میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بلوچ سردار امیرترین اور عوام غریب ترین

بلوچ سردار امیرترین اور عوام غریب ترین

منتظم
هفته, ۱۷ فروری ۲۰۱۸

شیئر کریں

شہزاد احمد
سرداری نظام توویسے دنیا کے تمام قبائل میں موجود ہے لیکن بلوچستان کا سرداری نظام کافی پرانا اور جغرافیائی حالات کے مطابق ہے۔ یہاں ہر قبیلہ ایک خاص علاقے میں آباد ہے۔ علاقے میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے چراگاہیں بہت کم ہیں اور زراعت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ تمام لوگوں کا ذریعہ روزگار بھیڑ بکریوں کی افزائش ہے جس کے لیے چراگاہیں اور پانی ضروری ہیں۔ یہ دونوں چیزیں سردار کے قبضہ میں ہوتی ہیں۔

تمام قبیلے پر سردار کا حق ہے وہ جو چاہے کرے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ کوئی شخص سردار کی اجازت کے بغیر تعلیم حاصل نہیں کر سکتا۔ملازمت نہیں کر سکتا۔ حتیٰ کہ شادی تک نہیں کرسکتا۔ حکومت بھی ملازمتیں سرداروں کو ہی پیش کرتی ہے اور پھر سردار اپنے آدمی اس ملازمت پر لگاتے ہیں۔ان ملازمین کی تمام تنخواہ بھی سرداروں ہی کو ملتی ہے پھر وہ آگے اپنی مرضی سے ان لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں حتیٰ کہ مزدور بھی حکومت سرداروں کی مرضی کے بغیر نہیں رکھ سکتی۔
موجودہ سرداری نظام کی بنیاد رابرٹ سنڈیمن نے1876 میں اسوقت رکھی جب وہ بلوچستان میں چیف کمشنر اور ایجنٹ ٹودی گورنر جنرل ہند مقرر ہوا۔ اس نے سرداروں کی معرفت تمام قبائل کو قابو کیا۔ سرداروں کو بہت سی مراعات دیں۔ انہیں ذاتی اور سرکاری لیوی بھرتی کرنے کی اجازت دی۔ وظیفہ بھی دیا اور قبیلے پر ان کے طرزِ حکمرانی میں کوئی دخل اندازی نہ کی لیکن سب سے اہم کام جو اس نے کیا وہ سب سرداروں کے بیٹوں کے لیے تعلیم مفت اور ضروری قرار دی۔ پورے ہندوستان میں نوابوں۔ راجوں اور سرداروں کے لیے خصوصی تعلیمی ادارے قائم کیے گئے۔ پنجاب اور بلوچستان کے لیے چیفس کالج جسے ایچیسن کالج بھی کہا جاتا ہے لاہور میں قائم کیاگیا۔ وہاں تمام سرداروں کی اولادیں مفت تعلیم حاصل کرتی رہیں۔ وہاں انہیں آدابِ غلامی اور آداب حکمرانی دونوں سکھائے جاتے اور بعد میں کچھ منتخب شدہ طلبا کو ڈیرہ دون ملٹری اکیڈمی بھیجا جاتا۔ ترجیحی بنیادوں پر انگلینڈ میں بھی تعلیم کا بندوبست کیا جاتا۔ اس لیے سارے سردار اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ اس وقت سے یہی رواج ہے کہ سردار اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو۔ قبیلے کا امیر ترین شخص ہو۔ تمام سہولتیں حاصل ہوں لیکن قبیلے کو ہر صورت میں تعلیم و تہذیب سے دور کھا جائے۔

تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہی تمام قبائلی سرداروں نے اب تک عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح رکھا ہوا تھا۔ لیکن اب تعلیم عام ہونے سے جہاں جہاں لوگوں کو روزی کے ذرائع میسر آئے ہیںوہاں سرداری نظام خود اپنی موت مر گیا ہے۔ اس کی بہترین مثال تربت اور مند کا علاقہ ہے۔اسی طرح مکران کے ساحلی لوگ مچھیرے ہیں۔روزی کے لیے سردار پر انحصار نہیں کرنا پڑتا لہٰذا وہاں بھی سرداری نظام ختم ہوگیا ہے۔وہاں نوجوان نسل تعلیم کی طرف راغب ہے ۔

انگریزوں نے بلوچ قبائلی سرداروں کے بچوں کو تعلیم تو دی مگر بد قسمتی سے ان کے دماغ میں پاکستان مخالف جذبات بھی ڈال گیا۔ وہ پاکستان کے مستقبل سے نا امید ہیں۔ ایران اور انگلینڈ میں رہائش کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسوقت نوجوان بلوچ سرداروں کی ایک بڑی تعداد بلوچستان کی آزادی چاہتی ہے تاکہ اپنی مرضی کی حکومت کر سکیں۔ اصل میں ان تمام سرداروں کی پشت پررا۔ موساد اور سی آئی اے جیسی طاقتور ایجنسیاں کام کر رہی ہیں۔ ان لوگوں نے بلوچستان کے اندر اپنے اپنے عسکری اور دہشت گرد گروپ تیار کر لیے ہیں جو پاکستان میں عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں۔ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں شدت آچکی ہے۔

بلوچستان میں تعلیم عام ہونے کی وجہ سے محب وطن بلوچ غیر ملکی اسپانسرڈ دہشت گردی کو مسترد کر کے قومی دھارے میں شامل ہو رہے ہیں۔ بھٹکے ہوئے بلوچوں کی جانب سے خود احساسی سول ملٹری لیڈر شپ کی انتھک کوششوں کی کامیابی کی عکاس ہے۔

پاک فوج میں بلوچستان کے چار ہزار نوجوانوں کی شمولیت بھی ایک خوش آئند اقدام ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان کے نوجوان محب وطن ہیں اور وہ ملک کے دفاع کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے ۔ کیونکہ تعلیم یافتہ اور باشعور ہونے کے بعد وہ سرداروں کے ہاتھ میں کھیلنے والے نہیں رہے۔ فوج میں بھرتی ہونے والے ان جوانوں کو تعلیم، عمر اور قد میں بھی خصوصی رعایت دی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ بلوچوں کو محب وطن ، محب فوج اور قومی دھارے میںلایا جائے۔ بلوچ نوجوانوں کی پاک فوج میں شمولیت وفاق پاکستان سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور بلوچستان میں آج ایک نئی تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے۔

پاک فوج نے بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی کو مدنظر رکھ کر محب وطن نوجوانوں کو فوج میں جو مقام دیا ہے اس سے آنے والے دنوں میں مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ پاک فوج بلوچستان کے چارہزار سے زائد بلوچ طالب علموں کو مختلف علاقوں میں تعلیم کے مواقع فراہم کر رہی ہے جس سے تعلیمی شعبے میں بھی مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔

بلوچستان کے پسماندہ ساحلی علاقے اوڑماڑہ کے لوگ جہاں ملک کے دوسرے شہروں کے برابر ترقی کے منتظر ہیں وہیں یہاں کے بچوں ،میں تعلیم سے لگن اور وطن سے محبت کسی سے کم نہیں۔یہ بچے بلوچستان کے ان اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بارے میں سیاسی راہداریوں اور ذرائع ابلاغ میں عمومی طور پر یہ غلط تاثر پایا جاتا ہے کہ یہاں کے عوام پاکستان سے لاتعلق یا علیحدگی پسند ہیں۔ تربت ، خضدار اور آواران کے یہ بچے، پاکستانی ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ پھول جیسے ان بچوں کی ہر نئی صبح کا آغاز سرزمین پاکستان سے اندھیروں کے خاتمہ کی دعا سے ہوتا ہے۔ ان بچوں کے علاقوں میں اسلحہ کو مرد کا زیور سمجھا جاتا ہے اور اسلحہ کے زور پر ہی ہر کام کیا جاتا ہے، مگر یہ بچے قلم کو اپنی طاقت بنانا چاہتے ہیں اور علم کو اپنا زیور پاکستان کے ساحلی علاقوں کے ان بچوں کے دلوں میں وطن کی محبت زندہ و تابندہ ہے۔ یہ کمسن بچے سبز ہلالی پرچم کے سائے میں کھڑے ہوکر ہر صبح اس پرچم کی سربلندی اور وطن کی ترقی کا عزم کرتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں