میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان اور روس کی مشترکہ فوجی مشق’’ دروزبہ 5 ‘‘

پاکستان اور روس کی مشترکہ فوجی مشق’’ دروزبہ 5 ‘‘

ویب ڈیسک
پیر, ۱۶ نومبر ۲۰۲۰

شیئر کریں

یادش بخیر ! کہ جہاں پاکستانی اور روسی افواج کے درمیان پانچویں بار مشترکہ فوجی مشق ’’دروزبہ 5 ‘‘کا انعقاد دونوں ممالک کے درمیان وسیع تر سفارتی و عسکری تعلقات میں بہتری کا شاندار مظہر ہے ،وہیں خطے میں پاکستانی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے کیے گئے اس خصوصی دفاعی ’’حسن انتظام ‘‘ پر پاک فوج کی اعلیٰ قیادت زبردست داد اور تحسین کی بھی مستحق ہے ۔کیونکہ قیام پاکستان سے لے کر اَب تک روس اور پاکستان کے سفارتی تعلقات نے بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں ۔ کبھی یہ دونوں ملک اتنے قریب آگئے تھے کہ روس نے پاکستان کے صنعتی شہر کراچی میں ا سٹیل مل قائم کرنے میں بھر پور مالی اور تکنیکی مددفراہم کی، مگر ایک وقت ایسا بھی آگیا تھاکہ افغانستان میں لڑی جانے والی سرد جنگ کے دوران اسلام آباد اور ماسکو کے درمیان دوریاں اور کشیدگی اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی تھی۔یعنی ہم نے روس کی سفارتی و سیاسی دوستی بھی ملاحظہ کی ہے جبکہ سرد جنگ کے دوران روس نے ہماری افواج کی عسکری مہارت اور دفاعی صلاحیت کو بھی بہت قریب سے جانچا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ روس اور پاکستان کے مامین دفاعی تعلقات کا ازسرِ بحال ہوجانا بین الاقوامی سیاسیات کے طالب علمو ں کے لیے کسی معجزہ سے کم نہیںہے ۔اچھی بات یہ ہے کہ جہاں ہماری افواج نے دوسرے بہت سے غیرمعمولی کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ، وہیں ہماری عسکری قیادت یہ معجزہ بھی بہت آسانی سے کرگزری کہ کل تک جس روس سے ہمارے ملک کی سرحدوں کو خطرات لاحق ہوا کرتے تھے ۔آج اُسی روس کو خطے میں اپنی حیثیت کو منوانے کے لیے پاکستان کے ضرورت آن پڑی ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان کئی مشکل دہائیوں کے بعد اُس وقت مختلف شعبہ جات میں بہتری کی کا سنجیدہ اور عملی کوشش آغاز ہوا تھا جب چند برس قبل روسی وزیردفاع سرگئی شوئے گو نے دورۂ پاکستان کے موقع پر دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون بڑھانے کے ایک معاہدہ پر دستخط کرتے ہوئے ایک دوسرے کے مابین وسیع تر دفاعی تعاون کے آغاز کے علاوہ دونوں ممالک کی افواج کو ایک دوسرے کے ملک میں فوجی تربیت کے لیے بھیجنے پر اصرار کیا تھا۔بعض دفاعی تجزیہ کاروں کے نزدیک اُس وقت یہ بڑے اچنبھے کی بات تھی کہ آخر روسی افواج ،پاکستانی افواج سے کیا سیکھنا چاہتی ہے؟۔ خاص طور پر بھارت جو ماضی میں روس کا سب سے زیادہ قابلِ اعتبار دفاعی اتحادی ہوا کرتا تھا ،اُس کے میڈیا نے روس کی جانب سے اپنی افواج کی تربیت کے لیے پاکستانی تعاون طلب کرنے پر شدید تنقید بھی کی گئی تھی۔

دراصل بھارت نے روس پر بھرپور دباؤ ڈالنے کی ہرممکن کوشش کی کسی طرح روس کو پاکستان سے دور رکھاجاسکے ۔ اس کے لیے بھارتی قیادت کی جانب سے روس کو معاشی ترغیب دینے کے لیے اُس سے اپنی افواج کے لیے اربوں ڈالر ز کا دفاعی ساز و سامان خریدنے کا عندیہ بھی دیا گیا تھا۔ لیکن روسی قیادت نے بھارت کی تجاویز اور ترغیبات کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ اپنا دفاعی تعلق مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے اپنی ہر ممکن کاوش کو جاری رکھا اور مشق ’’دروزبہ 5 ‘‘کا پاکستان میں انعقاد اس بات کی بین ثبوت ہے کہ پاکستان اور روس کے دفاعی تعلقات گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل عظیم بلندیوں کی جانب محو پرواز ہیں ۔ واضح رہے کہ روس اور پاکستان کے درمیان دروزبہ کے عنوان سے پہلی فوجی مشق 2016 اور دوسری 2017 میں پاکستان میں منعقد ہوئی تھی۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار کے مطابق تیسری اور چوتھی مشقیں 2018 اور 2019 میں روس میں کی گئی تھیں۔جبکہ رواں ہفتے شروع ہونے والی فوجی مشق ’’دروزبہ 5 ‘‘پاکستان میں دو ہفتے تک جاری رہیں گی۔

روسی ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان میں ہونے والی مشق ’’دروزبہ 5 ‘‘ روسی افواج کی دفاعی صلاحیتوں کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ اِن مشقوں میں روسی افواج کے اسپیشل فوجی دستے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حاصل ہونے والے پاکستانی افواج کے گراں قدر عسکری تجزبے سے استفادہ حاصل کریں گے ۔نیز شہروں میں لڑی جانے والی پراکسی وارز میں اپنے ملک کے دفاع کو یقینی بنانا بھی ایک ایسی منفرد دفاعی صلاحیت ہے، جو یقینا روسی افواج ، پاکستان سے ضرور سیکھنا چاہے گی۔ دوسری جانب پاکستان بھی مشق ’’دروزبہ 5 ‘‘ کے ذریعے اپنے دشمن ملک بھارت کو واضح پیغام پہنچا سکے گا کہ پاکستانی افواج اپنے دفاع سے کسی طور غافل نہیں ہے ۔
علاوہ ازیں مشق ’’دروزبہ 5 ‘‘ خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کی جانب ایک اہم سنگِ میل بھی قرار دیا جاسکتاہے ۔دراصل بعض سفارتی اُمور ماہرین کے خیال میں حالیہ برسوں میں پاکستان سے متعلق روس کی سفارتی پالیسی میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے، اور یہ تبدیلی دراصل خطے میں روس کا اثرورسوخ ازسرنو بحال کرنی کی دیرینہ خواہش کی تکمیل کے لیے اُٹھایا جانے والا پہلا قدم ہے ۔جبکہ روسی صدر ولادیمیر پوتن جو کبھی روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں ،وہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں اس خطے میں کوئی بھی کامیابی پاکستان کی عملی مدد و اعانت کے بغیر حاصل کرپانا روس کے لیئے قطعی طور پر ناممکن ہوگا۔ لہٰذا روس،اس بار پاکستان کے ساتھ اپنے دفاعی اور سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے نہ صرف انتہائی سنجیدہ دکھائی دیتا ہے بلکہ وہ پاکستان کے ساتھ استوار ہونے والے اپنے دفاعی تعلقات کو مزید پروان چڑھانے کے لیے بھارت جیسے اپنے کئی روایتی حریف اور دوست باآسانی قربان بھی کرسکتاہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دفاع کے علاوہ دیگر شعبہ جات میں بھی روس اور پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ بڑھ چڑھ کر تعاون کررہے ہیں ۔جس کا ایک واضح ثبوت رواں مالی سال کے وہ خوش کن سرکاری اعداد و شمارہیں جن کے مطابق اگلے چند برسوں تک پاکستان اور روس کے درمیان دو طرفہ تجارت کا سالانہ حجم 100 کروڑ ڈالر سے زائد تک پہنچنے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ چین کی رضا مندی کے بعد روس کے سی پیک میں شمولیت کے امکانات بھی خوب روشن ہو گئے ہیں، جس سے روس اور پاکستان کو مستقبل میں معاشی طور پر زبردست فوائد پہنچنے کی اُمید ہے۔صرف یہ ہی نہیں روس کراچی سے لاہور کے درمیان دس ارب ڈالر کے خرچ سے تعمیر کی جانے والی گیس پائپ لائن کے بچھانے میں پاکستان کو مالی مدد بھی فراہم کررہا ہے۔

اَب پاکستان کے لیے اِس سے بڑھ کر کیا اچھا ہو گا اگر وہ روس، چین، امریکا، یورپین یونین، افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور وسطیٰ ایشیاء کے ساتھ بہتر معاشی تعلقات مزید مضبوط کرنے کے لیے اس سنہری موقع کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھالے۔دوسری جانب روس جو کہ مکمل طور پر ایک لینڈ لاک ملک ہے یعنی جس کے پاس اپنا سمندر نہ ہونے کی وجہ سے سمندری تجارت کی ذاتی سہولت میسر نہیں ہے ۔جس کی وجہ سے روس کو ہمیشہ سمندری تجارت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑاہے۔ روس کی اس مشکل کو بھی صرف پاکستان ہی حل کرسکتاہے ۔ یعنی گوادر کی بندرگاہ روس کے لیے گرم پانیوں تک پہنچنے کاایک بہترین راستہ بن سکتی ہے جو روس کو تجارتی طور پر دنیا بھر کے ساتھ جوڑ دے گی۔ یاد رہے کہ روس کو براستہ گوادر عالمی تجارت کے لیے راستہ فراہم کرنا پاکستان کے لیے بھی کسی عظیم معجزانہ انعام سے کم نہ ہوگا ۔

اگرچہ پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات کی بہتری کے کئی دیگر شاندار مواقع بھی موجود ہیں مگر مستقبل میں روس اور پاکستان کے درمیان شروع ہونے والے اس دوستانہ سفر میں ، دونوں ممالک کاکئی رکاوٹوں اور مشکلات سے بھی آمنا سامنا ہونے کا قوی امکان ہے۔جیسے سب سے پہلی مشکل بھارت کی شکل میں پیش آ سکتی ہے کیونکہ بھارت کبھی بھی نہیں چاہے گا آنے والے ایام میں پاکستان کی دفاعی تعلقات روس کے ساتھ اُس نہج پر پہنچ جائیں ، جہاں خطے میں اس کے مفادات برے طریقے سے متاثر ہونا شروع ہوجائیں ۔ خاص طو ر پر مسئلہ کشمیر ایک ایسا معاملہ جس پر اگر پاکستان کو روسی حمایت دستیاب ہو جائے تو بھارت کی سفارتی مشکلات خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہیں ۔
اس کا ایک مشاہدہ کشمیر میں آرٹیکل 365 اے کے نفاذ کے موقع پر اُس وقت دیکھنے میں آیا تھا جب یہ مسئلہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گیا تھا توحیران کن طور پر تاریخ میں پہلی بار روس نے مسئلہ کشمیر کے معاملہ پر بھارت کا ساتھ دینے کے بجائے پاکستان کی تائید کرنے کا اعلانیہ فیصلہ کیا تھا ۔ روس کے اس جارحانہ سفارتی رویے نے عالمی فورم پر بھارت کو سخت سفارتی زک پہنچائی تھی ۔اس لیے توقع ہے کہ بھارتی قیادت روس اور پاکستان کے تعلقات میں رخنہ ڈالنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنے کی کوشش کرے گی۔ جبکہ دوسری بڑی مشکل امریکا کی صورت میں بھی پیش آسکتی ہے ۔کیونکہ امریکا بخوبی ادراک رکھتا ہے کہ چین اور روس اس خطے میں امریکا کو زیر کرنے کے لیے ایک وسیع البنیاد دفاعی اتحاد بنا چکے ہیں ۔ایسے میں پاکستان کا بھی چین اور روس کے اس دفاعی اتحاد کا حصہ بننا امریکا کو شک میں مبتلا کر سکتاہے کہ کہیں روسی صدر ولادیمیر پوتن پاکستان کے ذریعے خطے میں امریکا کی راہیں مسدود تو نہیں کرنا چاہتاہے۔بہرکیف مشکلات اور پریشانیاں جتنی بھی راہ میں آجائیں اگر روس اور پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنے کا مخلصانہ فیصلہ کرچکے ہیں تو پھر وہ یقینا اپنی منزل مراد کو ضرور پہنچیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں