مفتی عبداللہ حملہ کیس ، مفرور ملزم اور اس کا ساتھی گرفتار
شیئر کریں
کراچی میں مفتی عبداللہ پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے کیس میں اہم پیش رفت سامنے آگئی ہے ، کانٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی)نے قاتلانہ حملے میں ملوث مرکزی مفرور ملزم اور اس کے ساتھی کو گرفتار کرلیا ہے ۔سی ٹی ڈی کے مطابق کراچی میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کا بین الاقوامی نیٹ ورک بے نقاب ہوگیاہے ۔۔اس ضمن میںڈی آئی جی سی ٹی ڈی عمر شاہد حامد نے پیرکی صبح پریس کانفرنس میں تفصیلات سے میڈیا کو آگاہ کیا۔ ایس ایس پی سی ٹی ڈی عارف عزیز اور انچارج سی ٹی ڈی سیل راجہ عمر خطاب بھی ان کے ہمراہ تھے ۔ڈی آئی جی سی ٹی ڈی عمرشاہ نے بتایاکہ مرکزی ملزم کا نام حارث عرف فرحان عرف لنگڑا اور اس کے ساتھی کا نام ابوسفیان ہے ،جسے محکمہ انسداد دہشت گردی نے کامیاب کارروائی کے دوران گرفتار کیاہے تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ ملزماں کو کب اور کہاں سے گرفتار کیا گیا ہے ۔انہوں نے بتایاکہ حارث عرف فرحان عرف لنگڑا اور اس ساتھی کے قبضے سے موٹرسائیکل،گولیاں اور پستول برآمد ہواہے ۔انہوں نے بتایاکہ ملزم کی گرفتاری سے بیرون ملک موجود ساتھی بھی بے نقاب ہوگئے ہیں، ملزمان کو شہر میں فرقہ واریت کا ٹاسک دیا گیا تھا، ملزمان کو مذہبی شخصیات کو ٹارگٹ کرنے کے لیے حوالہ ہنڈی سے رقم منتقل کی گئی تھی۔ڈی آئی جی سی ٹی ڈی نے بتایاکہ ملزمان لیاری گینگ وار سے تعلق رکھتے ہیں،حملے آور گروپ کا تعلق متحدہ عرب امارات میں موجود لیاری گینگ وار کے زاہد شوٹر گروپ سے ہے ۔زاہد شوٹر بھارتی ایجنسی را کے لیے کام کرتاہے ۔ڈی آئی جی سی ٹی ڈی عمر شاہد حامد کے مطابق مفتی عبداللہ کو سیکورٹی نہ ہونے کی وجہ سے آسان ہدف بناکر ٹارگٹ کیا گیا اور مولانا عادل پر حملے کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ایک فرقے کے علما ٹارگٹ پر ہیں۔انہوں نے بتایاکہ اس گروپ کے تمام لڑکے پیشہ ور قاتل ہیں، گروپ میں گولیمار اور لیاری کے جرائم پیشہ افراد شامل کیے گئے ہیں۔بھارتی خفیہ ایجنسی را اس نیٹ ورک کو آپریٹ کرتی ہے ، میڈیا پر 10 لاکھ روپے کے تنازعہ پر قتل کی خبریں چلوائی گئیں جبکہ رقم کا کوئی تنازعہ نہیں تھا، یہ خبر بے بنیاد تھی۔اس موقع پرراجہ عمر خطاب نے بتایاکہ سی ٹی ڈی نے واقعے میں ملوث دو ملزمان کو گرفتار کیا ہے ، جن میں حارث فرحان لنگڑا اور ساتھی سفیان شامل ہے ۔دہشت گردوں کو رقم ترسیل کے لیے فوڈ پانڈا اور بائیکیا موٹر سائیکل سروس کے نام استعمال کیے گئے ۔ مولانا عبداللہ پر جمشید کوارٹر میں قاتلانہ حملہ ہوا، سی ٹی ڈی نے تحقیقات کیں تو انکشاف ہوا کہ کارروائی میں فرقہ ورانہ نیٹ ورک نہیں بلکہ لیاری گینگ وار پر مشتمل زاہد شوٹر نامی دہشت گرد نے گروپ بنا رکھا تھا، گروپ غیر ملکی ایجنسیوں کے لیے کام کر رہا تھا۔نیٹ ورک نے مولانا پر حملہ اس لیے کیا کہ فرقہ ورانہ فسادات کرائے جاسکیں، عمر شاہد حامد ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کے مطابق گروپ کی فنڈنگ کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں، ملزموں کو مختلف ٹارگٹ دئیے گئے تھے ، حوالہ ہنڈی کے ذریعے رقم پاکستان بھیجی گئی۔ملزم بائیکیا اور فوڈ پانڈا کا حلیہ اختیار کرکے رقم اور اسلحہ منتقل کررہے تھے ، مفتی عبداللہ کیس میں تین لاکھ روپے دبئی کے ذریعے بھیجے گئے ۔حاجی نام کا ایک اور کردار بھی سامنے آیا ہے جو مالی معاونت کرتا ہے ۔ حاجی نامی شخص لیاری گینگ وار کو فنڈز فراہم کرتا ہے اور وہ را کے بتائے گئے ٹارگٹ پر حملہ کرتے ہیں،جن سے فرقہ وارانہ فسادات پھیل سکیں۔ انہوں نے بتایاکہ ملزم حارث عرف فرحان عرف لنگڑا سے دوران تفتیش بھارتی خفیہ ایجنسی کے ملوث ہونے کے شواہد بھی ملے ہیں۔ مفتی عبداللہ پر حملے کیلئے بھارتی خفیہ ایجنسی را نے فنڈنگ کی۔ حملے میں ملوث گروہ نے حوالہ ہنڈی کے ذریعے رقم وصول کی۔انہوں نے بتایا کہ ملزمان 12 سے زائد وارداتوں میں ملوث ہیں۔انہوں نے بتایاکہ مفتی عبداللہ پر حملے کے لیے مزمان کو تین لاکھ ملے تھے ۔ سی ٹی ڈی کے مطابق ملزمان کا منصوبہ پہلے ہی ٹارگٹ میں ناکام ہوگیا تھا، مفتی عبداللہ پر حملے کے دوران ملزم مدثر میمن پکڑا گیا تھا۔پولیس کے مطابق حملے میں ملوث ملزم فرحان موقع سے فرار ہوگیا تھا، سی ٹی ڈی نے 14 دن بعد ملزم حارث لنگڑا عرف فرحان اور اس کے ساتھی کو گرفتار کرلیاہے ۔سی ٹی ڈی حکام کے مطابق ملزمان مفتی عبداللہ کو نہیں جانتے تھے ، ریکی کے لیے نمازیوں کا روپ دھارا، ملزمان نے مسجد سبحانی میں مفتی عبداللہ کا خطاب بھی سنا تھا۔واضح رہے کہ مفتی عبداللہ پر رواں ماہ یکم نومبر کو حملہ کیا گیا تھا۔ واقعہ جمشید روڈ ایک نمبر پر پیش آیا، جہاں موٹر سائیکل سوار 2 ملزمان نے فائرنگ کرکے مسجد کے پیش امام کو زخمی کیا تھا، جن کی بعد ازاں شناخت مفتی عبد اللہ کے نام سے ہوئی تھی۔ واقعے کے بعد علاقہ مکینوں اور سیکیورٹی گارڈز نے ایک ملزم کو پکڑ لیا تھا، جب کہ دوسرا فرار ہوگیا تھا۔پہلے گرفتار کیے گئے ملزم نے دوران تفتیش بتایا تھا کہ اسے مذہبی شخصیات پر حملہ کرنے اور اس معاملے کو پیسوں کے تنازع کا رنگ دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔ حملے سے پہلے مفتی عبداللہ کی 5 روز تک ریکی کی گئی تھی، اس دوران ملزم ان کا مسجد سے گھر تک پیچھا کرتا رہا تھا۔