میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ٹانگیں کھینچنے کا کھیل

ٹانگیں کھینچنے کا کھیل

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۶ نومبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

میری بات/روہیل اکبر
کرکٹ ورلڈ کپ کے مقابلوں میں ہماری ٹیم نے انتہائی مایوس کن کارکردگی دکھائی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کپتان سمیت پوری ٹیم ہی مستعفی ہو جاتی لیکن ہماری کھیلوں میں بھی سیاست آچکی ہے اور ہماری سیاست کو کھیل بنا دیا گیا ہے۔ اسی لیے تو ہمیں ہر طرف سے مار پڑ رہی ہے۔ ہمارے سیاستدان ہو یا کھلاڑی ٹی وی اسکرین پر اپنے آپ کو ایسے دکھاتے ہیں پاکستان انہی لوگوں نے بنا کر ہمارے حوالے کیا ہو اور تو اور جیسے 1992کا ورلڈ کپ یہ لوگ جیت کرلائے ہو جو جیت کرآیا تھا اس کو ہم نشان عبرت بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہمارے سیاسی میدان میںجتنی تباہی ہو چکی ہے، اس سے بڑھ کر ان لوگوں نے ہمارے کھیلوں کا بھی بیڑہ غرق کردیا۔ ایسے ایسے افراد کو پی سی بی سمیت مختلف فیڈریشنوں کا سربراہ بنا رکھا ہے جنہوں نے شائد ہی کبھی کوئی کھیل کھیلا ہو،سوائے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے۔
ایک وقت تھا جب ہم ہر کھیل کے چیمپئن تھے پھر جیسے جیسے ہماری سیاست گندی ہوتی چلی گئی اسی طرح ہمارے کھیلوں پر بھی نحوست کے سائے پڑنا شروع ہوگئے اور آج صورتحال یہ ہے کہ ہر کھیل میں سوائے ہار کے ہمارے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ پاکستان میں سیاسی بحران تو ہے ہی ساتھ میں کھیلوں کا بحران بھی شدت اختیار کرگیا ہے۔ یہ انہی نااہل اور نکمے سیاستدانوں کی بدولت پیدا ہوا جنہوں نے قومی مفادات پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی جو بندہ میرٹ پر پولیس میں کانسٹیبل بھرتی نہیں ہوسکتا،وہ حکمران بن جاتا ہے اور جس نے کبھی ڈھنگ کا کوئی کھیل بھی نہ کھیلا ہو اسے کھیلوں کا وزیر اور چیئرمین بنا دیا جاتا ہے۔ حکمرانوں کی مراعات کا تو سب کو بخوبی اندازہ ہوگا آج آپ کو کرکٹ میں بدنامی کا باعث بننے والوں کی تنخواہوں کا بھی بتاتے ہیں ہمارے ہاں اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی ) کے اہم عہدوں میں ایک چیئرمین ایک چیف ایگزیکٹوایک چیف آپریٹنگ افسراور ایک چیف فنانشل افسر سمیت 12 ڈائریکٹرآٹھ سینئر جنرل منیجرتین جنرل منیجرپانچ کوچ درجنوں دوسرے چھوٹے بڑے افسرحتیٰ کہ صحافیوں سے ملاقات کے لیے دو ڈائریکٹرایک سینئر منیجرچار منیجر ایک خاتون صرف اس اطلاع کے لیے کہ ٹیم ہاری یا جیتی ،شامل ہیں۔ ان کے علاوہ درجنوں اور لوگ بھی ہیں جو حکومتی مراعات سے لطف اندوز ہورہے ہیں ۔ابھی دل دہلا دینے والی مختصر داستان ان کی تنخواہوں کے حوالے سے بھی ہے۔ ایک اور بات یاد رکھنے والی یہ بھی ہے کہ ہمارے ان مایہ ناز کھلاڑیوں میں جو ہر میچ میں ملک کا نام روشن کرتے ہیں کرکٹر بننے سے پہلے کسی کام کے نہیں ہوتے تھے لیکن جیسے ہی انہیں قوم کی خدمت کے لیے سلیکٹ کرلیا جاتا ہے، یہ زمین سے آسمان تک پہنچ جاتے ہیں جتنی تنخواہ یہ لوگ لیتے ہیں، اتنی تو ہمارے ہاں پی ایچ ڈی کرنے والا ایک عام سا اسکول ماسٹر بھی نہیں لیتا جس نے ہماری آنے والی نسل کو تیار کرنا ہوتا ہے آپ اندازہ کریں کہ چیف سلیکٹر و ہیڈ کوچ 32 لاکھ روپے ماہوار ،بائولنگ، فیلڈنگ وغیرہ کے پانچ کوچ فی کوچ 20 لاکھ روپے ماہوار31 ڈائریکٹر و جنرل منیجر وغیرہ فی کس کم از کم 10 سے 15 لاکھ روپے ماہواراب ذرا کھلاڑیوں کی عیاشیاں بھی دیکھیں،35 رجسٹرڈ کھلاڑی ہرکھلاڑی 50 ہزار سے آٹھ لاکھ روپے (چھ کھلاڑی آٹھ لاکھ روپے ماہوار لے رہے ہیں)ہر کھلاڑی کو میچ کے دوران 35 ہزار روپے روزانہ اضافی الائونس صرف ایک کھلاڑی سرفراز احمد کی ایک سال کی آمدنی چار کروڑ 68 لاکھ روپے وہ بھی ڈالروں میں تھی جس ملک کی 80 فیصد آبادی شدید غربت، فاقوں اور بیماریوں کی زد میں ہو اور ایک کروڑ سے زائد بچے مزدوری کرتے ہو وہاں صرف کرکٹ کے میدان میںہارنے والوں کے لیے اتنی وحشت ناک لوٹ مار جس کے نتیجہ میں ذلت آمیز اورشرم ناک شکستیں کوئی پوچھنے والا نہیں، اگر یہ نظام بھی باقی کھیلوں کی طرح چلتا رہا تو پھر وہ دن بھی دور نہیں جب فٹ بال ،ٹینس ،ہاکی ،والی بال ،سکوائش اور دوسری کھیلوں کی طرح کرکٹ میں بھی ایسے افراد آجائیں گے جو کھلاڑی بنا کر ویزے لگوانے کا کام کرینگے ایک بار تو اسی چکر میں ہماری پوری ٹیم غائب ہو گئی تھی جس سے ملک کی بدنامی بھی ہوئی لیکن ان معاملات میں پوچھنے والا ہی کوئی نہیں ہے وہ اس لیے کہ یہ سب پیسے کا کھیل ہے۔
ایک وقت تھا کہ پاکستان کی دنیا بھر سے جیت کی خبریں آتی تھیں ہمارا عروج سے زوال کی طرف آنا اچانک نہیں ہوا، بلکہ اسکے پیچھے سالوں کا سفر ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو شاید اسکا بات کا علم نہیں کہ ماضی میں پاکستان مخالف کھلاڑیوں کے لیے ایک ڈر اور خوف کی علامت سمجھا جاتا تھا ۔ ہاکی میں پاکستان چار بار ورلڈ کپ جتنے والی ٹیم ہے۔ ا سکواش والی بال سنوکر جیسی عظیم الشان ٹیمیں تھی ۔اسکواش میں تو جیسے جہانگیر خان جان شیر خان کے علاوہ دنیا میں کوئی کھلاڑی تھا ہی نہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ادارے بھی مثالی ہوا کرتے تھے اور پھر بلندی سے پستی اور پھر ذلت کا سفر بھی ہم نے خوب دیکھا۔ وجہ صرف رشوت، لالچ اورتعلق تھا۔ میرٹ کو نظرانداز کرکے جاہلوں کو اہم عہدوں پر لگایا گیا پسند اور ناپسند کی دوڑ میں ہم نے میرٹ کی ایسی دھجیاں اڑائی کہ ہار کے بعد بھی ہم شرمندہ نہیں ہوتے اور آج صورتحال یہ ہے کہ ہماری ہاکی ختم،کرکٹ ختم ،اسکواش ختم اوراسنوکربھی ختم ۔اسنوکر سے یاد آیا کہ یہ بھی غریب لوگوں کا کھیل ہے بغیر کسی مدد کے یہ لوگ اپنی جیب سے پیسے خرچ کرکے خود سے مقابلے کرواتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے محمد یوسف اور محمد آصف اسنوکر کے ورلڈ چیمپئن بن جاتے ہیں۔ اس کے بعد محمد یوسف کے ساتھ ہماری پولیس نے کیا کیااور وہ بے بسی کی تصویر بنا رہا ۔ کسی نے اس کی مدد نہیں کی، ہمارے کھیلوں کی طرح ہمارا نظام بھی بگڑچکا ہے، بلکہ بگڑتے بگڑتے ختم ہی ہو چکا ہے ۔کوئی شخص اور کوئی ادارہ کرپشن سے پاک نظر نہیں آتا اور جو اس نظام کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے، اسے مل جل کر کرپٹ مافیا جینے نہیں دیتا خیر ان سب باتوں کے باوجود ایک اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان میںہاکی کی بہتری کے لیے ہاکی کے بہترین کھلاڑی رانا مجاہد کو ہاکی فیڈریشن کا سیکریٹری بنایا گیا ہے۔ امید ہے وہ پاکستان میں ہاکی کو ایک بار پھر گلی کوچوں کا کھیل بنا دینگے ۔مجھے یاد ہے کہ ہم جب چھوٹے بچے تھے اس وقت ہاکی کا جنون تھا جس کے پاس ہاکی نہیں ہوتی تھی وہ اسی سائز کی کوئی نہ کوئی لکڑ ا یا ڈنڈاٹھا کر ہاکی ضرور کھیلتا تھا۔ میں نے خود اس ہاکی نما ڈنڈے سے ہاکی کھیلی ہوئی ہے اور ہمارے محلے فتح شیر کالونی ساہیوال میں دو بھائی اکرم اور اسلم ایسی شاندار ہاکی کھیلا کرتے تھے کہ انکاکوئی ثانی نہیں تھاجبکہ ہمارے تعلیمی ادارے گورنمنٹ بٹالہ مسلم ہائی اسکول اور پھر گورنمنٹ کالج ساہیوال کی ہاکی ٹیم بھی لاجواب تھی۔ یہ صرف ایک محلے اور ایک ا سکول کی بات نہیں تھی بلکہ پاکستان کے ہر گلی محلے میںایسے کھلاڑی موجود تھے پھر جن سے ہاکی کا فلائنگ ہارس بھی ملا اور گول کرنے والی مشین بھی ملی۔ لیکن اب ہاکی کے کلب غیر آباد ہیں گلیاں سونی ہیں اور نئے کھلاڑی پیدا ہونا بند ہوچکے ہیں کیونکہ ہم نے کھیل کھیلنا بند کرکے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا کھیل شروع کردیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں