میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
قوم سچ اور جھوٹ کی تفریق کرنا جانتی ہے

قوم سچ اور جھوٹ کی تفریق کرنا جانتی ہے

منتظم
جمعه, ۱۶ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

جو لوگ جھوٹ کے علمبردار بن کر میدان سیاست اُتر جاتے ہیں تو وہ جھوٹ کا لباس سچائی پر پہنچانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں مگر بیدار مغز اور دور اندیش قوم سچ اور جھوٹ کی تفریق کرنا جانتی ہے اور سیاسی مداری پہچان لیے جاتے ہیں۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اب ہماری سیاست جھوٹ کا پلندہ بن چکی ہے اور سیاست قومی سوچ سے اس قدر محروم ہوچکی ہے کہ ہر سیاستدان کی سیاسی گفتار اور رفتار جھوٹ کا مکرو فریب سمجھا جاتا ہے۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف نے اپنے سخت ترین احتجاج کا مظاہرہ کیا۔ یہاں تک کہ دوران اجلاس تقسیم ہونے والی کاپیاں بھی پھاڑ ڈالی اور اسپیکر اسمبلی کا بھی گھیراؤ کیا، اگرچہ ہم بھی اس عمل کو پارلیمانی آداب کے خلاف اور ایوان کے تقدس کی پامالی قرار دیتے ہیں، مگر اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اسپیکر اگر جانبدارانہ طرز عمل اختیار کردے اور نقطہ اعتراض پر وہ اپنے غیر جانبدارانہ کردار کو جانبدارانہ بنادے تو ایکشن ری ایکشن میں آکر پارلیمانی آداب کی دھجیاں بکھیر دیتا ہے۔
بہر حال وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے جو سخت گیر لہجے اور زبان میں عمران خان کے خلاف سخت ترین زبان استعمال کی ان کے انداز بیاں سے تو یہ ثابت ہورہا تھا کہ یہ کوئی مہذب قوم کے نمائندے نہیںجو مقدس ایوان میں اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں اور یہ اس کے بھی مترادف ہے کہ ”اوروں کو نصیحت خود میاں فضیت“ ۔یہ بھی مردہ سیاست کا ثبوت ہے کہ وہ ریلوے کے وزیر ہوتے ہوئے ایوان اور پارلیمان کے رستم زماں ہیں، وہ یہ جو کچھ کہہ رہے تھے اس میں ہمیں تو کوئی صداقت نظر نہیں آئی ،اور قوم نے بھی یہ محسوس کیا کہ وہ اپنی نوکری یعنی وزارت پکی کرنے کے لیے میاں نواز شریف کو خوش کررہے ہیں ۔خواجہ سعد رفیق تو صرف ریلوے کے وزیر ہیں جن کی ذمہ داری تو صرف ریلوے معاملات اور حالات پر توجہ دینی تھی، مگر ریلوے کا نظام بدتر سے بدتر ہوتا رہا، ریلوے میں لاتعداد حادثات ہوتے رہے اور اس طرح نہ جانے بد نظمی کی کتنی اور گھمبیر صورتحال ہوگی۔ ہمیں میاں نواز شریف سے کوئی ذاتی عداوت نہیں ہے اور نہ ہی اختلاف برائے اختلاف، لیکن ہم صرف مطالبہ کرتے رہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔
یہ تو درست ہے کہ جب معاملہ عدالت میں موجود ہے ،زیر سماعت ہے تو پھر ہمیں بڑے صبر و تحمل کے ساتھ انتظار کرنا چاہیے تاہم ہم یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ خواجہ سعد رفیق نے انتہائی جذباتی زبان استعمال کی اور عمران خان کو بتایا کہ وہ جلد بازی نہ کریں لیکن وہ خود تو جلد بازی کے کوہ ہمالیہ پر محو پرواز تھے۔ ہم تو یہ بھی محسوس کررہے ہیں کہ اگرکبھی عدالت کا ڈنڈا جلال میں آگیا تو پھر خواجہ صاحب کو بھی دن میں تارے نظر آسکتے ہیں۔
احترام اور ادب کا مظاہرہ ہی انسانی قدر کو بلند کرتا ہے، بات تقریروں اور تحریروں سے نہیں مکمل ہوگی، بلکہ صبر تحمل سے ہوگی، اور ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اگر خواجہ رفیق کے مزاج اور تربیت کے دو وزیر اور آگئے تو پھر میاں نواز شریف بہت جلد انتہائی مدت کے مقام پر آجائیں گے کوئی نئی اور روشن صبح کسی وقت بھی طلوع ہوسکتی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں