میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کراچی کے شہری اور ایم کیو ایم ( آخری حصہ )

کراچی کے شہری اور ایم کیو ایم ( آخری حصہ )

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۷ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

جاگیردار اپنے حلقوں میں سیاسی جبر و تشدد کے جو ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں ،وہ تمام اور اس سے مزید کچھ زیادہ ایم کیو ایم نے کراچی میں اختیار کر رکھے تھے۔ کراچی جیسے بین الاقوامی شہر جہاں ملکی اور عالمی میڈیا کی نگاہیں بھی زیادہ لگی رہتی ہیں اور جہاں کے لوگوں کا رہن سہن اور شخصی اوصاف جاگیردارانہ معاشروں سے قطعی میل نہیں کھاتے وہاں کے لوگوں پر سیاسی جبر کا نظام قائم کردینا بڑی حیرت کی بات تھی ۔ آزادانہ سیاست کا ماحول ہی نہیں رہ گیا تھا ،دوسری سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنما اور کارکنان کھل کر سیاسی سرگرمیاں انجام نہیں دے سکتے تھے ۔ لوگوں نے ووٹ ڈالنے کے لیے جانا چھوڑ رکھا تھا کیونکہ بیشتر پولنگ اسٹیشنز ایم کیو ایم کے ہاتھوں یرغمال ہوتے تھے اور شریف شہری جبر کی طاقت سے پنگا لینے کا حوصلہ نہیں رکھتے تھے ۔ ایم کیو ایم کے تسلط کے ان سالوں میں ہزاروں سیاسی کارکن اور رہنما اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، ہزاروں کا تعلق خود ایم کیو ایم سے تھا ، کچھ قبضے کی جنگ میں مارے گئے ، کچھ جو” قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے“ کے نعرے کی زد میں آئے اور کچھ لوگ وہ بھی تھے جنھوں نے اپنے فرقہ وارانہ عزائم کی تکمیل کے لیے ایم کیو ایم کا پلیٹ فارم استعمال کیا اور خود بھی اس لڑائی میں کام آئے۔ ایک فرقے کے کارکنان نے دوسرے فرقے کے کارکنا ن کا قتل کیا، اگر چہ دونوں ہی ایم کیو ایم سے تعلق رکھتے تھے ۔
ایم کیو ایم کی قیادت مذہبی لوگوں سے شروع دن سے الرجی رہی، صرف رمضان میں افطار پارٹی اور محرم میں امن و امان کے حوالے سے منعقدہ اجلاسز مذہبی لوگوں سے رابطے کا ذریعہ ہوتے تھے۔ان میں بھی زیادہ تر ڈمی قسم کے مذہبی رہنما شریک ہوتے تھے ، ایم کیو ایم کی شہر کی مذہبی قیادت سے دوری کی وجہ بھی لسانی تعصب تھی کیونکہ تقریباً تمام ہی مکاتب فکر کے زیادہ تر علماءغیر مقامی تھے اور دوسری بات یہ تھی کہ ایم کیو ایم اپنے خمیر کے اعتبار سے ایک غیر مذہبی اور بائیں بازو کی لبرل تنظیم تھی ۔ ایم کیو ایم کی قیادت اس حقیقت کا ادراک نہیں کر سکی کہ جس شہر میں وہ سیاست کر رہی ہے اسکے رہنے والے ہر فرد پر کچھ نہ کچھ اثرات مذہبی قیادت کے ہیں، نمازیں پڑھنے کے علاوہ جمعے کے خطاب ، نکاح اور موت کے معاملات عام آدمی مذہبی لوگوں سے رابطے کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حکمت عملی کا تقاضہ تھا کہ ایم کیو ایم کی قیادت ہر ممکن طریقے سے مساجد کے خطباء، امام ، مو¿ذن اور مذہبی جماعتوں سے دوستانہ تعلقات قائم کرتی۔ بد قسمتی یہ بھی رہی کہ ایم کیو ایم کو ایک خاص فرقے کے لوگوں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔ ایم کیو ایم کی قیادت اس فرقے پر مہربان رہی، اسی لیے دیگر فرقوں کے اکابرین ایم کیو ایم سے مزید بد ظن ہوئے ۔
کراچی کے شہریوں کی جانب سے اگر ایم کیو ایم پر فرد جرم عائد کی جائے تو اس فہرست میں ایک یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم نے کراچی کے لوگوں کے حقوق کے لیے اپنی طاقت استعمال نہیں کی ۔ پان گٹکے کی فیکٹریاں قائم رہیں، نوجوان نسل زہر کھاتی رہی، ہزاروں لوگ زہر کا کاروبار کرتے رہے، اس لعنت نے کراچی کے شہریوں کی صحت اور ان کے چہروں کی رونقیں چھین لیں لیکن ایم کیو ایم کی طاقت اس مافیا کے سامنے بے اثر رہی ۔ کے ای ایس سی ، کے ایم سی ، واٹر اینڈ سیوریج بورڈز جیسے عوامی خدمت کے ان اداروں میں ایم کیو ایم کی یونینز کامیاب ہوتی رہیں اور یہی ادارے اپنی نا اہلی کے باعث عوام کے لیے درد سر بنے رہے ۔ گزشتہ دو تین سالوں کے دوران پانی کے سخت ترین بحران میں جب ایم کیو ایم کی یونین کامیاب ہوئی تو میرے منہ سے بے ساختہ نکلا یہ کامیابی تو ایم کیو ایم کے خلاف فرد جرم کے لیے کافی ثبوت ہے ۔ اسی طرح ” کے الیکٹرک “ نے شہریوں بالخصوص غریب علاقے کے شہریوں کی زندگی جس طرح اجیرن کر رکھی تھی ، ایم کیو ایم نے شاید اپنی خاموشی کے لیے بھتے لیے ہوں، اپنے کارکنان کے لیے ” کے الیکٹرک “ سے نوکریاں لی ہوں لیکن اپنی منظم طاقت کو ” کے الیکٹرک “ کا قبلہ درست کرنے کے لیے قطعی استعمال نہیں کیا ۔ گزشتہ سال گرمی کی شدید لہر کے دوران غریب علاقوں سے گرمی کے باعث مرنے والوں کے ہزاروں جنازے اٹھے لیکن ایم کیو ایم ” کے الیکٹرک “ کو اس امر پر بھی راضی نہیں کر سکی کہ بھئی شدید گرمی کے ان دنوں میں لوڈ شیڈنگ اور اضافی لوڈ شیڈنگ کا کچھ بوجھ امراءکے علاقوں پر بھی ڈال دو جو جنریٹر اور یو پی ایس بھی افورڈ کر سکتے ہیں اور جنکے مکانات اور چھتیں بھی کشادہ ہیں، ان کے لیے گرمی اتنا بڑا ایشو نہیں ہے ۔ ایم کیو ایم نے کہیں کہیں عوام کے احتجاج کو معصوم بن کر ہائی جیک کیا تو کیا، لیکن خالص عوامی ایشوز پر ایم کیو ایم نے کبھی اپنی طاقت کا استعمال نہیں کیا ۔ کراچی میں نہ کوالٹی کنٹرول ہے اور نہ پرائس کنٹرول ، منافع خور اور ذخیرہ اندوز تاجر کراچی کے شہریوں کو ہر قسم کے ریلیف سے محروم کرتے رہے لیکن اس پر بھی کراچی کی نمائندہ سیاسی قیادت مجرمانہ طور پر خاموش رہی ۔
ایم کیو ایم کی تباہی میں قیادت کی ذہنیت کا بڑا دخل ہے ۔ ایک مرتبہ میں نے ایم کیو ایم الیکشن سیل کے ایک ذمہ دار سے پوچھا یار آپ لوگ زرداری اور پیپلز پارٹی کی جس طرح حمایت کرتے رہے ہیں، اس سے آپکی اپنے ووٹروں میں مقبولیت متاثر ہوگی ۔ فرمانے لگے : ” الیکشن میں عوامی مقبولیت کا دخل صرف 10 یا زیادہ سے زیادہ پندرہ فیصد ہوتا ہے الیکشن میں کامیابی کے لیے زیادہ اہم مضبوط نیٹ ورک ، تربیت یافتہ کارکنان اور الیکشن کا تجربہ ہوتا ہے جو ہمارے پاس موجود ہے “ ۔ یعنی ایم کیو ایم قیادت کے نزدیک عوام کی پسند، نا پسند کوئی حیثیت نہیں رکھتی اسی لیے وہ فطرے اور کھالوں کی جبری وصولی اور عوام کے احساسات و جذبات کے بر خلاف پالیسیاں اور اقدامات کرتے ہوئے ذرا جھجک محسوس نہیں کرتی رہی ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ معاملہ صرف ایم کیو ایم کا نہیں بلکہ تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتیں اسی طرح سوچتی ہیں، اسی وجہ سے ہمارے ہاں کی جمہوریت میں عوام کی خواہشات ، امنگوں اور توقعات کو کچلتے ہوئے اقتدار کی عمارت تعمیر ہوتی ہے اوربدنام زمانہ لوگ انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہیں ۔
کراچی کے شہریوں کے ساتھ جو ہونا تھا سو ہوا لیکن ایم کیو ایم کی لیڈر شپ جسے پہلے پہل متوسط طبقے کی قیادت قرار دیا جا سکتا تھا اب وہ ترقی کرتے ہوئے اپنا معیار زندگی انتہائی بلند کر چکی ہے، صرف قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان ہی نہیں سیکٹر اور یونٹ انچارجز اور کارکنان نے بھی ”حصہ بقدر جثہ“ وصول کیا ۔ ساری مراعات ، ملازمتیں ، پلاٹ ، چائنا کٹنگ ، پارکوں پر قبضے ، کمیشن اور بھتے کی آمدنی ترقی کے لیے بہت کافی ثابت ہوئی ۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ کراچی والوں کے ساتھ گزشتہ تیس سالوں میں جو ظلم ہوا اسکی ذمہ دار صرف ایم کیو ایم نہیں، یہ بات ٹھیک ہے لیکن عوام کے نمائندے یہی لوگ تھے، کراچی کا اقتدار ان ہی کے پاس تھا، اس لیے اصل ذمہ داری بھی ان ہی پر عائد ہوتی ہے ۔ ایم کیو ایم کو کراچی والوں کی قیادت کا زعم تھا، اس لیے کراچی والے یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ
تو ادھر اُدھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
ہمیں رہزنوں سے غرض نہیں تیری راہبری کا سوال ہے
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں