پاکستان اور چائنا کا جگمگاتا معاشی مستقبل
شیئر کریں
گزشتہ چند صدیوں سے معاشی ، اقتصادی اور صنعتی ترقی کی جو بین الاقوامی دوڑ شروع ہوئی ہے اِس وقت عوامی جمہوریہ چین اُس میں نہایت ہی برق رفتاری کے ساتھ اُبھر کر سامنے آرہا ہے اور پوری دُنیا کی صنعت و تجارت پر قبضہ کرنے کے لیے آئے روز نت نئے راستوں کی تعمیر کر رہا ہے ۔اور معاشی ماہرین کی پیش گوئی کے مطابق آنے والی چند دہائیوں میں دیکھتے ہی دیکھتے چائنا پوری دُنیا کی معاشی سپر طاقت بن کر عالمی تجارتی منڈیوں پر قابض ہوجائے گا۔
اِس وقت چائنا نہ صرف یہ کہ عالمی سطح پر اپنے لیے نت نئے اقتصادی و تجارتی راستے تعمیر اور ہموار کر رہا ہے ، بلکہ اب تو اُس نے ” ون بیلٹ ، ون روڈ“ (یعنی ایک خطہ ،ایک روڈ) کا وژن بھی پوری دُنیا کے سامنے پیش کردیا ہے ، جس کے تحت چائنا اپنے ملک کو ایشیا ، یورپ اور افریقہ کے زمینی راستوں کے علاوہ سمندری راستوں سے بھی منسلک کرکے اپنی معاشی واقتصادی اورصنعتی و تجارتی ترقی کو پوری دُنیا میں فروغ دے کرعالمی منڈی پر براجمان ہوجائے گا ۔
چنانچہ اسی حوالے سے گزشتہ اتوار کو چائنہ کے دار الحکومت ”بیجنگ“ میں ”دی بیلٹ اینڈ روڈ اینیشی ایٹو فورم“ کے نام سے دوروزہ اجلاس کا آغاز ہوا ، جس میں پاکستان سمیت 130 ممالک کے 1500 مندوبین اور دو درجن سے زائد تقریباً 29 سربراہانِ مملکت نے اپنی شرکت کو یقینی بنایا، لیکن مکار بھارت نے اس اجلاس میں شرکت کرنے سے صاف انکار کردیا اور اپنا عذرِ لنگ پیش کرتے ہوئے اس بات پر نالاں ہوا کہ ”ون بیلٹ، ون روٹ “ (ایک خطہ ، ایک روڈ) کا ایک اہم اور بڑا حصہ ”یعنی پاک چائنا اقتصادی راہ داری “ چوں کہ کشمیر سے ہوکر گزررہاہے اور کشمیر ایک متنازع فیہ علاقہ ہے جس سے بھارت کی خود مختاری اور علاقائی سا لمیت کی بنیادیں مخدوش ہوتی ہیں اس لیے بھارت کسی بھی ایسے منصوبے میں شرکت کرنے سے گریز کرتا ہے جس میں اُسے اپنی خود مختاری پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنا پڑے۔
لیکن اصل میں بات یہ نہیں جو مکار بھارت عذرِ لنگ کے طور پر بظاہر سامنے لارہا ہے ، بلکہ سچی اور حقیقی بات یہ ہے کہ ”پاک چائنا اقتصادی راہ داری“ جیسا عظیم منصوبہ بھارت کو کسی صورت ہضم نہیں ہوپارہا ، اور جوں جوں یہ عظیم منصوبہ اپنی تکمیل کی جانب گامزن ہورہا ہے توں توں مکار بھارت کے مکروہ اور مذموم عزائم میں بھی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ چنانچہ کبھی بھارت سول ہسپتال کوئٹہ میں خود کش حملے کرواتا ہے تو کبھی کوئٹہ پولیس ٹریننگ کالج میں ، کبھی تحصیل وڈھ کی درگاہ شاہ نورانی میں کرواتا ہے تو کبھی مستونگ میں ، بلکہ اب تو بھارت مذکورہ بالا چینی اجلاس میں شرکت نہ کرکے مکمل طور پرخطے میں تنہائی کا شکار ہوچکا ہے اس لیے اب تو وہ ہر وقت اسی فکر اور کوشش میں لگا رہتا ہے کہ کسی نہ کسی طریقہ سے سی پیک منصوبے یعنی پاک چائنا اقتصادی راہ داری اور اس سے منسلک عالمی اقتصادی اہمیت کے حامل پاک چائنا تعلقات کو سپوتاژ کرکے بہر صورت طشت از بام کیا جائے، لیکن انشاءاللہ ! بھارت اپنا یہ گھناو¿نا کھیل ہر گز نہیں کھیل سکے گا بلکہ اگر اُس نے ایسا کوئی مذموم عملی قدم اُٹھایا بھی تو اُسے منہ کی کھانا پڑے گی۔
بہرحال عوامی جمہوریہ چین کے دارالحکومت ”بیجنگ“ میں منعقد ہونے والے ”دی بیلٹ اینڈ روڈ اینیشی ایٹو فورم“ دو حصوں پر مشتمل ہے : پہلا حصہ ” سلک روڈ اکنامک بیلٹ “ کہلاتا ہے جب کہ دوسر حصہ ”21ویں صدی میری ٹائم سلک روڈ “ کے نام سے معنون ہے۔ مو¿خر الذکر دوسرا حصہ ”21 ویں صدی میری ٹائم سلک روڈ “ وہ سمندری راستہ ہے جس کے ذریعہ چائنا اپنے جنوبی ساحل کو وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے ذریعہ مشرقی افریقہ اور بحیرہ¿ روم سے ملائے گا ۔
اِس وقت جب کہ یہ سطور تحریر ہورہی ہیں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف وفاقی وزراءاور چاروں وزرائے اعلیٰ سمیت چائنا کے دورے پر ہیں ، گزشتہ سے پیوستہ ہفتہ کے روزوزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے چائنا کے دارالحکومت ” بیجنگ“ میں چینی صدر اور اپنے ہم منصب چینی وزیر اعظم سے الگ الگ ملاقاتیں کیں ،جہاں پاکستان اور چائناکے درمیان گوادر ایئر پورٹ ، بھاشا ڈیم کی تعمیر، حویلیاں ڈرائی پورٹ یعنی خشک بندر گاہ کے قیام کے لیے اربوں ڈالرز کے معاہدے طے پائے اور 21 ویں صدی میری ٹائم سلک روڈ ، ایم ، ایل ون یعنی مرکزی ریلوے ٹریک پر عمل درآمد کے لیے مفاہمت کی یاد داشت پر دستخط کیے گئے ۔ گوادر ایئر پورٹ کی تعمیر کے لیے چین پاکستان کو 80 کروڑ آر ، ایم ، بی تکنیکی اقتصادی تعاون، جب کہ ایسٹ بے ایکسپریس وے کے لیے 10 کروڑ آر ، ایم ، بی فراہم کرے گا۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے حالیہ دورہ¿ چین میں جن معاہدوں اور مفاہمتوں پر دستخط ہوئے، ان میں سب سے زیادہ اہم اور ضروری بھاشا ڈیم کے قیام کا معاہدہ ہے جس سے ایک محتاط اندازے کے مطابق 4 ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکے گی ہے اور یہ منصوبہ تقریباً نو سال کے عرصہ میں مکمل ہوگا ، اس سے وطن عزیز ملک پاکستان کو توانائی کے سلسلہ میں سستی اور وافر مقدار میں بجلی مہیا کی جائے گی جس سے زندگی بھر کے تمام تر شعبوں میں انتہائی سہولت ا ور آسانی ہو گی،اس لیے کہ اس وقت سستی اور وافر مقدار میں بجلی مہیا ہونے کی صورت ہی میں ملکی صنعت و حرفت کا جام اور بند پہیہ رواں دواں ہوسکتا ہے اور لوڈشیڈنگ کے ستائے ملک کے طول و عرض میں پھیلے غریب اور مظلوم عوام سکھ اور راحت کا سانس لے سکتے ہیں ۔
اسی طرح مرکزی ریلوے ٹریک کی بہتری کا معاہدہ بھی خاصا اہمیت کا حامل ہے جو صنعتی و تجارتی سامان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ سستی و ارزاں نقل و حمل کے ساتھ ساتھ عوامی باشندگان کو بھی سستی اور کم خرچ سفری سہولیات فراہم کرے گا ۔
یہ امر پاکستان کے حق میں خوش آئند ہے کہ ”ون بیلٹ ون روڈ“ ( ایک خطہ ، ایک روڈ) کا ایک اہم اور بڑا حصہ پاک چائنا اقتصادی راہ داری پر مشتمل ہے ، جس میں چائنا 56 ارب ڈالر کی خطیر رقم کی سرمایہ کاری کر رہا ہے ، اس سے جہاں وطن عزیز ملک پاکستان کی کرپشن زدہ کمزور معیشت کو ایک نئی زندگی او ر ایک تازہ ولولہ ملے گا تو وہیں عوامی جمہوریہ چین کو بھی ایک ایسا تجارتی راستہ مہیا ہوجائے گا جو مسافت کے لحاظ سے اس وقت استعمال ہونے والے تجارتی راستہ کے مقابلہ میں کم از کم ڈیڑھ دو گنا ضرور کم ہوگا۔
ہماری اربابِ حکومت اور ملک کے مقتدر طبقے سے عاجزانہ التماس ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ملک کے مظلوم اور غریب عوام کے ناگفتہ بہ مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں فی الفور اور بروقت عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں گے اور وطن عزیزملک پاکستان کو عروج و ترقی کی منازل طے کراکے دیگر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کر کھڑا کریں۔