میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
میانمار میں مسلمانوں کے خلاف جرائم اور تشدد کا سلسلہ جاری

میانمار میں مسلمانوں کے خلاف جرائم اور تشدد کا سلسلہ جاری

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۶ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

ڈاکٹر جعفر حق پناہ
میانمار میں مسلمانوں کے خلاف مقامی حکومت کی ایما اور حمایت میں جاری بدترین ظلم و تشدد اور عالمی ذرائع ابلاغ کی طرف سے مسلسل چشم پوشی اور ہونے والے جرائم پر پردہ پوشی سے یہ لازم ہوجاتا ہے کہ اس ملک اور وہاں پر مقیم مسلمانوں کے بارے میں پہلے سے زیادہ معلومات و جانکاری حاصل کی جائے۔
متحدہ جمہوریہ میانمار ایشیا کے مشرقی جنوب پر واقع ایک ملک ہے جس کے شمال مشرق پر چین، مشرق پر لائوس، مغرب پر بنگلہ دیش، مغربی شمال پر ہندوستان، مغربی جنوب پر خلیج بنگال اور جنوب پر بحیرہ اندیمان واقع ہے۔ میانمار کا رقبہ 678500 مربع کلو میٹر کے ساتھ جنوب مشرقی ایشیا کا رقبے کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے۔ اس ملک کی 1900 کلو میٹر سمندری حدود ہے۔ میانمار کے شمال میں واقع ہمالیہ پہاڑوں سے تین پہاڑی سلسلے جنوب کی طرف نکلتے ہیں۔
برطانیا نے 1824ء میں برما پر قبضہ کرکے ہندوستان میں قائم برطانوی نوآبادیاتی حکومت میں ضم کیا۔ 1937ء کو برطانیا حکومت نے برما کو ’’اراکان‘‘ کے ساتھ ہندوستان کی حکومت سے الگ نو آبادیات قرار دے کر اسے برطانوی برما کا نام دیا۔ برطانیا نے 1948ء کو برما کی آزادی کا اعلان کیا جس کے بعد اس ملک کا نام میانمار رکھا گیا۔
فوج نے جنرل ’’نے وین‘‘ کی قیادت میں 1962ء کے فوجی انقلاب کے نتیجے میں وزیراعظم ’’اونو‘‘ کی سول حکومت گرانے کے بعد ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا۔ جب سے میانمار کی قیادت پر فوج قابض رہی، یہ صورتحال 2011ء تک جاری رہی جب تک کہ 2010ء کے الیکشن کے بعد حکمران کائونسل تحلیل ہوگئی اور سول حکومت کے نئے صدر کی تقریب حلف برداری منعقد ہوگئی۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق میانمار کی آبادی 2005ء میں 4 کروڑ نفوس پر مشتمل تھی جس میں 70 فیصد نفوس بدھ مت کے ماننے والوں پر مشتمل تھی۔
میانمار میں اسلام کی آمد
میانمار میں اسلام کی آمد کی تاریخ پہلی صدی ہجری تک جا پہنچتی ہے۔ اسلام کی ظہور پذیری کے بعد عربوں اور ایرانیوں کی طرف سے اسلام میں شمولیت کا رجحان جاری رہا، عرب اور ایرانی ملاح اپنے سابقہ دریائی سفر جاری رکھتے ہوئے سفر کے دوران اسلام کی تبلیغ کرتے اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیتے جاتے تھے۔
مسلمان تاجر بعد میں مغربی چین جاتے ہوئے میانمار کے مغربی علاقہ اور اس کے اراکان صوبے سے ملنے والی گزرگاہوں سے سفر کرتے تھے ان میں سے بہت سے تاجروں نے اراکان کے زرخیز اور مواقع سے مالا مال ساحلی علاقوں میں سکونت اختیار کرکے اس علاقے میں پہلی مسلمان آبادی آباد کی۔ چینی تاجروں نے اپنی تحریروں اور سفرناموں میں تیسری صدی میں میانمار اور چین کے مغربی جنوب میں واقع صوبہ یونین کے درمیان بسنے والی ایک ایرانی بستی کی موجودگی کے بارے میں بیان کیا ہے۔
مسلمانوں پر تشدد
1962ء کو جنرل نے وین کی حکومت برسراقتدار آنے کے بعد مسلمانوں کو حج پر جانے کی ممانعت کردی گئی یہاں تک کہ 1980ء میں 18 سال گزرنے کے بعد 70 مسلمانوں کو حج کے فرائض کی بجا آوری کے لیے مکہ مشرف ہونے کی اجازت دے دی گئی۔ اس کے بعد متعدد اسلامی کانفرسوں میں شرکت کیلیے چند مسلمان مندوب بھیج دیئے گئے۔
برطانوی نشریہ سنڈے ٹائمز اپنی ایک رپورٹ میں میانماری فوج کی طرف سے مسلمانوں پر روا رکھے جانے والے ہولناک جرائم کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتا ہے: اس لمک کے فوجی مسلمانوں کو مارتے پیٹتے اور انہیں گالیاں دیتے ہیں، سب کے سامنے عورتوں کی عصمت دری کرتے، مردوں کو سولی پر چڑھا کر انہیں قتل کردیتے ہیں۔
اس اخبار کے مطابق مسلمانوں کی بڑی تعداد روزانہ میانماری فوج کے ہولناک مظالم اور لرزہ خیز واقعات کو سہتے ہوئے خود کو کھانے پینے کی اشیا کی قلت اور بیماریوں کا شکار پناہ گزیں کیمپوں تک پہنچاتی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق فوجیوں کا ارادہ ہے بدھ مذہب کے ماننے والوں کو میانمار کے مغربی صوبہ اراکان میں بسا دیں جہاں ماضی میں مسلمان رہائش پذیر تھے۔
اس کے باوجود کہ میانماری فوج نے دیگر قومی اقلیتوں پر بھی مظالم ڈھائے اور انہیں اذیتوں میں مبتلا کیے جاتے رہے ہیں خاص کر تھائی لینڈیوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا مگر مسلمانوں کے ساتھ ان کا پرتشدد سلوک نہایت بھیانک ہے۔
مسلمانوں پر صوبہ راخین میں تشدد کی حالیہ لہر اس وقت شروع ہوئی جب مئی 2012ء میں مقامی فوج کے ہاتھوں 11 بے گناہ مسلمان قتل ہوئے اور مسلمانوں کی ایک بس پر بدھ مت کے ماننے والے ایک گروہ کے حملے کے جواب میں ایک بدھ مت کے ماننے والے کا قتل ہوا۔
مغربی میانمار میں جھڑپوں کے آغاز کے ساتھ بدھ مت کے ماننے والوں نے مسلمان بستیوں پر حملہ کرکے ان کے ہزاروں مکانات نذر آتش کردیئے اور ہزاروں مسلمانوں کو بے گھر کیا۔ ان بے گھر ہونے والے اکثر مسلمان میانمار اور بنگلہ دیش کی سرحدوں کی طرف پناہ لینے پر مجبور ہوگئے جو بدترین حالات کا شکار ہیں۔ انہیں کھانا اور پانی کی ضرورت ہے۔ موسمی بارشوں سے جان بچانے کیلیے سر چھپانے کی جگہ چاہئے جو انہیں میسر نہیں اور ان کی زندگی اور جانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
یہ ایسی صورتحال میں رونما ہورہے ہیں جب میانمار کی حکومت نے سوچ بچار کے بعد علاقے میں اپنی سیکورٹی فورسز کی تعداد میں اضافہ کیا اور ایک ہفتے کے بعد راخین صوبے میں ایمرجنسی نافذ کردی۔ یہ تمام تر تشدد ایسے حالات میں جاری ہیں جب میانمار کے صدر نے ستمبر میں اعلان کیا کہ مسلمان میانمار کے شہری نہیں ہیں۔ میانمار کے صدر تین سین نے 8 لاکھ نفوس پر مشتمل میانماری مسلمانوں کی آبادی کو خارجی قومیت قرار دے کر کہا: مسلمانوں کو پناہ گزین کیمپوں میں دھکیلنا چاہئے یا ملک بدر کیا جانا چاہئے۔
کچھ عرصے پہلے یورپ کے دورے کے دوران یورپین یونین کے رہنمائوں سے ملاقات اور بات چیت کرنے اور انسانی حقوق کے علمبرداری کا بھیس اپنا کر خوب داد وصول کرنے والی میانمار حکومت کی اپوزیشن لیڈر ’’آنگ سان سوچی‘‘ نے بھی اپنے ہم مذہب پیروکاروں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام اور ان پر کیے جانے والے انسانیت سوز مظالم کے خلاف نہ صرف کسی قسم کا ردعمل یا موقف اختیار نہیں کیا بلکہ صاف صاف کہہ دیا ہے کہ یہ لوگ میانمار کے لوگ نہیں ہیں۔ ایسے موقع پر جب کہ عالمی ذرائع ابلاغ کی طرف سے گزشتہ کئی ہفتوں کے دوران بدھ مت کے ماننے والوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی نسل کشی کی تصاویر اور رپورٹوں کے خلاف نہ صرف کسی قسم کا ردعمل کے اظہار سے اجتناب برت رہی ہوں بلکہ سرے سے ان کی چشم پوشی کی جارہی ہو، اسلامی ممالک اور تنظیموں پر لازم ہے کہ فراموشی کے کھاتے میں سپرد کیے جانے والے میانمار مسلمانوں پر اپنی توجہ مبذول کرائیں اور ان کے حقوق کی بحالی کے لیے اپنی کمر کس لیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں