سندھ بلڈنگ میں طاقتور سیاسی ، سرکاری مافیا بے قابو
شیئر کریں
( جوہر مجید شاہ ) سندھ میں طاقتور سیاسی و سرکاری مافیا بے قابو اعلی عدلیہ کے فیصلوں و رٹ کے برخلاف اپنا قانون نافز کردیا گیا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی کرپٹ سیاسی و سرکاری مافیا کے خلاف 6 فروری سنہ 2020 کو ” چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان گلزار احمد نے شہر بھر جاری غیرقانونی تعمیرات و تجاوزات کے خلاف شدید اظہار برہمی کیساتھ سخت ترین ریمارکس دیتے ہوئے بلڈنگ کنٹرول کو کرپشن کا گڑھ قرار دیا اور اسوقت کے ڈی جی کو کورٹ روم سے سیدھا گھر روانہ کیا اسکے ساتھ فوری طور پر ادارے کی تشکیل نو کیساتھ انتظامی سطح پر بھی فوری تبدیلیوں کا حکم نامہ جاری کیا اس سارے معاملے کو "وزیر اعلیٰ سندھ اور چیف سکریٹری سندھ کو سونپتے ہوئے رپورٹ طلب کی جس کے بعد سندھ حکومت نے محکمہ بلدیات کے اسپیشل سکریٹری کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جسکی مرتب کردہ رپورٹ و سفارشات کی روشنی میں محکمہ بلدیات نے 3 مارچ سنہ 2020 ء کو لگ بھگ (31 ) افسران کو سنگین نوعیت کے الزامات جن میں اپنے عہدے اور اختیارات کا غلط و ناجائز استعمال کھلے عام بھاری رشوت کے عوض شہر بھر کو غیرقانونی تعمیرات و تعمیراتی مافیا کی سرپرستی میں کنکریٹ کا جنگل بنانے کے الزامات بھی عائد کیے گئے تھے، اس کے تحت مزید فرائض منصبی کی ادائیگی کام کرنے سے روکتے ہوئے معطل کردیا تھا یاد رہے کمیٹی نے 10 کرپٹ ملازمین کو نوکریوں سے برخاست کرنے کو کہا تھا جبکہ اسی کمیٹی نے اپنی مرتب کردہ سفارشات میں مزید ( 317 ) ملازمین کے خلاف تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا مطالبہ بھی کیا تھا ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ رپورٹ وزیر اعلیٰ سندھ اور چیف سکریٹری کی قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹی نے جاری کی، دسمبر سنہ 2020 ء کو جاری کردہ رپورٹ میں مزید انکشاف کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ” رشوت ” وصولی کے تحت شہر بھر کے ” پرکشش اور جاذب نظر ٹاؤنزاور زونز لیز پر فروخت کیے جاتے ہیں ان پرکشش علاقوں میں قابل ذکر ” زونز و ٹاؤنز میں ” گلشن 1/2 ” جمشید ” گلبرگ ” نارتھ ناظم آباد ” لیاقت آباد ” صدر ” نیو کراچی ” کورنگی ” شامل ہیں،اس لیز سسٹم کی مد میں ” سسٹم مافیا ” شہر سے کروڑوں روپے ہروقت ہڑپنے کی مہم میں مصروف رہتی ہے۔ اس ناجائز دھندے کے باعث سرکاری آمدنی کی مد میں سالانہ اربوں روپے کاجھٹکا لگایا جارہا ہے۔ انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق لیز سسٹم کی بنیاد سابق بااثر و طاقتور کرپٹ ڈی جی ” منظور قادر کاکا ” نے رکھی جسے وقتاً فوقتاً آنے والے دیگر ڈائریکٹر جنرل پروان چڑھاتے رہے۔ ذرائع کہتے ہیں کہ اس مکروہ نظام کو مزید پروان چڑھانے میں مرکزی کردار سابق ڈی جی ” آغا مقصود عباس ” کا بھی ہے۔ ذرائع کے مطابق سندھ حکومت کے کرپشن کے بادشاہ و بازی گر کھلاڑیوں نے ہفتہ وصولی کا فارمولا طے کرتے ہوئے آغا صاحب کو گرین سگنل دیا جسکے بعد آغا مقصود نے اپنے منظور نظر منجھے ہوئے تجربہ کار کرپٹ فرنٹ مین کھلاڑیوں کو میدان میں اتار دیا۔ موصوف نے مذکورہ ” سسٹم اور مافیا ” کا بوجھ اٹھاتے ہوئے شہر میں اپنا نیٹ ورک چالو کردیا ہے ۔ذرائع کے مطابق کہ گزشتہ3 سالوں میں شہر اور شہریوں کو غیرقانونی تعمیرات و تعمیراتی مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جبکہ سینکڑوں غیرقانونی عمارتوں پر ” ڈیمالیشن اسکواڈ ” کی کاروائیاں بھی محض ( 3/4 ) گھنٹے کا نمائشی شو میچ ہوتا وہ بھی باہمی رضامندی اور دباؤ پرنے کے باعث نمائشی کارروائی کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا۔ان نام نہاد کارروائیوں کے بعد عمارتیںدربارہ سے تعمیر اور نئی شان و شوکت سے اپنی جگہ پر موجود نظر آتی ہیں۔ اس دھوکے کے تحت سپریم کورٹ اور ادارے میں جھوٹ فریب دغا بازی کا استعمال کرتے ہوئے غلط اور گمراہ کن رپورٹ دیتے ہوئے ریاست کے اہم عہدوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا پورا سسٹم کرپٹ مافیا کے کے بے رحم پنجوں میں جکڑا ہوا ہے ادھر ” ویجیلینس کمیٹی کی رپورٹس بھی ملی بھگت پالیسی کا حصہ ہوتی ہے ۔دباؤ پڑنے پر صحیح رپورٹ جاری کی جاتی ہئے مگر اسکے بعد سائل کو اتنے چکر دیے جاتے ہیں کہ وہ خود چکرا جاتا ہئے جبکہ بعض کیسیز میں فائل ہی دبادی جاتی ہے۔ سب سے حیرت انگیز اور زہنی طور پر قبول نہ کرنے والی بات یہ ہے کہ 16 دسمبر کو نہ صرف تمام معطل شدہ افسران کو اپنے عہدوں پر بحال کردیا گیا 10 ملازمین جنھیں نوکریوں سے برخاست کرنے کا کہا گیا ان سے متعلق کوئی بات ہی نہیں کی گئی تمام ملازمین اپنی پوری آب و تاب کیساتھ اپنے سابقہ عہدوں پر براجمان ہیں جو خود سندھ حکومت کی جاری کردہ رپورٹ کے برعکس اور حیرت انگیز بات بھی ہے جبکہ کھلی قانون شکنی بھی۔