میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مسلمان اسلامی تشخص اور ہمارا وجود

مسلمان اسلامی تشخص اور ہمارا وجود

منتظم
هفته, ۱۷ فروری ۲۰۱۸

شیئر کریں

فریداحمدفرید
ہم مسلمان ہیں مگر ہم میں سے کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ ’’ اسلام ‘‘کا مطلب کیا ہوتا ہے اور ’’مسلم‘‘ کسے کہتے ہیں؟
’’اسلام‘‘عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہوتا ہے ’’گردن جھکانا‘‘ ’’اطاعت کرنا‘‘اسے اللہ کی مرضی کے آگے ’’خودسپردگی‘‘بھی کہہ سکتے ہیں۔انگلش میں اس کے ترجمے کے لیے Submissionکا لفظ استعمال کرتے ہیں۔اسی سے ’’مسلم‘‘ بنا ہے جس کا مفہوم ہے’’اطاعت کرنے والا‘‘ ’’گردن جھکانے والا‘‘ یا اللہ کی مرضی کے آگے ’’خودسپردگی کرنے والا‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنی خواہشات کو چھوڑ کر خود کو اللہ کی مرضی کے تابع کردے اور اس کے آگے سر جھکادے وہ ’’مسلم‘‘ ہے۔ اس کا مفہوم توجہ طلب ہے۔

اگر ٹھیک سے غور نہیں کیا تو ایک بار پھر پڑھئے اور غور کیجئے۔ اطاعت کرنے والا اور گردن جھکانے والامظلوم تو ہوسکتا ہے مگر ظالم نہیں ہوسکتا ،کیونکہ ظالم کی گردن ہمیشہ فخر وغرور سے تنی ہوتی ہے۔ اس کا سر جھکا ہوا نہیں ہوتا بلکہ اٹھا ہوا ہوتا ہے۔ مسلم وہ ہوتا ہے جس نے اللہ کی غلامی کا پٹہ اپنی گردن میں ڈال لیا ہو اور خود کو اس کے احکام کا تابع بنا چکا ہو۔ ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ اس سے کسی کی جان لینے کا کام سرزد ہو؟ جان دینا اور جان لینا تو اللہ کا کام ہے اور اللہ کے آگے کسی کی نہیں چلتی جبار اور قہار اللہ کے صفاتی نام ہیں اور ان صفات کا حامل اللہ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔جبر اور قہر کی صفات مومن و مسلم میں کیسے ہوسکتی ہیں جو اللہ کے لیے مخصوص ہیں؟ مسلمان، ظالم کیسے ہوسکتا ہے؟ مسلمان، قاتل کیسے ہوسکتا ہے؟ مسلمان، خونی کیسے ہوسکتا ہے؟ مسلمان، فسادی کیسے ہوسکتا ہے؟ وہ تخریب کار کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ تمام باتیں اسلام وایمان کے منافی ہیں۔
امن وسلامتی کا پیغام،سلام کرنا

جب مسلمان ملتے ہیں تو انھیں حکم ہے کہ آپس میں سلام کریں۔ قرآن میں فرشتوں کی تحیت بھی یہی بتائی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آپس میں سلام کو رائج کرو۔ کسی کو پہچانو یا نہ پہچانو، اسے سلام کرو۔ محبت اور بھائی چارہ کی اشاعت کا ذریعہ آپ نے سلام کو بتایا۔ سلام کے لیے جو الفاظ مقرر کیے گئے ہیں وہ ہیں’’ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہہ‘‘ جس کا مفہوم ہے کہ تم پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمتیں وبرکتیں ہوں۔گویا ملتے ہی اس خواہش اور دعا کا اظہار کہ میں تمہاری سلامتی اور بھلائی کا چاہنے والا ہوں۔ تم میری جانب سے امن وسلامتی سمجھو ، کوئی اور تمہارا برا چاہے، اسے میں برداشت نہیں کرونگا۔ سلام کے جواب میں دوسرا شخص بھی اسی قسم کے الفاظ دہراتا ہے۔ گویا ایک طرف سے امن وسلامتی کا پیغام دیا گیا اور دوسری جانب سے بھی اسی قسم کے پیغام کا اعادہ کیا گیا۔ امن وامان کے ان پیغاموں کا تبادلہ اس خواہش کا اظہار ہے کہ تم پر امن ماحول میں رہو ، اچھے رہو، خوش رہو اور تمہارے متعلقین، رشتہ دار واحباب کی طرف سے بھی کوئی ایسی خبر نہ سنائی دے جو تمہیں رنجیدہ کرنے والی ہو۔ ظاہر ہے کہ سلامتی صرف اسی ایک شخص کے سلامت رہنے سے نہیں آسکتی بلکہ ان سبھی کے ساتھ بھی لازم ہونی چاہئے، جن کی بے سکونی آدمی کے لیے بے چینی کا سبب بن جائے۔

سلام کے الفاظ اسلامی معاشرے کی پہچان ہیں اور اِن سے عموماًوہ لوگ بھی واقف ہوتے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں سے کچھ خاص واقفیت نہیں رکھتے ہیں۔گویا سلامتی اور نیک خواہشات کے الفاظ ہی سے ہماری پہچان بننی چاہئے مگر افسوس کہ آج ہماری شناخت اس کے برعکس بنتی جارہی ہے۔ ان دنوں ہم امن سے نہیں بدامنی سے پہچانے جاتے ہیں۔ ہم سلامتی سے نہیں تشدد اور تخریب کاری کی شناخت سے جانے جاتے ہیں۔

کیا ہم مسلمان ہیں؟
رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ رہیں۔ اس قولِ رسولﷺ کی روشنی میں دیکھیں تو آج ہم میں کتنے لوگ ہیں جو مسلمان کہے جانے کے حقدار ہیں۔ہماری اذیتوں سے نہ ہمارے گھر اور محلے والے محفوظ ہیں، نہ پڑوسی اور رشتہ دار بچتے ہیں۔ اپنے عہد کے معروف صوفی حضرت ابو حمزہ بغدادی کا قول ہے:
’’جب تمہارا جسم تم سے سلامتی پائے تو جان لو کہ تم نے اس کا حق ادا کر دیا اور جب لوگ تم سے محفوظ رہیں تو جان لو کہ تم نے ان کا حق ادا کردیا۔،،(کشف المحجوب،صفحہ ۰۳۲)
یعنی خود کو سلامت رکھنا اپنے جسم کا حق ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی دوسروں کی بھی بھلائی چاہے۔یہ دوسرں کا حق ہے کہ وہ ہماری اذیت اور تکلیف سے محفوظ رہیں۔ سماج کی خیر خواہی اور خدا کے بندوں کی بھلائی ، یہ وہ انسانی صفات ہیں جن پر صوفیہ خاص طور پر دھیان دیتے تھے، کیونکہ یہی باتیں اسلام کی روح ہیں اور قرآن واحادیث کی تعلیمات کا حاصل ہیں۔
یہی ہے عبادت ، یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
پڑوسیوں کے لیے امن وسلامتی کی خواہش۔۔
قرآن کریم میں پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خاص تاکید فرمائی ہے۔ پڑوسی مسلم اور غیر مسلم بھی ہوسکتا ہے مگر اس کے ساتھ مذہبی بنیاد پر کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا جاسکتا۔امن وامان کے پیامبر صوفیہ کرام کی تعلیمات اور اعمال میں اس قبیل کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں اور ان کا یہی حسن عمل تھا کہ اسلام کی دنیا بھر میں اشاعت ہوئی۔ حضرت احمد بن حرب رحمۃ اللہ علیہ ایک صوفی گزرے ہیں ان کا ایک واقعہ تذکرۃ الاولیاء میں درج ہے کہ ان کے پڑوس میں ایک پارسی رہتا تھا، جس کا نام بہرام تھا۔ ایک بار بہرام کا مالِ تجارت ڈاکووں نے لوٹ لیا تو حضرت احمد بن حرب اپنے دوستوں کے ہمراہ اس کی دلجوئی کے لیے گئے۔ بہرام آپ کی آمد سے بہت خوش ہوا اور آپکی باتیں سن کر کہنے لگا کہ اس معاملے میں تین شکر کرتا ہوں۔ ایک تو اس بات کا کہ ڈاکو میرا مال لوٹ کر لے گئے لیکن میں نے کسی کا مال نہیں لوٹا۔دوسرے اس بات کا کہ وہ آدھا مال لے گئے اور آدھا باقی ہے۔ تیسرے اس بات کا کہ وہ دنیا لوٹ کر لے گئے مگر میرا دین محفوظ ہے۔ حضرت احمد بن حرب نے اس کی معقول باتیں سن کر اپنے دوستوں سے فرمایا کہ اس بات کو لکھ لو مجھے بہرام سے آشنائی کی بو آتی ہے۔پھر کچھ سوال و جواب کے بعد بہرام کے ایمان لانے کی بات کی اور اسلام قبول کرلیا اْس نے ایسا کیوں کیا؟؟؟ یہ بھی اک سوال ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ میرے نبی پاک ﷺ کی تعلیمات کو صرف بیان کرنے کی حد تک نہیں بلکہ عملی زندگی میں اس پر عمل کیا اور اپنے عمل سے ظاہر کیا کہ دین اپنے ہمسائیوں کی عزت نفس اور خیر خواہی کا حکم دیتا ہے چاہے ہمسایہ مسلم ہو یا غیر مسلم ، اسی بات پہ عمل کرنے سے اک غیر مسلم مسلمان ہوگیا دین جنگوں سے نہیں بلکہ محبت اور سلامتی سے پھیلا اس کی اک ادنیٰ سے مثال آپ کو مذکورہ واقعہ میں بتادی گئی ہے۔۔۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں دین اسلام کی اصل روح سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے دین اسلام کا تشخص مجروح کرنے والے نام نہاد مسلمانوں اور خوارج کے فتنے سے محفوظ فرمائے اور دنیا کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنائے محمد رسولﷺکی تعلیمات پہ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ،آمین ثم آمین


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں