سی پیک سبوتاژ کرنے کے لیے ’’را‘‘ کی نئی سازش
شیئر کریں
چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کے منصوبے نے جہاں پاکستان کی اقتصادی ترقی، عوام کی خوشحالی اور ملک کے استحکام کی بنیاد رکھی وہیں خطے میں پاکستان کی اہمیت بھی بڑھا دی ہے جس کا ثبوت خطے کے تمام ممالک کی جانب سے سی پیک میں شمولیت کی خواہش کا اظہار ہے۔ اس لیے سی پیک کی بنیاد پر پاکستان کا مستقبل تابناک نظر آتا ہے جبکہ ہمارے روایتی دشمن بھارت کو گوادر پورٹ اور سی پیک کے ذریعے پاکستان کی ممکنہ اقتصادی ترقی اور خوشحالی ایک آنکھ نہیں بھا رہی اور وہ اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے انتہائی گھٹیا حربوں اور گھناؤنے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے ۔
چیئرمین جوائنٹ چیف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل زبیر محمود حیات نے ایک مقامی تھنک ٹینک کے زیر اہتمام عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ‘‘ را’’ نے پاک چین معاشی راہداری کے منصوبہ کو سبوتاژ کرنے کے لیے 50 کروڑ ڈالر کی لاگت سے نیا شعبہ قائم کر دیا ہے۔پاک چین اقتصادی راہداری کے خلاف ہر سطح پر سازشیں جاری ہیں۔بھارت اربوں روپے کی فنڈنگ کے ساتھ اقتصادی راہداری کو نقصان پہنچانے کے لیے پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے جبکہ اسکے ساتھ ساتھ مودی سرکار نے کنٹرول لائن پر سخت کشیدگی کی فضا پیدا کرکے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی بھی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ بھارتی فوج کنٹرول لائن کے دونوں اطراف شہری آبادی کو نشانہ بنا رہی ہے۔ بھارت ایل او سی پر مسلسل اشتعال انگیزیاں کر رہا ہے۔ بھارت نے 1200 سے زائد مرتبہ فائر بندی کی خلاف ورزی کی جس سے 1 ہزار پاکستانی شہری اور 300 فوجی جوان شہید ہوچکے ہیں۔
پاکستان کے اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے بھارت کے سپیشل سیکیورٹی ایڈوائزر کی سربراہی میں سپیشل ڈیسک تشکیل دیدیا ہے۔ جس میں بھارتی فوج کے ایک حاضر سروس جنرل کے علاوہ را اور سی آئی بی کے اعلیٰ افسران شامل ہیں۔ یہ ا سپیشل ڈیسک سی پیک منصوبے کو ناکام کرنے کے لیے بلوچستان کی کالعدم تنظیموں، پاکستانی طالبان اور سیاسی جماعتوں کو فنڈنگ بھی کرے گا اور میڈیا میں پاکستان مخالف پروگراموں کے لیے بھی فنڈنگ کرے گا۔سی پیک منصوبے کو تباہ کرنے کے لیے امریکا اور بھارت ایک طویل عرصے سے سازشیں کررہے ہیں لیکن چند وجوہات کی بنا پر امریکا پس پشت چلا گیا ہے اور فرنٹ پر بھارت کو سہولت کاری فراہم کی جارہی ہے۔
جنرل زبیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف بھارت کی روایتی اور نیم روایتی جاری جنگ کسی بھی وقت بڑی جنگ میں بدل سکتی ہے۔ مسئلہ کشمیر ایٹمی جنگ کے خطرات کی وجہ ہے۔ بھارت سے بہتر تعلقات کا راستہ صرف کشمیر سے ہو کر گزرتا ہے۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں 94 ہزار کشمیری شہید کیے جاچکے ہیں اور ہر 20 کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی تعینات ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل سے ہی جنوبی ایشیا میں دیرپا امن ممکن ہے۔
بقول جنرل زبیر بھارت آگ سے کھیل رہا ہے ۔ بلوچستان میں دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے۔ پاکستان کا پانی روک ر ہا ہے۔بھارت خطے کے امن سے کھیل رہا ہے۔ افغان سر زمین پر دہشت گردوں کے ٹھکانے مسائل میں اضافہ کر رہے ہیں اور افغانستان میں مستقل عدم استحکام کی پاکستان بھاری قیمت چکا رہا ہے۔ افغانستان میں عدم استحکام خطے کے لیے نقصان دہ ہے۔ افغانستان میں کمزور گورننس اورمفاہمتی عمل میں عدم تسلسل مسائل کا بڑا سبب ہے۔ گذشتہ 16 برس سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بے پناہ قربانیاں دیں۔ اس وقت جنوبی ایشیا کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جس میں بھارت کی کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن، میزائل شکن دفاعی نظام شامل ہیں۔ بھارت میں انتہاپسندی بڑھ رہی ہے۔ بھارت سیکولر سے انتہاپسند ہندو ملک بن چکا۔ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے۔ دنیا پر واضح ہو کہ ہم اپنے دفاع سے غافل نہیں۔ خطے میں سیاسی و معاشی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔پاکستان کی ہمسایہ ممالک کیساتھ دوستی اور بہتر تعلقات کی پالیسی ہے۔ افغانستان، ایشیاکاگیٹ وے ہے۔ بھارت کو دو ٹوک پیغام دیا کہ مسئلہ کشمیر جوہری جنگ کا پیش خیمہ ہے، کسی بھی قسم کا غلط اندازہ خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔
سی پیک بھارت کے سینے پر سانپ لوٹنے کے مترادف ہے۔ یہ عظیم تر منصوبہ تکمیل کی طرف جتنی تیزی سے گامزن ہے اتنی ہی شدت سے بھارت کو بے چین کیے دے رہا ہے۔ وہ اس منصوبے کی پستیوں کی گہرائی تک جا کر مخالفت اور سازشیںکر رہا ہے۔ چین پر اس منصوبے کے خاتمے کے لیے ممکنہ حد تک دبائو ڈال چکا ہے۔ متعدد بار وارننگ بھی دی کہ چین بقول بھارت متنازعہ علاقوں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے اقتصادی راہداری گزارنے سے باز رہے۔ حالانکہ یہ علاقے بالکل بھی متنازعہ نہیں ہیں۔ چین بھارت کے دبائو اور دھمکیوں میں آنے پر تیار نہیں، اس نے اقتصادی راہداری کی تکمیل پر عزم ظاہر کیا اور اپنے عزم و ارادے اور وعدے کے مطابق 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر کاربند ہے۔ پھربھارت نے پاکستان کے اندر سے بھی سی پیک کے مخالفین تیار کیے۔ ان کی کمر تھپکی، ان پر سرمایہ کاری بھی کی مگر حکومت جس طرح اس منصوبے کو لے کر چلی ہے۔ کسی کو اس کی کھل کر مخالفت کی جرات نہیں ہوئی۔ خیبر پی کے میں تحریک انصاف اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ جاری رکھا، ان کی بات سنی اور دونوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو چینی قیادت کے سامنے بٹھا دیا جہاں سے وزیر اعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ مطمئن ہو کر لوٹے۔ آج یہ خود سی پیک کی وکالت کر رہے ہیں۔ آج سی پیک پوری قوم اور تمام صوبوں کا متفقہ منصوبہ بن چکا ہے۔ جو فطری طور پر دشمن کے لیے ناقابل برداشت ہے۔
اس تناظر میں تو ہمیں اپنے اس مکار دشمن کی ہر سازش پر نظر رکھنے اور اس کا بروقت توڑ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری سلامتی اور اقتصادی ترقی و خوشحالی کیخلاف اسکے سازشی منصوبے روبہ عمل نہ ہوسکیں۔