میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۷ مارچ ۲۰۲۴

شیئر کریں

زریں اختر

(گزشتہ سے پیوستہ)
لکھنے کاعمل پڑھے جانے کے عمل سے کتنا مختلف ہے!اور مختلف ہی نہیں انتہائی حیران کن بھی ہے خواہ میں پیراگراف کے پیراگراف محض نقل کررہی ہوں۔ یہ متن کی تفہیم کی ایک دوسری دنیا وا کرتاہے جو اس جیسی نہیں ہوتی جب ہم اس کو پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اس کتاب کے انٹرویو پر لکھنا کہ اب میرے لیے یہ”تاریخ کا دریچہ ” ہی نہیں رہی بلکہ اس نے مستقبل کا دریچہ کھول دیاہے۔
اوریانا: آپ کے نزدیک لفظ ”اشتراکیت”کے کیا معنی ہیں؟
اندرا: انصاف،ہاںاس کا مطلب انصاف ہے۔ اس کا مطلب ہے ایک مساوی معاشرے کی تشکیل کے لیے کوشش کرنا۔
اوریانا: لیکن اگر کوزے میں دریا کو بند کیاجائے تو اس کا مطلب ”نظریات سے آزادی” ہے۔
اندرا: ہاں ۔لیکن کسی نظریے سے جڑے رہنے کا کیامطلب ہے اگر آپ کو اس سے کوئی بھی فائدہ حاصل نہ ہو؟میں خود کے لیے کوئی نظریہ نہیں رکھتی ہوں۔۔آپ خلا میں نہیں رہ سکتے؛آپ کو کسی بات میں ایمان رکھنا پڑتاہے۔ جیسے میرے والد کہا کرتے تھے کہ آپ کو کشادہ ذہن رکھنا چاہیے لیکن تمہیں اس میں کسی چیز کو بھی شامل کرنا پڑے گا۔۔وگرنہ نظریات اس میں سے یوں پھسل جائیں گے جیسے مٹھی میں سے ریت پھسل جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر میں کوئی نظریہ رکھتی ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہی میرا عقیدہ بن جائے۔۔دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہورہی ہے!حتیٰ کہ جو کچھ بیس سال پہلے آپ کو چاہیے تھااس کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے،وہ پرانا ہوگیاہے۔
دیکھو، میرے لیے ایک ہی ایسا نقطہ ہے جو برسوں بعد بھی تبدیل نہیں ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ انڈیا میں ابھی بھی بہت غربت پائی جاتی ہے۔ لوگوں کی بہت بڑی تعداد ابھی بھی ان سہولیات سے محروم ہے جو آزادی کی وجہ سے انہیں میسر آنی چاہئیں۔۔۔تو پھر آزادی حاصل کرنے کا کیا فائدہ؟کیوں ہم آزادی کے حصول کے لیے جدوجہد کرتے ہیں؟ یہ جدوجہد صرف برطانیہ کو نکال پھینکنے کے لیے نہیں تھی ۔اس معاملے میں ہم ہمیشہ شفاف رہے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ کہاہے کہ ہماری جدوجہد صرف برطانیہ کے خلاف نہیں ہے کیوں کہ وہ نو آبادکاری کا نمائندہ ہے بلکہ یہ جدوجہد ان تمام بیماریوں کے خلاف تھی جو ہندوستان میں پائی جاتی تھیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بیماری، نسل پرستی کی بیماری، معاشی غیر مساوی تقسیم کی بیماری۔ یہ ساری بیماریاں!ابھی تک جڑ سے اُکھاڑی نہیں جاسکی ہیں۔ بیس سال سے زیادہ عرصے سے ہم سیاسی طور پر آزاد ہیں مگر ابھی بھی ہم اپنے ان مقاصد کے حصول سے کوسوں دورہیںجو ہم نے خودکے لیے متعین کیے تھے ۔
اوریانا: تو پھر آپ کس نقطے پر پہنچی ہیں؟
اندرا : یہ کہنا مشکل ہے کیوں کہ جس نقطے تک پہنچنا ہے وہ مسلسل اپنی جگہ بدلتا رہتاہے۔ کیا تم کبھی کسی پہاڑی پر چڑھی ہو؟ تمہیں پتاہے جب آپ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جاتے ہیں تو آپ کو ایسا لگتا ہے جیسے آپ بلند ترین مقام تک پہنچ گئے ہیں۔ لیکن یہ بس ایک احساس ہوتاہے جو زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتا۔ جلد ہی آپ کو اندازہ ہوتاہے کہ جس چوٹی کو آپ نے سر کیاہے وہ کم بلند چوٹیوں کی فہرست میں ہے اور جس پہاڑ پر آپ چڑھے ہیں وہ پہاڑوں کے ایک بڑے سلسلے کاایک چھوٹا حصہ ہے اور بہت سارے باقی ہیں، ابھی مزید پہاڑ سر کرنے والے ہیں۔۔اور جتنا زیادہ آپ سرکرتے جاتے ہیں اتنا ہی سرکرنے کی خواہش بڑھتی ہے۔۔حتیٰ کے آپ بے حد تھک جاتے ہیں۔
میرا مطلب ہے کہ غربت انڈیا میں بہت ساری اشکال میں پائی جاتی ہے ۔ یہاں پہ صرف وہی غریب لوگ نہیں ہیں جو گلیوں میں نظر آتے ہیںبلکہ انڈیا میں بہت زیادہ غریب قبیلوں میں بستے ہیں ، صحرائوں او رپہاڑوں میں رہتے ہیں۔کیا ہم ان کو نظر انداز کردیں جونہی شہروں میں رہنے والے غریب بہتر ہوجائیں؟ اور بہتر ہوجانے کا مطلب کیا ہے؟ کیا تھا جو دس سال پہلے لوگ چاہتے تھے ؟ تب وہ زیادہ لگتاتھا۔ لیکن آج کے دورمیں وہ کم ہے۔ بس پھر دیکھو ،جب تم ایک ملک کو چلاتے ہواور وہ بھی انڈیا جیسے وسیع اور پیچیدہ ملک کو ، تب پھر تم کسی نقطے پر نہیں پہنچتے ہو، اور تمہیں بالکل پہلے ہی کی طرح مسلسل آگے بڑھنا ہوتاہے۔۔ایک ایسے خواب کی طرح جو بہت دور ہوتاہے اور تمہارے راستے کی نہ کوئی ابتدا اور نہ کوئی اختتام ہوتاہے۔
اوریانا : اور آپ مسز گاندھی ۔۔آپ اس راستے پر کہاں تک پہنچی ہیں؟
اندرا: کسی نقطے تک نہیں، ایک بہت اہم نقطے تک کہ میں ہندوستانی کو قائل کرپائی ہوں کہ ”وہ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ ” شروع میں لوگ ہم سے سوال کرتے تھے ”کیاتم ایسا کرپائو گے؟” اورہم جواباًخاموش رہتے تھے کیونکہ ہم میں خود اعتمادی نہیں ہوتی تھی ،ہمیں یقین نہیں ہوتا تھا کہ ہم کام کرسکتے ہیں۔ اب لوگ ہم سے یہ نہیں پوچھتے کہ ”کیاتم کرلوگے؟”وہ پوچھتے ہیں”کب کروگے؟”کیونکہ بالآخر ہندوستان میں خوداعتمادی پیدا ہوگئی ہے،انہیں یقین ہے کہ وہ کام کرسکتے ہیں۔اوہ،”کب”کا لفظ لوگوں میں بہت اہمیت کاحامل ہے، ایک عام آدمی کے لیے بہت اہم ہے!اگر کوئی شخص سوچے کہ وہ یہ کام نہیں کرسکتاتو وہ واقعی نہیں کرپائے گا۔ پھر چاہے وہ ذہین فطین ہی کیوںنہ ہو ،چاہے اس میں جتنی بھی صلاحیتیں کیوں نہ ہوں۔ اہلیت حاصل کرنے کے لیے آدمی کو خود پر یقین کرنا پڑتاہے ۔تو ، میرا یقین ہے کہ ایک قوم ہونے کے ناطے ہم خود اعتمادی حاصل کرچکے ہیں،اور میں کہنا پسند کروں گی کہ میں نے انہیں یہ یقین مہیا کیاہے ۔ میں یہ بھی سوچنا پسند کرتی ہوں کہ انہیں یقین فراہم کرکے میں نے ان میں فخر اُجاگر کیاہے۔ میں نے کہا”اُجاگر کیا”کیونکہ فخر ایک ایسی چیز ہے جو آپ کسی کو دے نہیں سکتے ، اور نہ ہی یہ یکایک پیداہوتی ہے؛یہ تو ایک احساس ہے جو آہستہ روی سے ،جھجکتے جھجکتے پروان چڑھتاہے ۔ ہمارا فخر پچھلے بیس سال میں پروان چڑھاہے۔ حالاں کہ دوسرے اس بات کو نہیں سمجھتے اور اس کے حجم کے بارے میں کم اندازہ لگاتے ہیں۔ تم مغربی لوگ ہم ہندوستانیوں کے ساتھ کبھی بھی مہربان نہیں رہ سکتے۔ تمہیں دیکھنا چاہیے تھا کہ چیزیں ٹھیک ہورہی تھیں ہرچند کہ ان کی رفتار سست تھی۔ تمہیں دیکھنا چاہیے تھا کہ کچھ وقوع پزیر ہورہاتھا۔ بہت زیادہ تو نہیںمگر کچھ ہو ضرور رہاتھا۔
(کالم کا یہ سلسلہ بہ عنوان ”اندرا گاندھی ،گولڈا میئر اور بے نظیر” مشہور ِ عالم اطالوی صحافی اوریانا فلاشی (٢٩ جون ١٩٢٩ء ۔١٥ستمبر ٢٠٠٦ئ) کے اپنے وقت کے سرکردہ سربراہان مملکت سے کیے گئے انٹرویو پر مشتمل کتاب ”انٹرویو ود ہسٹری” کاترجمہ ”تاریخ کا دریچہ” سے متاثر ہو کر لکھاجارہاہے)۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں