے اراکین سے متعلق ریفرینس مسترد کر چکا ہے۔وکیل نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کے آدھے ارکان نے ایک طرف جبکہ آدھے ارکان نے دوسری طرف ووٹ دیا اس سیاسی جماعت نے اپنے اراکین کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین جمہوریت کو فروغ دینے کے ساتھ سیاسی جماعت کو مضبوط بھی کرتا ہے، اکثر انحراف پر پارٹی سربراہ کاروائی نہیں کرتا، آرٹیکل 63 اے کسی سیاسی جماعت کو نہیں سسٹم کو بچاتا ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت ہے ان کے اراکین نے پالیسی سے کبھی انحراف نہیں کیا تو آرٹیکل 63 اے ایک سیاسی جماعت کے حقوق کا تحفظ بھی کرتا ہے۔وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے اراکین کو پارٹی کی پالیسی کا پابند کرتا ہے اور انحراف سے منع کرتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی رکن اسمبلی کے آخری چھ ماہ میں انحراف کرتا ہے توایسی صورتحال میں اس رکن کی سزا تو نہ ہوئی۔وکیل مصطفی رمدے نے بتایا کہ پارٹی سربراہ بھی منحرف اراکین کے خلاف کارروائی نہیں کرتے، عدالت پارٹی سربراہوں کے کنڈیکٹ کو بھی سامنے رکھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہو سکتا ہے منحرف رکن اپنے پارٹی سربراہ کو اپنے اقدام پر راضی کر لیتے ہوں۔وکیل نے دعویٰ کیا کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں اتنی جہموریت نہیں ہے، سیاسی پارٹی میں سربراہ کی ڈکٹیر شپ ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن ریمارکس دیے کہ ہر رکن اپنی مرضی کرے گا تو جمہوریت کا فروغ کیسے ہوگا کسی فرد پر فوکس کرنے کی بجائے سسٹم پر فوکس کیوں نہ کیا جائے، آرٹیکل 63 اے کے تحت انفرادی طور پر نہیں پارٹی کا حق ہوتا ہے، کیا 10،15 اراکین سارے سسٹم کو تبدیل کر سکتے ہیں؟انہوں نے استفسار کیا کہ کیا چند افراد سسٹم کو ڈی ریل کر سکتے ہیں۔