حوالگی
شیئر کریں
انگریزی زبان کے لفظ Rendition کے دنیا ئے شاعری و موسیقی میں تو معنی بہت دلنشین ہوتے ہیں یعنی صوتی ادائیگی مگر قانون اپنے بیانیے میں چونکہ کتابوں میں تو بالکل ہی اندھا اور نو نان سینس ہوتا ہے لہذا وہاں اس کے معنی ایک تحویل سے دوسری تحویل میں کسی فرد یا جائداد کی حوالگی کے ٹہرتے ہیں۔ Extradition یعنی ایک ملک سے کسی ملزم کی دوسرے ملک حوالگی اسی تبدیلی زنداں کا نام ہے۔
ان دنوں برطانیہ کی عدالت میں سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے دور کا ایک مقدمہ بڑی خاموشی سے اوراقِ انصاف پلٹ رہا ہے۔اس میں ایک طرف تو دو پاکستانی رحمت اللہ اور احمد دلشادشامل ہیں ۔ان دونوں کو ملزم بناکر برطانیہ نے عراق سے بگرام (افغانستان )پہنچا دیا ۔ ایک طرف تو یہ معصومین ناک میں گرم ریت بھردینے والے جرمانے کے دعوے کے ساتھ تاج برطانیہ سے طالب داد رسی ہیں تو دوسری طرف برطانیہ کی بے رحم اسٹیبلشمنٹ کے قوی ہیکل ادارے ایم آئی سکس، ایس اے ایس اور ان کی وزارت دفاع و قانون۔ یہ برطانوی اسٹیبلشمنٹ ہی تو ہے جس نے سولہویں صدی سے دنیا کو اُتھل پتھل کررکھا ہے اور جسے ہر فساد فی الارض کی جڑ سمجھا جاتا ہے ۔ چاہے وہ اسرائیل کا قیام ہو، چاہے 1916 میں ریت میں کھینچی ہوئی سائیکس پکو لائین کے ذریعے مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کی ظالمانہ تقسیم ہو، چاہے سی آئی اے اور موساد کی تربیت۔چاہے دنیا کی پہلی استحصالی کارپوریشن اور بینک کا قیام ،سبھی کی پشت پر آپ کو برطانوی اسٹیبلشمنٹ دکھائی دے گی۔
اس سلسلے میں یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ سن 2009 میں برطانوی وزیر اعظم گورڈن براﺅن نے سر جان چل کاٹ کو عراق میں برطانیہ کی لاحاصل شمولیت کے اسباب اور دیگر عوامل پر ایک انکوائری رپورٹ مرتب کرنے کا فریضہ سونپا۔چل کاٹ رپورٹ کا شائع ہونا تھا کہ برطانیہ میں مظاہروں کی لہر امڈ آئی۔ اس وقت کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے اپنے مقتدر اداروں کی جھوٹی رپورٹوں کے سہارے جنگ میں آنکھ بند کرکے کودنے کا اعتراف بھی کیا اور قوم سے معافی بھی مانگی لیکن ساتھ ساتھ کمال ڈھٹائی سے جنگ میں برطانیہ کی شمولیت کو امر لازم اور اپنے فیصلے کو درست قرار دیا ۔ دنیا نے اسے مگر مچھ کے آنسو سمجھا ۔ چار پیشے ایسے ہیں کہ اس میں صحیح وقت پر معافی مانگ لی جائے اور ندامت اور گریز کا پیمان کرلیا جائے تو یہ اتنے بُرے نہیں : یہ پیشے ہیں سیاست دانوں کا، طوائفوں کا، سرکاری افسر کا اور صحافت کا۔ٹونی بلیئر نے اس گریزاں معافی کا اظہار اس وقت کیا جب چل کاٹ کمیشن انہیں راندہ¿ درگاہ قرار دے چکا تھا۔
عدالت ِعالیہ میں جیسے جیسے ایک بھیانک حقیقت برطانوی اداروں کی کارکردگی سے پردہ اٹھا رہی ہے، وہیں برطانوی اسٹیبلشمنٹ کے سلمان اکرم راجہ اور اکرم شیخ قسم کے وکیل یہ ضد کررہے ہیں کہ کاروائی کو اِن کیمرہ رکھا جائے۔ اس کی تشہیر سے گریز کیا جائے۔قانون کے پیشہ ور ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ عدالت ان اداروں کی مزید تضحیک سے اور عوامی اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچانے کی خاطر ان کی استدعا مان لے گی۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ برطانیہ کی ایس اے ایس کے ایک دستے نے فروری 2004 میں بغداد کے ایک گھر پر بھارتی ادارے را کی کانا پھوسی کا سہارا لے کر ایک گھر پر ایک بڑا آپریشن بنام آسٹن کا آغاز کیا اور چھاپہ مارا ۔اطلاع یہ تھی کہ پاکستانی کی ایک جہادی تنظیم لشکرطیبہ عراق میں اتحادی فورسز پر مختلف حملوں میں شامل ہے ۔اس حملے میں دو افراد مارے گئے مگر باقی دو افراد جو گرفتار ہوئے ان میں سے ایک کا پاسپورٹ پاکستانی اور نام احمد دلشاد کا تھا۔ فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق احمد دلشاد مشرق وسطیٰ کے القاعدہ سے حربی روا بط کا اہم سربراہ تھا۔اس حملے اور گرفتاری سے ایس اے ایس کو امریکا سے اپنی بے پایاں محبت ،مہارت اور وفاداری کا ثبوت دینا تھا۔ جس مقام پر ان دو مشتبہ افراد کو رکھا گیا تھا وہاں انہیں بے پایاں اذیت دی گئی۔ یہاں اور بھی ملزمان قید تھے اور انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے ان مقید ملزمان پر ہونے والی پرتشدد کاروائیوں کا تفصیلی احوال مختلف فورمز پر بیان بھی کیا۔
برطانیہ نے احمد دلشاد کو بعد میں امریکا کے حوالے کردیا جہاں سے وہ بگرام افغانستان پہنچادیا گیا۔حوالگی کے وقت احمد دلشاد نے بہت احتجاج کیا کہ وہ احمد دلشاد نہیں بلکہ ایک فراڈیا پاکستانی تاجر امانت اللہ علی ہے۔اس کے پاس دو پاسپورٹ ہیں مگر اس کا اصل پاسپورٹ بنام امانت اللہ بحق سرکار ان دنوں ضبط ہے اور اس کا کسی جہادی تنظیم سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں۔وہ کسی حملے میں اس لیے شامل نہیں کہ وہ اتحادی فورسز کی عراق میں آمد اور قیام کا بہت بڑا حامی اس لیے ہے کہ انہوں نے یہاں سنی راج ختم کیا اور اس کے ہم مسلک اہل تشیع کو صدام کے مظالم سے نجات دلائی اور وہ براستہ ایران عراق آیا ہے۔ لشکر طیبہ خالصتاً اہل سنت کی جماعت ہے اور اس میں کوئی اہل تشیع شامل نہیں۔
امریکیوں تو ایک عرصے بعدامانت اللہ علی کی صداقت پر یقین آگیا مگر برطانیہ کے وزیر خارجہ جیک اسٹرا نے مختلف عالمی تنظیموں کے مطالبے پر جو عراق سے گمشدہ افراد کے معاملے پر سرگرم تھیں کھل کر اصرار کیا کہ عراق سے گرفتار کسی بھی قیدی کو برطانوی افواج نے امریکا کے حوالے نہیں کیا۔یہ ایک سازش کے تحت الزام لگایا جارہا ہے۔جب دوسرے قیدی کا نام ظاہر ہوا کہ احمد دلشاد کے علاوہ ایک اور پاکستانی رحمت اللہ کو بھی برطانوی دستوں نے امریکیوں کے حوالے کیا تھا اور وہ بھی بگرام ائیر بیس کے قید خانے میں موجود ہے تو برطانوی وزیر دفاع نے کھلے عام اپنی غلطی کا اعتراف کیا لیکن اپنی اس ضد پر دیگر وزراءکے ساتھ قائم رہے کہ احمد دلشاد اور رحمت اللہ لشکر طیبہ کے جہادی لیڈر ہیں۔ دس سال بگرام کی جیل میں رہنے کے بعد یہ دونوں قیدی رہائی پاکر پاکستان لوٹا دیے گئے۔یہاں آن کر احمد دلشاد نے تین دستاویزات کا کھوج لگایا ۔جن میں صرف ایک یعنی شناختی کارڈ ا س کے گھر پر پہلے سے موجود تھا۔فیصل آباد سے اپنے اسکول کی مدد سے اس نے اپنا سن 1965 والا برتھ سرٹیفیکٹ بھی بنوالیا۔اب تک اس کا اہل تشیع ہونے کا دعویٰ تحریر ی ثبوت کا محتاج ہے مگر برطانیہ کی اسٹیبلشمنٹ بضد ہے کہ یہ دونوں سنی ہیں اور لشکر طیبہ کے ممبر ہیں جب کہ برطانیہ کی سپریم کورٹ کے فیصلے کی رو سے یہ سار ا فساد اداروں کی نالائقی اور Mistaken Identity(جعلی شناخت) کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اب یہ دونوں معصومین برطانیہ سے اپنی غیر قانونی حراست کے خلاف ہرجانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔عدالت میں سرکار کے فراہم کردہ اُن کی وکیل مایا لیسٹر اور قدامت پسند ممبر پارلیمنٹ اینڈریو ٹائیری نے یہ اعلان کرکے پورے اسٹیبلشمنٹ کو اور بھی شرمندہ کردیا ہے کہ سرکاری ملازم کا جھوٹ بولنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر اس حوالے سے پارلیمنٹ کے سامنے جو مختلف وزراءنے جھوٹ بولا وہ انہیں ہمیشہ کے لیے سیاست سے باہر کردینے کا جواز مہیا کرتا ہے۔ عوام کسی بھی جھوٹے اور مکار نمائندے کو جو اپنی ہی پارلیمنٹ کے سامنے جھوٹ بولے ،کس طرح اپنے مفادات کے تحفظ کے معاملے میں قابل بھروسہ سمجھ سکتے ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم Reprieve کے عرب وکیل جو ان دونوں کے مقدمے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ برطانوی عدالت، امریکا،عراقی عوام ،قابل بھروسہ پاکستانی دستاویزات سب سچ بول رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا جھوٹ اور مکاری کا الزام تنہا ایم آئی سکس پر آتا ہے جس نے اپنے غیر ملکی دوستوں کی فراہم کردہ جھوٹی اطلاعات کو آسمانی صحیفہ سمجھا۔ ان سب متنازع حقائق کی روشنی میں جب یہ مقدمہ آہستہ آہستہ قدم بڑھائے گا تو امکان ہے کہ خفیہ ٹرائل کی بنیاد پر ایم آئی سکس اور اس کے باجی ادارو ں ) Sister Conncerns) کا کراچی پولیس کے محاورے میں آسان ترجمہ) میں مندرجہ ذیل پانچ سوالات پوچھے جائیں
۱۔ مدعا علیہ لشکر طیبہ کا القاعدہ کا افسر رابطہ احمد دلشاد ہے کہ امانت اللہ علی سکنہ فیصل آباد،پنجاب پاکستان والے۔
۲۔مدعا علیہ کا تعلق اہل سنت و الجماعت ہے سے ہے کہ اس کے اصرار کے عین مطابق ملت جعفریہ سے۔
۳۔کیا ہر وہ اطلاع جو کسی دوسرے ملک کی خفیہ ایجنسی کے کارندے بشمول بھارت کی را کے کانا پھوسی کی صورت میں بہم کرتے ہیں اس پرحرافہ¿ کہن ایم آئی سکس اسکول کی لڑکیوں کی سی معصومیت سے یقین کرلیتی ہے؟
۴۔کیا دستاویزی ثبوت بمعہ معاہدہ حوالگی لغو اور بے بنیاد ہے اور شناخت و مسلک کی اصل حقیقت صرف ایم آئی سکس کو ہی معلوم ہے؟
۵۔اگر عدالت ثبوتوں کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ رحمت اللہ اور امانت اللہ علی اور درست ہیں تو سزاوار کون ہوگا اور ہرجانہ کون ادا کرے گا؟
دور کہیں تمام تر امید افزا پیش رفت کے بعد بھی لندن کے ایک کونے میں سمٹے رحمت اللہ اور امانت اللہ علی وہ شعر یاد کرتے ہیں جو پروین شاکر نے خفیہ ایجنسیوں کے لیے کہا تھا کہ ع
میں سچ بولوں گی اور پھر بھی ہار جاﺅں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا
٭٭