لو جہاد: گمراہ کن نعرہ سے خطرناک ہتھیار میں تبدیل
شیئر کریں
(مہمان کالم)
رام پنیانی
ملک ابھی بھی اترپریشن کے فرقہ وارانہ فسادات اور ما بعد پیش آئے واقعات کے جھنکوں کے زد سے باہر نہیں آپایا ہے۔ یہ تشدد مغربی اتر پردیش کے ان علاقوں میں پیش آئے، جہاں جانوں اورمسلمانوں کے درمیان مضبوط ہم آہنگی اور سماجی تعلقات رہے ہیں۔ حالانکہ انکی اقتصادی حالت کافی مختلف رہی ہے۔ماضی میں بھی اس ریاست میں اور ملک کیدیگر حصوں میں بھی فرقہ وارانہ تشدد گو ہتیا، بابری مسجد کے انہدام ، ہماری برادری کی خواتین، پر جنسی تشدد جیسی ایشوز کو ہوا دے کر کرائے جاتے رہے ہیں۔
جہاں تک تعلق اس خطہ کاہے تو اسے Communalise کرنے کے لیے جو بنیادی ہتھیار استعمال کیا جاتا رہا ہے وہ ہے ‘برادری کی غیرت’ (کمیونٹی آنر) مسلمان نوجوانوں کے ذریعہ ہندو لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ،انہیں بہلاپھسلا کر بھگالے جانے جیسی باتیں اس پروپیگنڈہ کو ہوا دینے کے لیے فوقیت کے ساتھ استعمال کی جاتی ہیں۔ہم سب آر ایس ایس عناصر کے ذریعہ ویڈیو کلیپنگ اپلوڈ کرنے ، بیٹی بچائو’ کے نام پر ہندو ئوں کو متحرک کرنے جیسی باتوں اور سنگھ پریوار کے دیگر عوامل پربحث کرتے رہے ہیں مگر اب اس خطہ میں اچھالے جارہے ‘لو جہاد’ ‘ہماری بیٹیوں کو مسلمانوں سے بچائو’ جیسے نعروں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
مظفر نگر اورمتصلہ علاقوں میں کافی دنوں سے لڑکیوں کے ساتھ قصداً چھیڑ چھاڑ کی منصوبہ بندی کی گئی۔ افواہیں پھیلائی گئیں اور ‘ لو جہاد’ کا پروپیگنڈہ کیا گیا۔ ( سماجی تنظیم ‘ انہد’ کی مظفر نگر فسادات سے متعلق رپورٹ میں بھی یہ بات کہی گئی ہے)۔ مسلم نوجوانوں کے ذریعہ ہندو لڑکیوں کو پھسلا کر یا جبراً شادی کرنے، انہیں تبدیلی مذہب کے لیے مجبور کرنے جیسی باتوں کو خوب اچھا لا گیا ،تشہیر کی گئی۔ فسادات کے لیے بھی من گھڑت کہانیاں بنائی گئیں کہ مسلم لڑکوں نے ہندو لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کی۔
لفظ ‘لو جہاد’ جس نے ہندو فرقہ کو تشدد کے لیے متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا ، کی ایک عجیب تاریخ ہے۔ اس لفظ کے دو اجزا ‘لو’ اور ‘جہاد’ معنی کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔9/11 کے بعد سے لفظ ‘ جہاد’ مین اسٹریم میڈیا اور ‘ سماجی سوچ’ کا حصہ بن گیا ہے۔ قرآن پاک میں اس کا مطلب جد وجہد سے ہے ،برعکس اس کے اسے غیر مسلموں کے قتل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لفظ ‘ لو جہاد’ ضرور ایک شیطانی دماغ کی تخلیق ہے جسے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے مقصد سیاستعمال میں لایا جاتاہے۔ یہ پروپیگنڈہ پھیلایا جاتا ہے کہ بعض مسلم تنظیمیں ،غیر مسلم لڑکیوں کو ان سے شادی کرنے کے لیے آمادہ کرنے اور مسلمانوں کی آبادی کو بڑھانے کے لیے مسلم نوجوانوں کو رقم فراہم کررہی ہیں۔ ان نوجوانوں کو موٹر سائیکل موبائل وغیرہ خرید نے اور غیر مسلم لڑکیوں کو بہلانے پھسلانے کے لیے رقم دی جاتی ہے۔
گوگل پرسرچ کے دوران اگر آپ ٹائپ کریں ، کون ہندو لڑکیاں ہیں’ ، جو ددوسرا جملہ اس کے بعد فوراً آپ کے اسکرین پر دکھائی پڑے گا وہ ہے ‘ مسلم لڑکوں کی جانب متوجہ ہیں! مہاراشٹر میں ایک گروپ ‘ ہندو رکشک سمیتی’ یہ کہتا پھرتا ہے کہ ہندو مذہب کو بچانے کے لیے اس جوڑ ے کو توڑ دو۔ جس میں لڑکی ہندو ہو۔ ایسا نہیں کہ ایسے جوڑے بہت زیادہ ہیں مگر معمولی شک پر بھی ہندوئوں کے یہ خود ساختہ گارجین اس جوڑے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ان لفظ کو اس طرح پھیلایا گیا ہے کہ کیرالہ میں بھی ایک عیسائی گروپ نے اس رجحان کو روکنے کے لیے سنگھ پرویوار کی تنظیم وی ایچ پی کے ساتھ ہاتھ ملا لیا۔
ہندوستان میں اس لفظ کے استعمال کا آغاز ساحلی کرناٹک ، منگلور اور کیرالہ کے کچھ حصوں میں ہوا۔ آر ایس ایس کے تربیت بافتہ سویم سیوک پرمود متالک کی قائم کردہ شری رام سینا نے اسی لفظ کا استعمال کرتے ہوئے ویسے جوڑوں کو نشانہ بنانا شروع کیا ، جس میں لڑکی ہندو مذہب سے ہو۔ اسی شادیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھاجانے لگا جس میں والدین شادی کے خلاف رہے ہوں۔حتی کہ شری رام سینا ایسے معاملوں کو کورٹ لے جانے لگی۔ جواز یہ پیش کیا جاتا تھا کہ مسلم لڑکے نے جبراً ہندو لڑکی سے شادی کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سجل راج اوراصغر معاملہ کرناٹک ہائی کورٹ کے جج نے یہ فیصلہ صادر کیا کہ لفظ ‘لو جہاد’ کو قومی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ، کیونکہ اس کا اثر ملک کی سیکورٹی اور خواتین کی غیر قانونی ٹریفیکنگ سے جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے یہ ہدایت دی کہ ریاست کے ڈائریکٹر جنرل اور انسپکٹر جنرل آف پولیس اس لفظ سے جڑے معاملوں کی تفصیلی جانچ و پڑتال کریں اور جب تک جانچ مکمل نہیں ہوجاتی، لڑکی اپنے والدین کے ساتھ رہے گی۔ حالانکہ یہ معاملہ محض بین مذہبی شادی سے جڑا ہوا تھا۔ تاہم لڑکی تمام سیاسی دبائو کے باوجود اپنے موقف پر قائم رہی اور اس نے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔ جانچ میں پولیس نے بھی یہی پایا کہ اس لفظ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور اس کے منفی اثرات کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
اسی طرح کے دو معاملوں میں کیرالہ ہائی کورٹ نے بھی فریقین کے والدین کی اپیل سننے کے بعد کم و بیش ایسا ہی فیصلہ سنایا تھا۔ ان معاملوں میں د وہندو لڑکیاں گھر سے بھاگ گئی تھیں اور مسلم لڑکوں سے شادی کے لیے انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ کیرالہ عدالت نے بھی پولیس کو اس پورے واقعہ کی تفصیلی تفتیش کا حکم دیا۔ پھر پولیس جانچ میں یہی بات سامنے آئی کہ ‘ لو جہاد’ کا ان واقعات سے کچھ لینا دینا نہیں۔ اس طرح کے شادیوں کے تعلق سے مختلف تنظیموں کے ذریعہ جو باتیں بھی پھیلائی گئیں ، وہ سب افواہ اور پروپیگنڈوں سے زیادہ کچھ نہیں ، مگر باوجود اس کہ ‘ لو جہاد’ یہ سماجی سوچ کا حصہ بن گیا ہے۔
شری رام سینا کے ذریعہ پھیلائے جارہے پروپیگنڈوں کے مطابق کرناٹک میں ہی 4 ہزار سے زائد ہندو لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر مذہب تبدیل کرا دیا گیا ہے او ران کی شادی کرائی گئی ہے۔ یہ افواہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلائی گئی ، جس سے والدین گھبرانے لگے۔ ان معاملوں میں کئی لڑکیاں ، جنہیں جبراً والدین کے ساتھ رہنے کے لیے مجبور کیا گیا، کے موقف مسلسل بدلتے رہے۔ کچھ لڑکیوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں ایمو شنل بلیک میل کیا گیا تو کچھ لڑکیوں نے کہا کہ انہیں جہادی سی ڈی اور اس طرح کی کئی اور چیز یں دکھائی گئیں۔
گجرات میں دوران فسادات بھی ہم ایسے پروپیگنڈہ کا سامنا کرچکے ہیں، جب یہ کہا گیا کہ مسلم لڑکے آدی باسی(خانہ بدوش) لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر نہ صرف ان سے شادی کررہے ہیں، بلکہ ان کا مذہب بھی تبدیل کرارہے ہیں۔ فسادات میں سرگرم رول ادا کرنے والا بابو بجرنگی جوان دنوں جیل میں تا حیات قید کی سزا کاٹ رہاہے ، ایسی افواہوں کا خاص منصوبہ ساز تھا۔ اس کا بھی اسی طرح کا ایک گینگ ہے، جس کے لوگ ایسے جوڑوں کو نشانہ بنا کر انہیں ایک دوسرے سے الگ کرنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔یہ تمام حرکات مذہب کے دفاع کے نام پر کی جاتی ہیں۔ کسی بھی کثیر الجہتی سوسائٹی میں بین مذہبی اور بین ذات کی شادیاں عام ہیں، مگر ملک میں فرقہ وارانہ سیاست کے فروغ کے باعث بین مذہبی شادیوں کی خطرناک حد تک مخالفت کی جانے لگی ہے۔ ہمارے سامنے رضوان الرحمٰن اور پرینکا توڈی کا معاملہ ہے ، جس میں کولکاتا کے ایک با اثر بزنس ٹائیکون کی بیٹی پرینکا نے ایک غریب مسلم لڑکے سے شادی کی تھی، مگر پرینکا کو والدین اور رشتہ داروں کے ذریعہ اس قدر ایمو شنل بلیک میل کیا گیا کہ وہ بھی بدل گئی۔ اس معاملہ کی تمام باتیں تو عام نہیں ہو پائی ہے، مگر جو کچھ سامنے آیا ہے ، اس سے صاف ہے کہ رضوان الرحمٰن کو خود کشی کے لیے مجبور کیا گیا۔ اس طرح کے تمام معاملات میں پولیس کا رول ، ریاستی مشنری کا کردار آئین اور قانون کے اصول و ضوابط کے بالکل بر عکس پایا جاتا ہے۔قانون کے محافظین ان معاملوں میں قانون کے بالکل بر عکس حرکت کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
بین مذہبی اور بین ذات شادیوں کے خلاف چلائی جارہی یہ مہمیں نہ صرف قومی یکجہتی کے خلاف ہیں،بلکہ لڑکیوں کو مردوں کے کنٹرول میں رکھنے کے طریق کار کو مضبوط بناتی ہیں۔ علاوہ ازیں اقلیت مخالف رجحان کو ہوا دے کر سیاسی منافرت کو بھی تقویت فراہم کرتی ہیں۔ منافرت کی سیاست کرنے والوں کے لیے یہ ڈبل بونس کا کام کرتی ہیں۔ چونکہ اس سماج میں جہاں مردوں کی حکمرانی ہے ، وہاں عورتوں کو مردوں کی املاک سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا جاتا او رانہیں ایک ایسے سماجی ڈھانچہ میں رہنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے، جس کی تخلیق مرد کرتے ہیں اور جہاں تمام فیصلے انہی کے ہوتے ہیں۔ فرقہ وارانہ سیاست کے ایجنڈے میں اقلیتوں کو نشانہ بنانا مرکز یت رکھتا ہے ، مگر دوسری سطح پر یہ اس سماجی سوچ کو بھی فروغ دیتاہے، جس میں مرد ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔
گزشتہ کچھ عرصہ میں ایک ایسا میکانزم تیار کیا گیا ہے، جس میں ہندو لڑکیوں اور ہندو مذہب کے تحفظ کے نام پر دراصل لڑکیوں کو اس آزادی سے محروم کیا جارہاہے کہ وہ اپنے جیون ساتھی کا انتخاب خود کریں۔ مظفر نگر میں اس لفظ کے غلط استعمال سے حالات کو اشتعال انگیز بنایا گیا اور فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے کے لیے من گھڑت کہانیاں بنائی گئیں۔ اب ‘لو جہاد’ محض ایک نعرہ نہیں ، بلکہ خطرناک ہتھیار بن چکا ہے۔ ایک طرف ا س کااستعمال مسلمانوں کو منفی کردار میں پیش کرنے کے لیے کیا جاتا ہے تو دوسری طرف خواتین کی آزادی کو کچلنے کے لیے۔ مذہب کے نام پر ہندوستان میں جو سیاست ہے، وہ افغانستان میں طالبان کی پالیسیوں سے الگ نہیں ہے۔ کئی عیسائی بنیاد پر ست گروپ بھی مذہب کے نام پر کچھ ایسی ہی مہم چلا تے ہیں ، جو دراصل خواتین کے حقوق کو دبانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ شری رام سینا سے لے کر بابو بجرنگی کی کار گزار یوں اور اس کے بعد مظفر نگر کے فسادات میں جو کچھ بھی سامنے آیا، یہ تمام کم و بیش اسی اصول پر مبنی مہم ہیں، جن میں خواتین کو مردوں کی املاک کے طور پر رہنے کو مجبور کیا جانا اور ان کی زندگی اور سوچ پر مکمل کنٹرول رکھنا اہم مقصد ہے۔
سچائی یہ ہے کہ ‘ لو جہاد’ کا استعمال اس طرح کیا جارہاہے ، اس سے جڑے پروپیگنڈہ کو اس طرح پھیلا یا جارہاہے کہ یہ سماجی سو چ کا ایک حصہ بن گیا ہے اور ‘ لو جہاد’ آج فرقہ وارانہ طاقتوں کا ایک مضبوط ہتھیار بن گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔