میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شام اور میانمار کے مسلمانوں کی پکار

شام اور میانمار کے مسلمانوں کی پکار

منتظم
منگل, ۱۷ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

شام اور میانمار (برما) کے مظلوم مسلمانوں کو دیکھتے ہوئے اور دیگر خطوں کے مسلمانوں کی حالت زار پر نظر ڈالتے ہوئے غالب کا شعر یاد آتا ہے کہ
حیراں ہوں، دل کو رو¶ں کہ پیٹوں جگر کو میں
صورتحال کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو بات صرف میانمار یا شام کے مظلوم مسلمانوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کا دائرہ کسی نہ کسی شکل میں تمام دنیا کے مسلمانوں تک محیط ہے۔ اس میں مشرق وسطی چونکہ عالمی رسہ کشی کا محور و مرکز ہے اس لیے شام عراق اور اس سے پہلے مقبوضہ فلسطین کے مظلوم مسلمان گزشتہ دو دہائیوں سے سخت قسم کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ مشرق وسطی کی صورتحال کا جائزہ لینے سے پہلے مختصراً برما کے مسلمانوں کے احوال کی جانب رجوع کروں گا۔
جس وقت ہم مشرق وسطی میں مسلمانوں کی حالت زار کا ماتم کر رہے تھے تو اچانک ایسے میں عالمی میڈیا پر برما کے مسلمانوں پر توڑی جانے والی مصیبتوں کے احوال سامنے آنا شروع ہوئے اور پھر مسلمانوں کے قتل عام کی ایسی روح فرسا تصاویر سامنے آئیں کہ دل دہل گیا۔ کیا یہ سب کچھ اچانک ہوا ہے یا اس کے پس منظر میں عالمی کارپوریٹیڈ ساہوکاروں کا ہاتھ ہے؟ اس سوال کا جواب کسی حد تک اس وقت سامنے آیا جب گزشتہ دنوں دبئی سے شائع ہونے والے ایک عربی اخبار کی رپورٹ پڑھی جس میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ کیا برما کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی بڑی وجہ عالمی ساہوکار کمپنیوں کا ان کی زمینوں پر قبضے کے بعد وہاں ”اقتصادی زون“ تشکیل دینا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یقیناً یہ سب کچھ چین کے پہلو میں واقع خطے میں چین ہی کی معاشی سرگرمیوں کو کا¶نٹر کرنے کے لیے بھارت کے بعد ایک اور معاشی زون کے قیام کی تشکیل کی جانب عالمی صہیونی ساہوکاروں کی کوشش ہو سکتی ہے۔ جبکہ اس سے پہلے عالمی انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے بدھ مت اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی کو افغانستان میں بامیان کے مقام پر موجود بدھا کے مجسموں کی تباہی قرار دیا تھا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس قدر ظلم و ستم کے بعد بھی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی مسلمانوں کی مشکلات ختم کرانے میں تاحال ناکام ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں بنگلا دیش کی حکومت پر مسلم ملکوں کی جانب سے دبا¶ بڑھایا گیا ہے جو اپنے ہاں ان مظلوم مسلمانوں کو پناہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ رہ گئی اقوام متحدہ تو میری اپنے دوستوں سے درخواست ہے وہ پینسٹھ برس بعد اب اس کے سحر سے باہر آ جائیں اور اس کے وجود کے حقیقی مقاصد کی جانب رجوع کریں کیونکہ یہ عالمی ادارہ مسائل کے حل کے لیے نہیں بلکہ مسائل کو قانونی شکل دینے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔
شام کے معاملات پر نظر دوڑائیں تو معاملات انتہائی پیچیدہ نظر آتے ہیں، بہت پہلے اس موضوع پر لکھا تھا کہ شام میں ایک نہیں بلکہ کئی جنگیں لڑی جا رہی ہیں، مسلک کی جنگ، ایران عرب قومیت کی جنگ اور سب سے اہم روس اسرائیل جنگ، یقینی بات ہے یہاں اسرائیل سے مراد امریکا اور مغربی عسکری اتحاد نیٹو ہے۔ اس جنگ میں تاحال اسرائیل ایک خاموش فریق ہے جبکہ امریکا اور نیٹو پوری طرح فعال ہیں۔ لیکن اس تمام تر رسہ کشی کا شکار شام کے مسلمان ہوئے ہیں۔ لاکھوں قتل ہوئے اور لاکھوں کو دربدر کر دیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شام کے مسلمان جو گزشتہ چار دہائیوں سے اسد خاندان کی حکومت کے ظلم و ستم کا شکار رہے ہیں پھر تین چار برسوں میں ایسا کیا ہوا کہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کو شام میں ظلم کا شکار مسلمانوں کا خیال آ گیا اور انہوں نے بشار حکومت کے خلاف متحارب گروپوں کی مدد شروع کر دی۔
اس سارے کھیل کو دیکھتے ہوئے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ شمالی عراق اور شام اور جنوبی ترکی اور ایران میں کرد علاقوں کو ملا کر ایک آزاد کرد ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے جو اسرائیل اور امریکا نواز ہو۔ لیکن اس کام کی تکمیل کے لیے خطے کو آگ میں جھونکنا ضروری تھا اسی لیے بشار حکومت کے خلاف باغی قوتوں کی مدد کی گئی دوسری جانب سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کر کے اسے عراق اور شام میں کھلی مداخلت کا لائسنس دیا گیا جس نے اس آگ کو مزید دو آتشہ کر دیا۔ اس ساری صورتحال میں حکومتوں اور ان کے خلاف برسر پیکار باغی قوتوں کے علاوہ ایک اور عنصر داعش کے نام سے تشکیل دیا گیا جو نہ حکومتوں کے ساتھ تھا اور نہ ہی مزاحمت کاروں کے ساتھ، اس عنصر کو جواز بنا کر خطے میں امریکی مداخلت کا باب کھلا رکھا گیا تھا۔ اس روح فرسا کھیل کا ایک پہلو یہ ہے کہ ایک جنگ امریکا کی چھتری تلے موصل میں لڑی جا رہی ہے تو دوسری جنگ حلب میں روسی چھتری تلے لڑی گئی ان دونوں جنگوں کے نتائج میں معنی خیز تضاد ہے۔
اگر ہمیں یاد ہو تو نائن الیون کے بعد جس وقت صدام دور کے عراق کو امریکا اور اس کے اتحادی تاراج کر رہے تھے ، روس اور چین نے اس مرحلے پر اپنے آپ کو فاصلے پر رکھا ہوا تھا۔ اسی پالیسی سے شہ پا کر امریکا اور اسرائیل نے پیش قدمی کی اور پولینڈ میں میزائل شیلڈ پروگرام نصب کرنے کی طرح ڈالی۔ لیکن غیر متوقع طور پر روس نے امریکا کے اس اقدام کی شدید مخالفت کی تھی جس پر امریکا اور اس کے صہیونی اتحادیوں کو پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔ کچھ عرصے بعد یہی کوشش روس کے جنوب میں جارجیا میں کی گئی جس پر ردعمل دیتے ہوئے روس نے جارجیا میں فوجیں داخل کر دی تھیں اور امریکی اور اسرائیلی عسکری مشیروں کو بدحواسی میں جارجیا اور آب غازیہ سے فرار ہونا پڑا تھا۔ اس کے بعد ہی عالمی صہیونی سیسہ گروں نے کردستان پر نظریں جما دی تھیں تاکہ پولینڈ اور جارجیا میں ناکامی کے بعد میزائل شیلڈ پروگرام کردستان کی آزاد ریاست میں نصب کیا جائے۔ لیکن اس امریکا اسرائیل نواز آزاد ریاست کے قیام سے پہلے اس خطے کو آگ میں جھونکنا ضروری تھا ،سو ایسا ہی کیا گیا ۔یہی وہ آگ ہے جو یمن سے شام تک مسلمانوں کو جھلسا رہی ہے۔ کبھی آپ نے غور کیا یہ میزائل شیلڈ پروگرام کیا ہے؟ اس کا معنی کیا ہے؟ اس کے مقاصد کیا ہیں؟ شیلڈ کا مطلب تو ڈھال ہوتا ہے۔ پھر یہ کونسی ڈھال ہے؟ اور کس کے میزائلوں سے بچنے کے لیے یہ ڈھال نصب کی جا رہی ہے۔ کبھی غور کیا کہ ایسا کیا ہونے جا رہا ہے جس کے نتیجے میں بلاسٹک میزائل چلنے ہیں اور کس کو اس سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ ڈھال نصب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟
یاد رہے پہلی جنگ عظیم کے بطن سے بالفور ڈیکلریشن کی منظوری نے جنم لیا تھا۔ اس ڈیکلریشن کی منظوری کے تحت دوسری جنگ عظیم کے بطن سے اسرائیلی ریاست نے جنم لیا تھا اور اس غیر قانونی کام کو قانونی شکل دینے کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل دیا گیا۔
اس وقت تیسری عالمی جنگ منتشر انداز میں لڑی جا رہی ہے، یہ ابھی اپنے نکتہ کمال کو نہیں پہنچی اس کے بطن سے اسرائیل کی عالی حاکمیت نے جنم لینا ہے۔ مسلمان اس دجالی حاکمیت پر کیا ردعمل دیں گے۔ اصل خطرہ روس اور چین کی جانب سے ہے۔ داعش نما انتہا پسند تنظیموں کا ہوّا دکھا کر پہلے ہی دنیا کو قائل کر لیا گیا ہے کہ اسرائیل کے وجود کو ان سے خطرہ ہے۔ انہی کی سرکوبی کے بہانے اسرائیل اپنے حیرت انگیز جدید ہتھیار میدان میں لا کر جزیرہ العرب کے ملکوں اور ان کے توانائی کے ذخائر پر ہاتھ صاف کرے گا۔ باقی دنیا پر بینکوں اور مالیاتی اداروں کے ذریعے فیصلے مسلط کیے جائیں گے۔ یہی وہ مرحلہ ہو گا جب روس شدید عسکری ردعمل دے گا اس لیے اس کے میزائلوں کو انٹرسپٹ کرنے کے لیے میزائل شیلڈ منصوبے کو وضع کیا گیا تھا۔ چکی کے ان دو پاٹوں میں خطے کے مسلمان پسیں گے۔ ابراہیمؑ کی وہ چھری جو ابو العرب اسماعیلؑ کی گردن پر رکھی گئی تھی وہ شاید اب عربوں کی گردن پر چلے گی۔
بالفور ڈیکلریشن کی منظوری میں قرآن میں بیان کردہ ایک حقیقت کی جانب اشارہ تھا جسے مشرق سے مغرب تک کسی مسلمان اسکالر نے نہیں سمجھا۔ سوائے ایک کے، علامہ اقبالؒ۔ اس کے بعد ہی اقبال نے کہا تھا کہ
کھل گئے یاجوج ماجوج کے لشکر تمام
چشم مسلم دیکھ لے تفسیر حرفِ ینسلون
لیکن اس تشریح کے بعد بھی کسی مسلم اسکالر نے اس پر غور نہیں کیا کہ مسلمانوں کے ساتھ ہوا کیا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے؟ ہم یاجوج ماجوج کو اساطیری قصوں میں تلاش کرتے رہے جبکہ وہ دنیا کے تمام سرد و گرم پر حاوی ہوئے بیٹھے تھے۔ قرآن کریم کائنات کا سب سے بڑا ”نیوز چینل“ ہے لیکن جب تک ہم اسے باقاعدہ طریقہ کار یا پراپر میتھا¶لجی کے تحت نہ سمجھیں اس وقت تک یہ اپنے آپ کو نہیں کھولتا۔ آج بھی مسلمانوں کے پاس وقت ہے کہ وہ قرآن کریم کی جانب واپس مڑ جائیں ورنہ لاعلمی کی موت مارے جائیں گے۔
(یہ مقالہ 15جنوری 2017ءکو تنظیم اسلامی پاکستان کے سیمینار میں پڑھا گیا)
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں