میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آزادانہ اظہار رائے یا ذمہ دارانہ اظہار رائے

آزادانہ اظہار رائے یا ذمہ دارانہ اظہار رائے

منتظم
منگل, ۱۷ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

احمد جاوید کہتے ہیں ” تنقید کے لیے پورا علم ضروری ہے اور نکتہ چینی کے لیے پوری جہالت “ ۔ حقیقت یہ ہے کہ لکھنا اور بولنا بڑی ذمہ داری کا کام ہے اسی لیے جہالت بے تکا اور بلا تعطل بولتی ہے اور علم والے اچھا اور نپا تُلا بولتے ہیں ۔ ایک طرف لفظوں کے سمندر میں معنویت ، مقصدیت ، حکمت ، بصیرت اور دانائی ڈھونڈنے سے نہیں ملتی اور دوسری طرف گنے چنے لفظوں میں معنویت اور دانائی کا سمندر پنہاں ہوتا ہے ۔ جہالت کی آواز میں بے بنیاد اعتماد ہوتا ہے اور علم کی آواز محتاط ہوتی ہے ۔ جہالت رہنما اور استاد کی ضرورت محسوس نہیں کرتی جبکہ علم ہر دم رہنما اور استاد کا طلبگار رہتا ہے، جہالت کا بولنا قوموں کے لیے بربادی کا سبب ہوتا ہے اور علم کا خاموش رہنا تباہ کن ثابت ہوتا ہے ۔
الفاظ سماج پر اثر انداز ہوتے ہیں اسی لیے دین اسلام میں جس تربیت پر سب سے زیادہ زور دیا گیا وہ بولنے کی تربیت ہے، بولنے میں احتیاط سکھاتے ہوئے فرمایا گیا کہ جہنم میں سب سے زیادہ لوگ زبان کے غلط استعمال کی وجہ سے جائینگے۔ آپ ﷺ نے فرمایا جو اللہ اور یو م آخرت پر ایمان رکھتا ہے اُسے چاہیے کہ خیر کی بات کہے یا خاموش رہے۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ بندہ ایک جملہ بولتا ہے جسے وہ غیر اہم سمجھتا ہے لیکن اس ایک جملے کی وجہ سے وہ جنت سے دور کردیا جاتا ہے ۔( صحیح بخاری ) آپ ﷺ نے فرمایا جو خاموش رہا وہ کامیاب ہو گیا ( جامع ترمذی) ۔ زبان کے استعمال کی اس سے زیادہ اہمیت اور کیا بیان کی جا سکتی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا تم مجھے دو چیزوں کی ضمانت دے دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دے دوں گا ،ایک زبان اور دوسری شرمگاہ ۔( صحیح بخاری ) بولنے کے حوالے سے جو ضابطہ اخلاق اسلامی شریعت میں دیا گیا اسکا خلاصہ دو آیات ہیں، فرمایا”قولوا للناس حسنا ً “( سورة البقرة 83 ) ترجمہ : لوگوں سے اچھی بات کہو ۔ ایک دوسری جگہ فرمایا ”یا ایھا الذین اٰمنو التقوا اللہ وقولوا قولاً سدیداً“ ( سورة الاحزاب 70 ) ترجمہ : اے ایمان والو !اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہا کرو ، مفہوم یہ ہے کہ بات میں جو خوبیاں ہو سکتی ہیں، تمہاری بات اُن خوبیوں کی حامل ہو اور جو عیب ہو سکتے ہیں اُن عیبوں سے پاک ہو ۔ بات سچی ہو ، الفاظ نرم ہوں ، لہجے میں مٹھاس ہو ، بات موقع کی مناسبت سے ہو ، مخاطب اور سماج کے لیے اس میں خیر اور بھلائی ہو ، بات انتشار کی نہ ہو، اتفاق پیدا کرنے والی ہو ، بات ابہام سے پاک اور واضح ہو، غلط فہمی اور بد گمانی کا موجب بننے والی نہ ہو ، کسی کی چغلی نہ ہو ، کسی پر الزام تراشی نہ ہو ، طعن و طنز اور تحقیر پر مبنی نہ ہو ،کسی کے معبود کو اور کسی مذہب کی مقدس شخصیت کو برا بھلا نہ کہا گیا ہو ، بات تعصب اور نفرت پھیلانے والی نہ ہو ، لغو اور فضول بات نہ ہو ، الغرض آیات کا مدعا یہ ہے کہ خوبیوں والی بات کہو اور زبان کا منفی استعمال نہ کرو ۔ قرآن و حدیث میں زبان کے درست استعمال پر جنت کی خوشخبریاں بھی دی گئی ہیں اور غلط استعمال پر عذاب کی وعیدیں بھی سنائی گئی ہیں ۔
دنیا کے تمام فسادات، جھگڑے اور جنگیں زبان کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ، بڑھتے ہیں لیکن دوسری طرف زبان ہی کی وجہ سے جھگڑے پیدا ہونے سے پہلے ختم ہو جاتے ہیں ۔ گھریلو جھگڑوں سے لے کر سیاسی جھگڑوں تک ، عالمی تنازعات اور قوموں کے تعلقات میں کشیدگی کے پیچھے زبان کی کارستانیاں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ اسی لیے کوئی بھی قوم زبان کے استعمال کی مادر پدر آزادی کی قطعی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ قوموں کی مجبوری ہے کہ وہ اپنے افراد کو تعلیم و تربیت کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی کی حدود کا شعور دیں ۔ توہین عدالت ، غداری ، ہتک عزت سے متعلق قوانین خود اس بات کا اظہار ہیں کہ آزادی اظہار کی چیمپئن سمجھی جانے والی اقوام میں بھی اسکی کچھ حدیں ہیں ۔ آزادئی اظہار کا مطلب جو منہ میں آئے بولنے کی اجازت کا ملنا قطعی نہیں ۔ اگر کوئی شخص واشنگٹن کے کسی بازار میں کھڑے ہو کر انبیاءاور مذاہب کو برا بھلا کہے ، گزرنے والوں کو گالیاں دے یا امریکا اور امریکیوں کو چیخ چیخ کر دہشت گرد قرار دے یا امریکی صدر کی پریس کانفرنس میں کھڑے ہو کر تقریر کرنا شروع کردے اور جواز یہ پیش کرے کہ اظہار رائے کی آزادی میرا حق ہے، کیا اس کا یہ حق تسلیم کرلیا جائے گا ؟ ترقی یافتہ دنیا میں آزادی ملک و قوم اور سماج کے مفادات کے دائرے میں محدود ہے۔ اسی طرح آزادی کو مذہبی و اخلاقی اقدار کے دائرے میں رکھنا یہ بھی قوموں کی ضرورت کے طور پر دیکھا جا تا ہے ۔ آزادی اصل میں ذمہ داری کا تقاضہ کرتی ہے ۔ اس لیے اسلامی تہذیب و تمدن میں ذمہ دارانہ اظہار رائے کی حوصلہ افزائی ملتی ہے ۔ اور غیر ذمہ دارانہ اظہار کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ۔ اظہار رائے کے حوالے سے امت کے بہترین لوگ یعنی صحابہ اکرام ؓ کی احتیاط کا عالم یہ تھا کہ اگر کوئی سائل سوال کرتا اور مجلس میں کئی صحابہ ؓ بیٹھے ہوتے تو ہر ایک کی کوشش یہ ہوتی کہ دوسرا اس کے سوال کا جواب دے ۔ ذمہ دارانہ اظہار رائے آزادی¿ اظہار کی ضد نہیں بلکہ آزادئی اظہار کو انسانی سماج کے مفاد میں زیادہ موثر بنانے کا ذریعہ ہے ۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو خوف کے عالم میں بھی حق بات کہنے کی ترغیب دلاتا ہے یعنی اگر بات مضبوط، مستحکم ،مبنی بر حق اور مدلل ہو تو بھلے سے وہ جابر حکمران کی موجودگی میں کہنا پڑے، بھلے اس بات کے اظہار سے جان و مال کے نقصان کا خطرہ ہو، اسکے کہنے کو نبی کریم ﷺ نے افضل جہاد قرار دیا ۔
پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے انقلاب نے قوموں کے لیے یہ بات زیادہ اہم بنادی ہے کہ وہ اپنے افراد کو لکھنے اور بولنے کے اعتبار سے زیادہ ذمہ دار بنائیں ۔ وطن عزیز میں جب صرف پی ٹی وی اور سرکاری ریڈیو ہوا کرتا تھاتو قوم کی اخلاقی حالت بھی بہتر تھی اور نسلی ، لسانی ،مذہبی اور فرقہ وارانہ نفرتیں اور تعصبات بھی خطرناک حد پر نہیں پہنچے تھے ۔
اس کا مطلب ہے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا کو حاصل آزادی کا استعمال ہم نے ذمہ دارانہ طور پر نہیں کیا ۔ اظہار رائے کی آزادی کی حدود کا تعین ہر ملک اور قوم کے معروضی خیالات کی مناسبت سے ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنا تصور آزادی مغرب پر تھوپیں تو یہ بھی غلط ہوگا اور اگر مغرب اپنا تصور ہم پر مسلط کرنا چاہے تو یہ بھی غلط ہوگا۔ ہمیں اپنے اپنے حالات کے مطابق اظہار رائے کی آزادی کا تعین کرنا چاہیے۔ وطن عزیز میں اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں لوگ دوسرے فرقوں اور مذاہب کی تحقیر کر رہے ہیں اور اب تو جہالت یہ ہے کہ دین اسلام کے عقائد اورتعلیمات کے خلاف ہرزہ سرائی کی جا رہی ہے اور مغرب کے تصور آزادی کے دلدادہ اس طرز عمل کی حوصلہ افزائی کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ اور یہی لوگ فرقہ پرستوں اور انتہا پسندوں کے خلاف بڑھ چڑھ کر کاروائیوں کا مطالبہ کرتے نہیں تھکتے ،یہ تضاد کیوں ہے ؟ یہ تضاد بتا رہا ہے کہ اظہار رائے کی جس آزادی کے وہ دعویدار ہیں وہ خود بھی اسکا تحمل نہیں کر سکتے۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں