الوداعی ظہرانے نے دھمکی آمیز خط کے تنازع کو جنم دیا،سفارتی ذرائع
شیئر کریں
نام نہاد دھمکی آمیز مراسلے کے اسکینڈل کا آغاز سات مارچ کو پاکستانی سفیر اسد مجید خان کے لیے ان کی رہائش گاہ پر الوداعی ظہرانے میں ہوا، اسد مجید خان کی رہائش گاہ کو پاکستان ہاؤس بھی کہا جاتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سفارتی اور سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ظہرانے میں ایک نوٹ ٹیکر نے شرکت کی تھی، بعد ازاں جو کیبل سفیر اسد مجید خان نے اسلام آباد بھیجا وہ اسی کے تحریر کردہ نوٹس پر مبنی تھا، اس شخص کا تعلق پاکستانی سفارت خانے سے بھی تھا۔ ظہرانے میں شرکت کرنے والے امریکی حکام میں امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو اور ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری لیسلی سی ویگوری شامل تھے۔ پاکستانی وفد میں ڈپٹی چیف آف مشن سید نوید بخاری اور دفاعی اتاشی شامل تھے۔ سات مارچ کی دوپہر کے کھانے پر ہونے والی ملاقات یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کے بعد دو ہفتے سے بھی کم عرصے میں منعقد ہوئی تھی، اس لیے یوکرین پر حملے کی گفتگو غالب رہی۔ ذرائع نے بتایا کہ امریکی فریق نے پاکستان کی جانب سے اپنے وزیر اعظم عمران خان کے ماسکو جانے کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا اسی روز روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ کس طرح حملے نے پوری امریکی قوم کو غصے میں مبتلا کیا، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے خیال میں عمران خان کو کیوں اپنا دورہ ملتوی کرنا چاہیے تھا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ لو نے اشارہ دیا تھا کہ واشنگٹن کا خیال ہے کہ حملے کے باوجود دورے کو آگے بڑھانے کا حتمی فیصلہ عمران خان کا تھا حالانکہ کچھ پاکستانی حکام نے اسے ملتوی کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق پاکستانی سفیر اسد مجید خان نے دلیل دی کہ یہ ایک اجتماعی فیصلہ تھا اور پاکستان برسوں سے ماسکو کے دورے کی کوشش کر رہا تھا اور جب دعوت آئی تو نہ ٹھکرا سکے اور نہ ملتوی کر سکے۔ تاہم امریکیوں نے دلیل دی کہ اسلام آباد کو اس دورے سے قبل اس معاملے پر واشنگٹن کی حساسیت پر بھی غور کرنا چاہیے تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ ظہرانے کے دوران پاکستان کے موجودہ سیاسی ماحول پر بھی گفتگو ہوئی اس موقع پر ڈونلڈ لو نے نشاندہی کی کہ واشنگٹن نے حالات پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے اور اس وقت کے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کے اقدام کا نتیجہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو بھی متاثر کرے گا۔ ذرائع نے دعوی کیا کہ ڈونلڈ لو کے دلائل خطرناک اور معمول سے مختلف تھے، لیکن انہوں نے حکومت کی تبدیلی کی دھمکی نہیں دی۔ ذرائع نے یہ بھی دعوی کیا کہ اجلاس میں شریک کسی بھی شخص نے یہ محسوس نہیں کیا کہ امریکی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کی سازش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی یہ تاثر نہیں ملا، لیکن انہوں نے کہا کہ نتیجہ دو طرفہ تعلقات کو متاثر کرے گا، جس کی کسی بھی طرح سے تشریح کی جا سکتی ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ امریکا نے عمران خان کے دورہ ماسکو پر پاکستان کے ساتھ اپنی مایوسی کو کبھی نہیں چھپایا۔ انہوں نے دعوی کیا کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے اپریل میں واشنگٹن کا دورہ کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن یہ جاننے کے بعد اسے ملتوی کر دیا کہ امریکی یوکرین کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں۔