”سندھ کارڈ“ پھر میدان میں
شیئر کریں
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو یہ جان کر بہت دکھ ہوا ہے کہ جنوبی پنجاب میں شرح خواندگی صرف 12فیصد ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوس انہیں اس بات کا ہونا چاہیے کہ اندرون سندھ 36فیصد سے زائد بچے غربت و افلاس کی وجہ سے اسکول ہی نہیں جاتے۔ پاکستان دو لخت ہونے کے بعد 1972ءسے لے کر 2013ءتک پیپلز پارٹی نے کم از کم 15سال”نئے پاکستان“ پر حکومت کی ہے۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری تک مختلف ادوار میں حکمران رہے ہیں۔ 1947ءکے بعد سے تو سندھ میں وزیر اعلیٰ بھی اندرون سندھ سے آتے ہیں جن میں خیر پور اور دادو کے علاقے سر فہرست ہیں۔ نگراں وزیر اعظم غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو مرحوم کے علاوہ دیگر وزرائے اعظم اور صدر مملکت کا تعلق پیپلز پارٹی سے رہا ہے۔ پھر سندھ میں تعلیم کا حال بے حال کیوں ہے۔ پاکستان پر 15سال حکمرانی کے باوجود پیپلز پارٹی خود کو تعلیم کی زبوں حالی سے کیوں کربری الذمہ قرار دے سکتی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک چینل سے وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناءاللہ زہری کا انٹر ویو نشر ہوا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد سے بلوچستان میں کوئی پنجابی وزیر اعلیٰ مقرر نہیں ہوا‘ سارے بلوچ تھے۔ پھر بلوچستان کی پسماندگی‘ غربت و افلاس‘ بیروزگاری اور تعلیمی انحطاط کا ذمہ دار پنجابیوں کو کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ اور بلوچستان کی صوبائی قیادتوں نے اپنی نا اہلی، اقربا پروری اور ہوس زر کو چھپانے کے لیے اپنے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ہمیشہ پنجاب کی طرف انگلی اٹھادی ہے۔ پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کے پاس غریب عوام کے لیے بہترین منصوبے ہیں یہ بات انہوں نے پنجاب میں بیٹھ کر کہی۔ اگر یہی بات سندھ میں بیٹھ کر کرتے تو شاید لوگ ان سے سوال کرتے کہ ان منصوبوں پر سندھ میں عمل کیوں نہیں ہوا، جہاں گزشتہ 9سال سے آپ کی پارٹی حکومت کررہی ہے لیکن خود آپ کا اپنا علاقہ لاڑکانہ تباہی وبربادی میںموئن جودڑو کا نقشہ پیش کررہا ہے۔ لیاری کے گینگ وار سرغنہ عزیز بلوچ نے جے آئی ٹی کے روبرو جو ہولناک انکشاف کیے ہیں ان کے بعد تو کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے 9سال قبل اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر حاضری کے بجائے لیاری جاکر عزیر بلوچ کے عشائیہ میں شرکت کی تھی۔ آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور اور سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس تقریب کی تصاویر آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ عزیر بلوچ کے اعترافات کے بعد تو ان تمام لوگوں کو جیل میں ہونا چاہیے تھا، لیکن پی پی سینیٹر سعید غنی نے یہ کہہ کر فیس سیونگ کی کوشش کی ہے کہ عزیر بلوچ کے جرائم سے پیپلز پارٹی کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ تعلق نہ ہونے کے باوجود قائم علی شاہ اور فریال تالپور لیاری عزیر بلوچ کی دعوت میں کیوں گئے تھے اور لیاری گینگ وار کو”پیپلز امن کمیٹی“ کا نام استعمال کرنے کی اجازت کس نے دی تھی۔ آج پاکستان جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کہتے ہیں کہ سندھ میں بھیڑیے راج کررہے ہیں اور مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما طلال چوہدری سوال کرتے ہیں کہ سندھ میں ترقیاتی کام تو وزیر اعظم نواز شریف کرا رہے ہیں‘ سندھ کا پیسہ کہاں چلا گیا۔ کچھ اسی قسم کی باتیں وزیر اعظم نواز شریف نے 15اپریل کو جیکب آباد کے جلسہ میں کی ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ 1991ءسے قبل سندھ میں ڈاکو راج تھا اور ہم نے آکر حالات ٹھیک کیے ہیں 1991ءسے قبل سندھ میں پیپلز پارٹی کی”بے نظیر حکومت“ تھی اس دور کو ”ڈاکو راج“ سے تعبیر کرنا ذو معنی ہے۔ وزیر اعظم نے اسی جلسہ میں فرمایا کہ سندھ حکومت نے عوام کو مایوس کیا ہے۔ انہوں نے جیکب آباد کی ترقی کے لیے ایک ارب روپے امداد کے علاوہ مختلف ترقیاتی منصوبوں کا اعلان بھی کیا۔ سندھ کے وزراءوزیر اعظم کے اس اندازِ تکلم پر سخت برہم ہیں۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے والد مرحوم وزیر اعلیٰ سید عبداللہ شاہ کی برسی کی تقریب میں خوب کھری کھری سنائی ہیں ۔ ن لیگی رہنما عابد شیر علی کو”بکری“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم اپنا حق چھیننا جانتے ہیں۔ اگر وفاق نے اپنا قبلہ درست نہ کیا تو پورے سندھ میں احتجاج کریں گے۔ انہوں نے”انکشاف“ کیا کہ نواز شریف کے جیکب آباد جلسہ میں کرائے کے لوگ بلائے گئے تھے سندھ میں بیک وقت دو جنگیں لڑی جارہی ہیں۔ پیپلز پارٹی وفاق کے دباو¿ کو مداخلت قرار دیتے ہوئے اپنی کھال بچانے کی کوشش کررہی ہے۔ آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کے معاملے پر عدالتی فیصلہ کے سبب ان کے تبادلے سے تو قاصر ہے لیکن انہیں بے دست و پا کردیا گیا ہے۔
اے ڈی خواجہ کے بقول انہیں کلرک بنادیا گیا ہے اور سندھ پولیس میں تبادلوں‘ تقرریوں کے حوالے سے کوئی مشورہ نہیں کیا جارہا ہے۔ سندھ کی وفاق کے فیصلہ سے”بغاوت“ صرف اسی معاملے میں نہیں ہے‘ گیس کی فراہمی کا معاملہ بھی سنگین شکل اختیار کرگیا ہے۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے پنجاب کی گیس بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ آصف علی زرداری کے معتمد خاص انور مجید نے حکومت سندھ کے ساتھ شراکت داری میں سپر ہائی وے نوری آباد کے علاقے میں 1500میگاواٹ کا پاور پلانٹ لگایا ہے جس کے لیے گیس درکار ہے‘ وزیر اعلیٰ یا سندھ حکومت نے کبھی عوام کے لیے گیس کی لوڈ شیڈنگ کا کیس تو نہیں لڑا لیکن وہ پاور پلانٹ کے لیے وفاق سے برسر پیکار ہوگئے ہیں اور پنجاب کی گیس بند کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ انور مجید نے ہوائی بجلی بنانے کی منظوری لی تھی جو بعد ازاں ہوا میں تحلیل ہوگئی۔ وزیر اعظم نے گزشتہ دنوں نئے گیس کنکشن پر پابندی ختم کی تو وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے سوئی سدرن گیس کمپنی سے دوبارہ رابطہ کیا اور گیس کنکشن کا مطالبہ کیا ،ایس ایس جی سی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کی درخواست سے قبل نئے کنکشن کی 37درخواستیں آخری مراحل میں ہیں جن کا ڈیمانڈ نوٹ پہلے جاری کیا جائے گا۔ ان علاقوں میں فیصل آباد‘ کراچی‘ ملتان‘ کوٹری اور نوری آباد سمیت ایک درجن سے زائد صنعتی زون شامل ہیں۔ گیس کمپنی کا جواب سن کر وزیر اعلیٰ مزید برہم ہوگئے اور انہوں نے پنجاب کی گیس بند کرنے اور ایس ایس جی سی کے دفتر پر قبضہ کی دھمکی دے دی۔ سندھ میں لڑی جانے والی دوسری سیاسی جنگ کے فریقین میں پاک سرزمین پارٹی‘ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان‘ جماعت اسلامی‘ تحریک انصاف اور ایاز لطیف پلیجو کی پارٹی عوامی تحریک ہے۔ پی ایس پی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال اور صدر انیس احمد قائمخانی کی قیادت میں کراچی پریس کلب پر طویل ترین دھرنا دیا گیا ہے۔ حکومت کی وزارتی ٹیم نے کئی بار پی ایس پی کے رہنماو¿ں سے مذاکرات کیے لیکن وہ سارے مطالبات تسلیم ہونے تک دھرنا ختم کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ جماعت اسلامی کے رہنماءنعیم الرحمان کی قیادت میں کے الیکٹرک کے دفاتر اور شہر کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے ہیں۔ یہ جماعتیں سندھ حکومت سے برسر پیکار ہیں اور شہری مسائل کے حل کا مطالبہ کررہی ہیں۔ مصطفیٰ کمال ماضی میں کراچی کے میئر رہ چکے ہیں اور شہر میں درجنوں تعمیراتی منصوبے کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچانے میں خاص شہرت رکھتے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار بھی کراچی کے میئررہے ہیں۔ ان رہنماو¿ں کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے شہری محکموں پر قبضہ کرلیا ہے۔ منتخب میئر کراچی وسیم اختر کے اختیارات سلب کرکے انہیں بے دست و پا کردیا گیا ہے سندھ حکومت نے صوبائی اسمبلی میں خود قوانین بنائے اور اداروںکو تحویل میں لے لیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پی پی نے سندھ اسمبلی میں سادہ اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے من پسند قانون سازی کی ہے۔ اپوزیشن نے اس اسمبلی میں نہ بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سڑکوں پر احتجاج کا راستہ اختیار کیا جارہا ہے۔ مصطفیٰ کمال اور ڈاکٹر فاروق ستار کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ سندھ کو شہری ادارے واپس کرنا ہوں گے۔
وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اور پی پی پی قیادت کی سندھ کے نام پر وفاق اور پنجاب سے جنگ اور صوبوں کی دیگر جماعتوں کی شہری حقوق اور مسائل حل کرنے کے لیے سندھ حکومت سے لڑائی‘ دو مختلف پہلوو¿ں کی کشمکش ہے۔ ان لڑائیوں میں کون فتحیاب ہوگا‘ اس کا فیصلہ آئندہ ایام میں ہوجائے گا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے وفاق کے دباو¿ کو منتشر کرنے کے لیے ہمیشہ”سندھ کارڈ“ استعمال کیا ہے جو اَب بھی کیا جارہا ہے۔
٭٭….٭٭