میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ہولی پر فساد کرانے کی سازش ناکام

ہولی پر فساد کرانے کی سازش ناکام

ویب ڈیسک
پیر, ۱۷ مارچ ۲۰۲۵

شیئر کریں

معصوم مرادآبادی

ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں ہولی کے موقع پر فساد کرانے کی سازش ناکام بنادی گئی ہے ۔ یہ کام حکومت یا سرکاری مشنری نے نہیں بلکہ ان امن پسند ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر انجام دیا ہے جو اس ملک میں امن چین سے رہنا چاہتے ہیں۔ ورنہ گمراہ پولیس والوں اور بی جے پی کے لوگوں نے شرپھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ہولی اور نماز جمعہ کے نام پر اتنا شر پھیلادیا گیا تھا کہ لوگ خوف وہراس میں مبتلا تھے ۔ یہاں تک کہ ہولی کے رنگوں سے مسجدوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ان پر ترپال ڈالے گئے تھے اور سیکورٹی تعینات کی گئی تھی۔مگر جب ہولی منانے والوں پر مسلمانوں نے اور جمعہ ادا کرنے والوں پر ہندوؤں نے پھول برسائے تو ساری ساز ش دھری کی دھری رہ گئی۔اس سے یہ بھی ثابت ہواکہ اس ملک کے ہندو اور مسلمان اتحاد اور بھائی چارے کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔یہ شرپسند سیاسی عناصر ہیں جو انھیں آپس میں لڑا کر اپنی گھناؤنی سیاست کا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔
پورے ملک میں ہولی کا تہوار اور جمعہ کی نماز امن اور شانتی کے ساتھ گزر گئی۔ فرقہ وارانہ تصادم کی کوئی واردات کہیں نہیں ہوئی۔ یہ ان لوگوں کے منہ پر زوردار طمانچہ سے کم نہیں ہے جو ہولی اور جمعہ کے حوالے سے مسلسل کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کررہے تھے ۔اتفاق سے اس بار ہولی اور جمعہ ایک ساتھ آئے اور بہت سے اندیشوں کو بھی ساتھ لائے ۔حالانکہ یہ پہلا موقع نہیں تھا، لیکن جن لوگوں کی سیاست ہندومسلم ٹکراؤ سے فروغ پاتی ہے ، انھوں نے اسے اپنے لیے ایک موقع جانا اور اس پر زبردست محاذ آرائی شروع کردی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس سلسلہ کا آغاز سنبھل کے ایک جونیئر پولیس آفیسر کی خود سری سے ہوا۔ اس معاملے میں گودی میڈیا کے نیوزچینلوں نے بھی خوب آگ بھڑکائی اورسڑک چھاپ عناصر کے ناعاقبت اندیش بیانوں کو خوب مرچ مسالہ لگاکر پیش کیا۔ اس سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا کہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کو اصل خطرہ ان نیوز چینلوں سے بھی ہے جو مسلمانوں کے خلاف برادران وطن کے ذہنوں میں زہر بھرنے کا کام کررہے ہیں۔ اگر آپ پچھلے چنددنوں کے واقعات پر نظرڈالیں تو محسوس ہوگا کہ اس وقت مسلمانوں کو بدنام کرنا ہی تمام مسائل کا حل سمجھ لیا گیا ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانا اب ایک فیشن بن گیا ہے اور اس میں حکمراں بی جے پی کے لوگ پیش پیش ہیں۔وہ مسلم دشمنی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ملک کے قانون کے مطابق فرقہ وارانہ منافرت پھیلانا قابل سزا جرم ہے ، لیکن حکومت کی مشنری اس معاملے میں بالکل اپاہج ہے ۔ آپ مسلمانوں کو کتنا ہی برا بھلا کہہ لیں کوئی آپ سے یہ پوچھنے والا نہیں ہے کہ آپ کے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ اس کے برعکس اگر کوئی مسلمان منہ بھی کھول دے تو اس کے خلاف مقدمات کی باڑھ آجاتی ہے اور اس کی زبان کھینچنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔اس کا اندازہ حال ہی میں مہاراشٹر سماجوادی پارٹی کے لیڈر ابوعاصم اعظمی کے معاملے میں بخوبی ہوا۔ اورنگزیب کے بارے میں بیان دینے کی پاداش میں انھیں نہ صرف اسمبلی سے معطل کردیا گیا بلکہ ان کے خلاف درجنوں مقدمات قائم کردئیے گئے ، جبکہ مہاراشٹرکا ایک وزیرنارائن رانے ہرروز مسلمانوں کے خلاف ایک سے بڑھ کر ایک اشتعال انگیز بیان دیتا ہے لیکن اس کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرنے کے لیے حال ہی میں ایک نیا فارمولا ایجاد کیا گیا۔ یہ فارمولا تھا ہولی اور نماز کے نام پر ٹکراؤ پیدا کرنے کا۔ اس کا آغاز کسی فرقہ پرست اور مسلم دشمن لیڈر نے نہیں بلکہ یوگی جی کے چہیتے ایک پولیس افسر نے کیا۔انوج چودھری نام کے اس افسر نے سنبھل کے مسلمانوں کو دھمکاتے ہوئے کہا کہ”ہولی سال میں ایک بار آتی ہے اور جمعہ سال میں باون بار، لہٰذا مسلمان جمعہ کی نماز گھروں کے اندرپڑھیں یا پھر ہولی کا رنگ برداشت کرنے کی قوت پیدا کریں۔یہ بیان ایک ایسے پولیس افسر کا تھا جس کا کام نظم ونسق قائم کرنا اور سماج کے مختلف طبقوں کے درمیان بھائی چارہ قائم کرنا ہے ۔یوں محسوس ہوا کہ سی او سے یہ بیان ایک منصوبہ بند حکمت عملی کے تحت دلوایا گیا تھا۔ کیونکہ بعدکو یوگی کابینہ کے ایک بڑبولے وزیرنے تو یہ بھی کہہ ڈالا کہہولی کے دن مسلمان چمڑے کا برقع پہن کر باہر نکلیں تاکہ انھیں رنگ نہ لگے ۔اس کے بعد اس قسم کے لایعنی بیانوں کی قطار لگ گئی اور گودی میڈیا نے اس پر سینہ کوبی کا سلسلہ شروع کردیا۔ ہرایراغیرا بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کو تیار ہوگیا۔ یہاں تک کہ خود وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی اس پر مہر لگانا ضروری سمجھا اور مسلمانوں کو نصیحت دے ڈالی کہ وہ اپنے ہندو بھائیوں کے مذہبی جذبات کا پاس رکھتے ہوئے جمعہ کی نمازگھر میں اداکریں۔ یہ ایک ایسی ریاست کے وزیراعلیٰ کا بیان تھا جہاں پانچ کروڑ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کو اس بنیادی حقیقت کا علم ہی نہیں ہے کہ جمعہ کی نماز گھر پر نہیں مسجد میں باجماعت ادا کی جاتی ہے ۔
موجودہ نظام حکومت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس میں مسلمانوں کو ایک غیرضروری آبادی سمجھ کر ان کے ساتھ دوئم درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جارہاہے ۔ جن لوگوں نے ملک کے آئین پر ہاتھ رکھ کر یہ حلف اٹھایا ہے کہ وہ کسی کے ساتھ مذہب،ذات پات، رنگ ونسل، علاقہ یازبان کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کریں گے ، وہ کھلے عام اس کی دھجیاں اڑارہے ہیں۔ نہ صرف مسلمانوں کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر سوتیلا سلوک کیا جارہا ہے بلکہ ان کی زبان اور تہذیب کو بھی بربادکرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔یہ ملک کے آئین کی کھلی پامالی ہے ۔یہ سارا معاملہ چونکہ سنبھل سے شروع ہوا ہے ، اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی صورتحال پر ایک نظر ڈال لی جائے ۔ سنبھل میں جب سے شاہی جامع مسجد کے مندر ہونے کا شوشہ چھوڑا گیا ہے تب سے یہ علاقہ ہندتو کی ایک سرگرم لیبارٹری میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ یہاں سب کچھ اسی نقطہ نظر سے انجام دیا جارہا ہے ۔ حکومت کی سرپرستی میں سنبھل کے مسلمانوں کو سخت امتحانوں سے گزارا جارہا ہے ۔ وہاں مسلم محلوں میں مندر تلاش کئے جارہے ہیں اور لاؤڈ اسپیکرسے اذان دینے پر مقدمے قائم کئے جارہے ہیں۔حال ہی میں سنبھل کی چندوسی تحصیل میں پولیس نے مقررہ حد سے زیادہ لاؤڈاسپیکر کی آواز پر مسجد کے امام کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے ۔اتنا ہی نہیں پولیس نے مسجد کا لاؤڈ اسپیکر بھی ضبط کرلیا۔ اس کے ساتھ حکم عدولی کی صورت میں مزید سخت ایکشن لینے کے احکامات بھی دئیے گئے ہیں۔مسجد کے امام حافظ شکیل خلاف تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے ،جس میں صوتی آلودگی کی دفعہ بھی شامل ہے ۔ رمضان کے مہینے میں اس قسم کی کارروائی کئی دیگر علاقوں میں بھی کی گئی ہے ۔جبکہ ہولی کے موقع پر جگہ جگہ کان پھاڑنے والی آواز میں ڈی جے بجائے گئے ، لیکن کہیں کسی سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی۔سنبھل کی مسلم آبادی اس وقت سخت آزمائشوں سے دوچار ہے ۔ اس کا عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے ۔ نظم ونسق کی مشنری پو ری طرح ہندتو کے سانچے میں ڈھل چکی ہے ۔سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے خلاف مسلسل بیان بازی کی جارہی ہے ۔ وزیراعلیٰ یوگی نے ایک بار پھر اس کے مندر ہونے کی بات کہی ہے ۔شاہی جامع مسجد کو متنازعہ قرار دینے کے لیے تمام حربے اختیار کئے جارہے ہیں۔یہاں تک کہ عدالتی کارروائی میں شاہی جامع مسجد کو’متنازعہ’لکھوادیا گیا ہے ۔ ہولی اور نماز جمعہ کا تنازعہ کھڑا کرنے کا مقصد ہندو اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرنا اور خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا کرنا تھا۔مگر اس سازش کو ہندوؤں اور مسلمانوں نے اپنی سوجھ بوجھ سے ناکام بنادیا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں