میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سیکولر بھارت میں انتہا پسندی کا راج

سیکولر بھارت میں انتہا پسندی کا راج

ویب ڈیسک
پیر, ۱۷ اپریل ۲۰۲۳

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بی بی سی کے بعد امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے مودی کا ہندوستان کو ہندو ملک بنانے کا منصوبہ بے نقاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کی بعد بھارت میں مذہبی شدت پسندی اور اقلیتوں کے خلاف رجحانات میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف جرائم پر سزا کا کوئی رواج نہیں۔اخبارکے کالم میں مودی سرکار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔اخبار کی رپورٹ کے مطابق نہرو کا سیکولر بھارت ہندو انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھ گیا۔رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ مودی سرکار نے جان بوجھ کر مسلمان مخالف قوانین بنائے، شہریت کے قوانین کی تبدیلی اور کشمیر کے ناجائز غاصبانہ انضمام کا بھی حوالہ دیا گیا۔مودی ہندو انتہاء پسند تنظیم آر ایس ایس کا سر گرم رکن ہے۔ مودی سرکار نے منظم انداز میں آزادیِ اظہار پر کریک ڈاؤن کیا۔ تنقیدی آوازوں کو دہشتگردی قوانین سے دبایا گیا۔میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے ایمرجنسی پاورز کا سہارا لیا گیا۔
ہندو انتہا پسند ہمیشہ سے بھارت کی سیکولر آئینی حیثیت ختم کر کے اسے ہندو ملک کا درجہ دینا چاہتے ہیں۔مودی تیسری مرتبہ الیکشن جیت کر آئین تبدیل کر کے بھارت کو ہندو ملک قرار دے دے گا۔ پے در پے چھپنے والے مضامین ظاہر کرتے ہیں کہ عالمی میڈیا میں مودی کی ہندو انتہا پسند پالیسیوں پر شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ کیا عالمی میڈیا اور مغرب مودی کی 2024 میں جیت پر پریشان ہے؟ کیا مودی تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کی ہوس میں پاکستان کیخلاف ایک اور فالس فلیگ آپریشن کا ڈرامہ رچائے گا؟، کیا ایک اور مودی دور حکومت بھارت میں ہندو انتہا پسندی کو خطرناک حد تک فروغ نہیں دے گا؟۔ کیا ہندو توا کے تحت چلنے والا ایٹمی بھارت خطے بالخصوص پاکستان اور عالمی دنیا کی سلامتی کیلئے خطرہ تو نہیں؟
بھارت میں مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی میں بھارت دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف پائی جانے والی انتہا پسندی برسوں سے حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھ رہی ہے۔ پورے ملک میں بدامنی اور بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کا ہدف صرف مسلمان اور سکھ نہیں نچلی زات کے ہندو اور مسیحی بھی نشانے پر ہیں۔ مدھیہ پردیش، کیرالہ، کرناٹکہ، اوڑیسہ، گجرات میں مسیحیوں پر زندگی تنگ کی جارہی ہے۔ وشواہندو پریشد کے غنڈے مسیحی آبادیوں پر حملے کر رہے ہیں اور چرچ اور مسیحیوں کی املاک کو تباہ کر رہے ہیں مگر ان کو روکنے والا کوئی نہیں۔ 2014 میں عین کرسمس کے دن کھرگون، کھنڈوا اور ہرہانپور کے مسیحیوں پر منظم حملے کئے گئے۔ کشمیری مسلمانوں کا قتل عام ساری دنیا دیکھ رہی ہے مگر پوری دنیا کے ممالک نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔
یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ بھارت اس وقت مکمل انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں جا چکا ہے اور بھارت کا سیکولرازم کا چہرہ مسخ ہو چکا ہے۔ حیرت ہے کہ پوری دنیا کو پرامن بنانے کی جدو جہد کا دعوی کرنے والا ملک امریکہ جس نے کل تک تو نریندر مودی کو اس کی انتہا پسندی کی بنا پر امریکہ کا ویزا دینے سے انکار کیا تھا آج وہی امریکہ بھارت کے کہنے پر کشمیر میں آزادی کی جدو جہد کرنے والے فریڈم فائٹر سید صلاح الدین کو دہشت قرار دیتا ہے۔ دنیا کا امن اسی صورت قائم رہ سکتا ہے کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی کے جن کو بوتل میں بند کیا جائے۔
مذہبی اقلیتوں پر تشدد، ان سے ناروا سلوک زبردستی مذہب کی تبدیلی اور ان کو خوف وہراس کا نشانہ بنانا کوئی نئی بات نہیں۔ اس حقیقت کو آشکار کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے کہ اس کا ذمہ دار بھارت کا غیر مستعد عدالتی نظا م ہے جہاں ان قوانین کو عمل پیرا نہ کروانے میں حکومتی سرکار ملوث ہے۔ اسکے باوجود بھارت دنیا کے سامنے سیکولر ملک ہونے کا دعوی کرتا ہے۔ بھارت کی سیاسی جماعتیں اور میڈیا دنیا کے سامنے اقلیتوں کو ان کے حقوق کی فراہمی کا پرچار کرتی ہیں جبکہ پاکستان کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہاں اقلیتوں کو انکے بنیادی حقوق فراہم نہیں کیے جا رہے۔ حقوقِ انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت ملک میں اظہارِ رائے کی آزادی اور مذہبی اقلیتوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔تنظیم کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی ورلڈ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت میں حکومت کے ناقد سول سوسائٹی کے گروپوں کو نہ صرف فنڈنگ کی بندش بلکہ بڑھتی ہوئی پابندیوں کا بھی سامنا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے تنقید کو دبانے کی کوشش ملک میں اظہارِ رائے کی آزادی کی قدیم روایت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ بھارت میں حکمران جماعت کے کچھ رہنماؤں کی جانب سے مسلم مخالف بیانات کا چلن تشویش ناک ہے اور اس سے مذہبی اقلیتوں میں عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے۔جب بھارت میں چار مسلمانوں کو گائے مارنے کے شبہے میں ہلاک کیا گیا تو اس کے خلاف مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے آواز اٹھائی لیکن بی جے پی کے کچھ رہنماؤں نے اس پر مشتعل ہو کر جو بیان دیے اس سے آواز اٹھانے والے افراد کو بھی دھمکی آمیز پیغامات ملنے لگے۔رپورٹ میں گرین پیس انڈیا کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت نے مذکورہ تنظیم کے علاوہ فورڈ فانڈیشن سمیت کئی دیگر تنظیموں کو نشانہ بنایا ہے اور ان کی غیر ملکی امداد روک دی گئی ہے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں