میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سردمہری

سردمہری

منتظم
هفته, ۱۶ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

دسمبر کی سردیاں رگوں میں ڈورتا خون جما دیتی ہیں دسمبر اور جنوری شدید سردی کے مہینے شمار ہوتے ہیں اور دسمبر میرے لیے تو یوں بھی حزن وملال لیے ہوتا ہے یہ بھی دسمبر کی ایک صبح تھی صبح کا آغاز معمول کے مطابق ہوا لیکن نیند سے بیداری کے ساتھ طبعیت پر ایک بوجھل پن طاری تھا ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کچھ کھو گیا ہے یا کھونے والا ہے ۔یہ دسمبر کی 13تاریخ تھی اور سن تھا 2013شام تک بوجھل پن مایوسی او ر ناامیدی میں تبدیل ہو چکا تھا کچھ کھو جانے کسی اپنے کے بچھڑ جانے کا احساس شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا تھا رات ساڑھے آٹھ سے ساڑھے نو کا وقت گویا قیامت کی گھڑی تھی موبائل فون پر پیغام آنے کے اطلا عی گھنٹی بجی موبائل پر پیغام آنا تو معمول کا حصہ ہے لیکن اس گھنٹی کے ساتھ ہی زبان سے بے ساختہ نکلا یا اللہ خیر۔ لیکن پیغام خیر کی خبر لیے نہیں تھا موبائل کے اسکرین پر موجود الفاظ نے آگاہی دی کہ ڈھاکہ جیل میں قید عبدالقادر ملا کی نظرثانی کی اپیل بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے مسترد کردی ہے چند منٹ بعد آنے والے پیغام نے آگاہ کیا کہ بنگلہ دیش کے صدر نے بھی رحم کی اپیل مسترد کردی ہے ۔ اب عبدالقادر ملا کے بچنے کی امیدیں دم توڑ چکی تھیں ۔ اور تقریبا ساڑھے نو بجے ملنے والا پیغام نے صبح سے وجود پر طاری یاس کی کیفیت کا سبب بتا ریا تھاپیغام بتا رہا تھا کہ عبدالقادر ملا نے پاکستان پر جان نچھاور کردی ہے یہ سارے پیغام جماعت اسلامی کی اطلاعتی سروس سے موصول ہوئے تھے۔
عبدالقادر ملا کون تھے انہیں کس جرم میں پھانسی دی گئی اس سے آگاہ افراد کی تعداد 20کروڑ کی آبادی کے ملک میں 20 لاکھ بھی نہ ہو راقم بھی ان افراد میں شامل تھا جو کچھ عرصہ قبل تک عبدالقادر ملا کو نہیں جانتا تھا۔ لیکن جب 1971کی دفاع پاکستان کی جدوجہدکرنے کے "جرم”میں عبدالقادر ملا سمیت جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ذمہ دارانہ کے خلاف جنگی جرائم کے نام نہاد ٹربیونل میں کاروائی شروع ہوئی اس سے قبل راقم پروفیسر غلام اعظم مرحوم مطیع الرحمان نظامی شہید علی احسن مجاہد شہید اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائدین سے تو واقف تھا لیکن عبدالقادر ملا کانام نیا تھا ۔ لیکن تعلق شخصی نہیں نظریاتی تھا۔
عبدالقادر ملا نے جب پاکستان پر جان نچھاور کی اس وقت ان کی عمر 66سال سے زائد ہوچکی تھی یہ وہ عمر ہوتی ہے جب زندہ رہنے کی امنگ دم توڑنے لگتی ہے ،موت کی قربت کا احساس گہرا ہونے لگتا ہے لیکن عبدالقادر ملا اس قافلہ کے مسافر تھے جو شہادت کا آرزومند ہے جو رب کی راہ میں جان قربان کرنے میں سبقت لے جانے والوں میں شامل ہیں۔ اس قافلہ کے ایک مسافر کا نام عبدالمالک بھی ہے وہی عبدالمالک جو ڈھاکہ یونیورسٹی کا طالب علم تھا جو اسلامی جمعیت طلبہ ( اسلامی چھاترو شنگھو) ڈھاکہ یونیورسٹی کا ناظم ۔ وہی اسلامی چھاترو شنگھو جو عوامی لیگی غنڈوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ وہی اسلامی چھاتروشنگھو آج بھی اسلامی چھاترو شبر کے نام سے عوامی لیگی قیادت کے لیے ڈراو نا خواب ہے۔1969میں عبدالمالک جئے بنگلہ کے مقابلہ میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے اور پھر 1970 کے انتخابی نتائج نے عوامی لیگی غنڈوں کو بے لگام کردیا تھا اگرچہ 1970 کی انتخابی مہم کے دوران بھی مشرقی پاکستان میں حکومت کا وجود کہیں نظر نہیں آتا تھا انتخابی مہم کے دوران ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں عوامی لیگی غنڈوں نے جماعت اسلامی کا جلسہ الٹ دیا تھا اور ڈھاکہ کی انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی تھی۔
مارچ1971میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے التواء کے ساتھ مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی شروع ہوگئی تھی 25 مارچ 1971 کو پلٹن میدان ڈھاکہ میں عوامی لیگ کے جلسہ عام میں عوامی لیگی قیادت کو امید تھی کہ شیخ مجیب الرحمان بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کردیں گے اور جلسہ کے شرکاء بڑی تعداد میں بنگلہ دیش کا مجوزہ جھنڈے بھی لائے تھے لیکن شیخ مجیب الرحمان نے ایسا اعلان نہیں کیا۔ اس جلسے کے بعدفوجی آپریشن ہوا اور شیخ مجیب الرحمان کو گرفتار کرکے مغربی پاکستان منتقل کردیا گیا لیکن تاج الدین شیخ اور اس کے حواری بھارت فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
خانہ جنگی کے آغاز کے ساتھ ہی فوج کو عوامی مدد کی ضرورت محسوس ہوئی اور فوجی قیادت نے رضا کار دستے تشکیل دینا شروع کیے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاشرو شنگھو کی قیادت نے اس ضمن میں بھرپور تعاون کیا اور البدر اور الشمس کے نام سے رضا کار گروپ تشکیل دئیے عبدالقادر ملا بھی الشمس کے علاقائی کمانڈر تھے عبدالقادر ملا کے خواب بھی اس سے مختلف نہ ہوں گے خوشحالی اور روشن مستقبل کے خواب لیکن جب وطن کی بقاء پر بن آئی تو دفاع وطن کا جذبہ ان خوابوں پر غالب آگیا۔ عبدالقادر ملا نے بھی بھارتی مداخلت کاروں کے خلاف افواج پاکستان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا شہادت عبدالقادر ملا کی خواہش تھی ان کی یہ خواہش پوری ہوئی لیکن 42سال بعد۔
13دسمبر 2013کی رات کو ڈھاکہ کی بدہیت نام نہاد حسینہ نے یہ سوچا تھا کہ پھانسی کا پھندہ دیکھ کر عبدالقادر ملا کے قدم ڈگمگاجائیں گے وہ زندگی کی بھیک مانگے گا لیکن موت جس کی محبوبہ اور شہادت جس کی منزل اس کو موت سے ڈرایا نہیں جاسکتا ۔
اس جان کا کیا ہے یہ جان تو آنی جانی ہے
جس دھج سے کوئی مقتل گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
ڈھاکہ جیل کا عملہ سوچ رہا تھا کہ عبدالقادر ملامختصر وقفوں سے ملنے والی اطلاعات سے پریشان ہوجائیں گے ۔ شام تاخیر سے سپریم کورٹ سے نظرثانی کی اپیل مسترد ہونے کی اطلاع اس پیغام کے ساتھ مل کر صدر سے رحم کی اپیل کی جاسکتی ہے عبدالقادر ملا کے وکیل نے فوری رحم کی اپیل تیار کی اور صدربنگلہ دیش کو پیش کردی لیکن شاید بنگلہ دیش کے صدر رحم کی اس اپیل کو مسترد کرنے کے لیے پہلے سے تیاری کرچکے تھے کہ اپیل داخل ہونے کے چند منٹ بعد ہی اس نے اپیل مسترد کردی عدالت سے باضابطہ اپیل مسترد ہونے سے قبل ہی عبدالقادر ملا کے اہل خانہ سے آخری ملاقات کرادی تھی۔ عبدالقادر ملا بھی نظرثانی کی اپیل اور رحم کی اپیل کے نتائج سے پہلے سے آگاہ تھے لیکن اتمام حجت کرنا بھی ضروری تھا تاکہ بنگلہ دیشی حکومت کا بھیانک چہرہ اقوام عالم کے سامنے بے نقاب ہو سکے۔ عبدالقادر ملا کے حوصلہ نے بنگلہ دیشی درندوں کی امنگوں پر پانی ڈال دیا۔ شاید ان درندوںکو علم نہیں تھا کہ پاکستان پر جان قربان کرنا تو عبدالقادر ملا کی سب سے بڑی خواہش تھی اور 42سال بعد یہ خواہش پوری ہورہی تھی ۔
عبدالقادر ملا کو پھانسی دیئے جانے کے بعد جیل کے عملہ نے جو احوال بیان کیا وہ عبدالقادر ملا کے بلند حوصلہ اور رب سے ملاقات کی تڑپ کا عکاس ہے۔ جیل کا عملہ بیان کرتا ہے کہ جب نظرثانی کی اپیل مسترد ہونے کی اطلاع ملی تو انہوں نے نوافل ادا کیے غسل طہارت کیا نماز عشاء ادا کی اور قران کریم کی تلاوت میں مشغول ہوگئے ۔ اہل خانہ سے آخری ملاقات میں بھی نہ صرف عبدالقادر ملا نے جس اطمینان کا اظہار کیا وہ ناقابل بیان ہے جب آپ کو پھانسی گھاٹ کی جانب لے جایا جارہا تھا تو قدموں میں لرزش تو کیا گویا بجلی سی بھرگئی تھی تیز تیز قدم چلتے پھانسی گھاٹ پہنچے جب پہندہ گلے میں ڈالا جارہا تھا تو پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا بلند آواز سے کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت پڑھا اوررب کی وحدانیت اور نبی آخری الزماں کی رسالت کی گواہی دیتے ہوئے اپنے رب کے حضور پیش ہوئے۔ یوں عبدالقادر ملا نے اس منزل کو پالیا جس کی تلاش میں وہ سرگرداں تھے رب کی رضا کی منزل۔
عبدالقادر ملا بھی انسان تھے اور ہرذی روح کو با لاخر پلٹ کر رب کی طرف ہی رجوع کرنا ہے افسوس اس امر کا نہیں ہے کہ عبدالقادر ملا کو جرم بے گناہی کی سزا ملی دکھ اس کا بھی ہیں ہے کہ اسلام آباد کے اقتدار کی غلام گردشوں میں پھرتے خون جماتی سردی میں ہیٹروں سے گرم کمروں میں آرام دہ اور گھومنے والی کرسیوں پر بیٹھے بابووں نے اس معاہدہ کو تلاش نہیں کیا جو دفتر خارجہ کی کسی فائل میں موجود ہوگا جس میں” قاتل حسینہ” کے والد اور بنگلہ بندھو نے اقرار کیا تھا کہ افواج پاکستان کا ساتھ دینے بقاء پاکستان کی جنگ کا حصہ بنے والوں کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں چلے گاانہیں بنگلہ دیش کا شہری تسلیم کیا جائے گا اور وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو بنگلہ دیش کاآئین اپنے شہریوں کو دیتا ہے دفتر خارجہ میں بیٹھے بابووں کی اکثریت تو اس حقیقت سے بھی ناواقف ہے کہ بنگلہ دیش کبھی مشرقی پاکستان ہوا کرتا تھا ڈھاکہ وہ شہر ہے جہاں مسلم لیگ نے جنم لیا تھا تکلیف اس پر بھی نہیں ہے کہ قیام پاکستان کے اعزاز کا تاج سر پر سجانے والی مسلم لیگ کی حکومت ہے افسوس منصورہ لاہور میں بیٹھے جماعت اسلامی کے عمائدین کی بے حسی اور سرد مہری پر ہے جن میں سے ابھی ایسے بزرگ موجود ہیں جو اسلامی جمعیت طلبہ میں اس وقت رہے ہیں جب عبدالقادر ملا بھی اسلامی چھاترو شنگھو کا حصہ ہوتے تھے ْ۔ جن میں حافظ ادریس بہت نمایاں ہیں۔ یہ درست ہے کہ جماعت اسلامی سفارتی سطح پر کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے لیکن کیا عبدالقادر ملا اور دیگر شہداء کی یاد میں ریفرینس کانفرنس بھی منعقد نہیں کی جاسکتی شہیدوں کو ہمارے کسی ریفرینس کسی کانفرنس کی ضرورت نہیں کہ انہوں نے جان دے کر اپنے رب کی رضا اور جنت خریدلی ہے ان ریفرینس کانفرنس کی ہمیں ضرورت ہے کہ نوجوانوں میں وطن پر قربان ہونے کا جزبہ سرد نہ پڑنے پائے دشمن مسلمانوں سے نہیں مسلمانوں کے جذبہ جہاد اور شوق شہادت سے خوفزدہ ہے اور ایسی کانفرنس ، ریفرینس دشمن کے اس خوف میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں