جمہوریت اور آمریت کی کہانی
شیئر کریں
رائو عمران سلیمان
جمہوری یا غیر جمہوری نظام میں جب شخصیت پرستی آجائے تو وہ نظام پھر زیادہ دیر تک چل نہیں پاتے۔بنیادی طور پر آمریتیں بھی ملکوں میں عوام کی خوشحالی کا باعث بن جاتی ہیں اور یہ آمریت صرف اس لیے چل پاتی ہیں کہ وہ عوام کے مسائل کو حل کرتی ہیں،لیکن جب طویل المعیاد عرصے تک آمریت چلے تو اس میں خطرہ یہ ہوتا ہے کہ یہ ہی شخصیت پرستی کہیں سخت گیر رویے نہ اختیار کرلے کیونکہ اس عمل سے عوام کی سوچ اور شناخت کو خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔اور یہیں سے آمریت کا زوال شروع ہوجاتا ہے ،یعنی جب کوئی بھی سیاسی یا غیر سیاسی نظام اگر لوگوں کی خدمت چھوڑ دے تو اس کی مخالفت بڑھنا شروع ہوجاتی ہے چاہے وہ جمہوری نظام ہو یا پھر ایسا نظام جس نے آمریت کی آڑ میں جمہوریت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہو ۔
تاریخ گواہ ہے کہ متوازن اور رواداری کو فروغ دینے والا اور لوگوں کوکرپشن سے پاک رہ کر اچھی حکمرانی دینے والا نظام ہی اس ملک میں اچھے لفظوں میں یاد کیا گیا ہے چاہے وہ دور آمریت ہو یا پھر کوئی جمہوری دور۔جب ہم جمہوریت یا آمریت کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ مسئلہ بڑے لوگوں کا ہوتا ہے، اس سے عام آدمی کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ،عام آدمی کی ضرورت دو وقت کی روٹی کا حصول ہے ، اس کا مقصد باعزت روزگار ہوتا ہے جس سے وہ اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے عام آدمی کو رہنے اور سرچھپانے کے لیے چھت چاہیے ہوتی ہے وہ کوئی بنگلے یا کوٹھیاں اور بڑی بڑی گاڑیاں نہیں مانگتے حد سے زیادہ ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ان کے بچے بھی پڑھ لکھ کر ڈاکٹر یا انجینئر بن سکیں ۔بڑی بڑی گاڑیاں اور بنگلے ان لوگوں کی تمنائیں ہوسکتی ہیں جن کو آمریت یا جمہوریت کے مفہوم کا پتہ ہوتا ہے ۔
اگر سروے کیا جائے تو عوام کو یقینا ان دونوں لفظوں کے بارے میں ٹھیک طرح سے معلوم بھی نہیں ہوگا ،اور یہ اس ملک میں پنپنے والے جمہوری نظاموں کے ادوار پر بدنما داغ ہے کہ لوگ اگر قیام پاکستان سے لیکر اب تک کسی دور کو یاد کرتے ہیں تو وہ یقینا ایوب یا مشرف کے دور کو ہی اپنے لیے اچھا دور گردانتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ان وقتوں میں انہیں آٹا اور گھی مناسب قیمتوں میں مل جاتا تھالوگ سمجھتے ہیں کہ ایوب اور مشرف کے دور میں مہنگائی کا تناسب نہایت ہی کم تھا ،اگر ہم حال ہی میں جانے والے گزشتہ پیپلزپارٹی کے دور کو دیکھیں جو انہوں نے محترمہ کی شہادت کے عوض حاصل کیاتھا ۔ اس دور حکومت میں زرداری صاحب نے عوام کے کان پکڑوادیئے تھے اس دور میں بھی قریبی لوگوں کو خوب مال بنانے کی دعوت عام دی گئی اور عوام کو لاوارث اور بے یارومددگار کردیا گیا ،اب جب کہ موجودہ دور نواز شریف کا ہے تو اس میں جہاں یہ کہا جائے کہ زرداری صاحب نے اپنے دور میں لوگوں کے کان پکڑوادیے تھے وہاں میاں صاحب نے بھی غریب عوام کو ناکوں چنے چبوادیے ہیں ۔
اب ہم تھوڑا آمریت کے ادوار پر نظر ڈالتے ہیں کہ یہ کیوں اور کس طرح سے ملک میں نازل ہوتی رہی ہیں۔یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ پارلیمانی طرز حکومت کی داغ بیل 1956سے ڈالی گئی ۔اسکندر مرزا اس دور میں اسلامی جمہویہ پاکستان کے پہلے صدر تھے اسکندر مرزا کی اگر اپنی انتظامیہ پر گرفت مضبوط تھی تو کس وجہ سے تھی یہ پرانے سیاسی لوگ اچھی طرح جانتے ہیں۔کیونکہ وہ پاکستان کے فوجی افسر اور سیاستدان دونوں میں ہی اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ چکے تھے ۔اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ایوب خان سے ان کے تعلقات اچھے ہونے کی بھی یہ ہی وجہ تھی لہذا انہوںنے جمہوریت کی بساط الٹ کر خود اس پر قبضے کاخواب دیکھنا شروع کردیا،انہوںنے ایوب خان کو بھی اپنے اس مقصد میں شامل کیا تھا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا کیونکہ جو خواب اسکندر مرزا دیکھ رہا تھا وہ ہی خواب ایوب نے بھی دیکھ لیا تھا، تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ 1958میں اسکندر مرزانے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے مرکزی اور صوبائی اسمبلیاں برخاست کردیں اور ملک میں مارشل لاء کے نفاذکا اعلان کردیا۔
اسکندر مرزا کے اقتدار کے مزے بھی زیادہ دن نہ چل سکے اور ایوب خان نے اسکندر مرزاسے استعفی پر زبردستی دستخط لے کر انہیں چلتا کیا۔اور اقتدار کی چابی اپنے ہاتھ میں لے لی،اور جب اقتدار سے دل بھرا تو انہوںنے اپنا اقتدار جمہوری انداز میں چلانے کے لیے عوا م کو نہ سونپا بلکہ اسی انداز کو جاری رکھنے کے لیے جنرل یحییٰ خان کے حوالے کردیاجس نے اقتدار ملتے ہی اس ملک کو دوسرے مارشل لاء سے نواز دیا۔تیسرے مارشل میں ذوالفقارعلی بھٹو کا دور تھا ملک بھر میں بھٹو مخالفت کی تحریکوں کا آغاز تھا،اس بار صدر مملکت کے عہدے پراسکندر مرزا کے مزاج کا آدمی نہ تھااور ہوتا بھی تو اس وقت تک آئین بدل چکا تھا یعنی صدر اور وزیر اعظم میں اختیارات کی تقسیم واضح ہوچکی تھی،جس پر موقع پرست سیاسی جماعتیں ہنگامہ آرائیوں میں مصروف تھیں۔ اس افراتفری کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج کوایک بار پھر سے مداخلت کرنا پڑی اور اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ضیاء نے 5 جولائی 1977کو پورے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا ،جبکہ 1985میں ملک سے مارشل لاء اٹھا تولیامگر ایوب کی طرح اپنے فوجی منصب کو نہ چھوڑا، اس دوران محمد خان جونیجو کو وزیراعظم نامزد کیا گیا لیکن انہیں29مئی 1988 کو عہدے سے ہٹادیا گیا۔
فی الحال فوجی مداخلت میں جنرل پرویز مشرف کا ابھی تک آخری دور ہی سمجھا جاسکتاہے ۔12اکتوبر 1999کوجنرل پرویز مشرف نے ملک میں فوجی قانون نافذ کردیااور اس وقت کے وزیراعظم کو زبردستی معزول کردیاابتدا میں جنرل مشرف اور نوازشریف کے بہت اچھے تعلقات تھے یہ ہی وجہ تھی کہ مشرف کو چیف آف آرمی اسٹاف بنانے کے لیے نوازشریف نے کئی سینئر ترین جرنلوں کو سپرسیٹ کیا۔دونوں سیاسی وعسکری رہنمائوں کے تعلقات سیا چین کے مسئلے پر خرا ب ہونا شروع ہوئے ،مخالفت کا اختتام کرنے کے لیے نوازشریف نے پہل اس وقت کی جب جنرل پرویز مشرف سری لنکا کے دورے سے واپس آرہے تھے نوازشریف نے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے جنر ل مشرف کو فارغ کرکے اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف کے عہدے پر لگانے کی کوشش کی گو کہ یہ عمل نوازشریف کی جانب سے غیردانشمندانہ تھاجس کا خمیازہ وہ آج تک بھگت رہے ہیں کیونکہ انہوںنے موجودہ دور حکومت میں بھی اپنی ان ہی حرکتوں کو جاری رکھا ہوا ہے باقی اللہ تعالیٰ سے یہ ہی دعا کی جاسکتی ہے کہ تاریخ اس بار نہ ہی دہرائی جائے تو اچھا ہوگا ۔