میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ذیابیطس کا مرض ہر سال 30لاکھ افراد کی موت کا سبب بنتا ہے

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ذیابیطس کا مرض ہر سال 30لاکھ افراد کی موت کا سبب بنتا ہے

منتظم
بدھ, ۱۶ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

رپورٹ: شاہین صدیقی
ذیابیطس موجودہ عہد کا پریشان کن مسئلہ ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ذیابیطس کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے اور پریشان کن بات یہ ہے کہ بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ ساتھ بچے اور نوجوان بھی اس مرض کا تیزی سے شکار ہورہے ہیں۔ ذیابیطس کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ ایک خاموش قاتل ہے جو ہر سال 30لاکھ افراد کے لیے موت کا پیغام لے کر آتی ہے۔ جبکہ موٹاپا‘ غیر متوازن غذا اور جسمانی سرگرمیوں کا فقدان بچوں اور نوجوانوں میں اس مرض کے بڑھنے کی اہم وجہ ہیں۔ IDFکی 2003ءکی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد تقریباً 19کروڑ چالیس لاکھ تھی جو اب 30کروڑ ہوچکی ہے اور IDF (انٹرنیشنل ڈائبیٹس فیڈریشن) نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر دنیا بھر میں اس مرض پر جلد قابو نہ پایا گیا تو 2030ءمیں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 45 کروڑ ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں ذیابیطس او ر اس کی پیچیدگیوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ کیونکہ پاکستان میں ذیابیطس کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ماہر امرض ذیابیطس پروفیسر ڈاکٹر زمان شیخ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ذیابیطس کے 20سال سے زائد عمر کے مریضوں کی تعداد 71لاکھ سے زائد ہوچکی ہے اور پاکستان میں ہر سال 53ہزار خواتین اور 36ہزار مرد ذیابیطس کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ جبکہ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان میں دو کروڑ سے زائد افراد ذیابیطس کے مرض کا شکار ہیں اور آئندہ برسوں میں یہ تعداد دگنی ہوسکتی ہے ۔ ایک انداز ے کے مطابق یہ دن دنیا کے 160سے زائد ممالک ذیابیطس کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) اور انٹرنیشنل ڈایابٹیس فیڈریشن نے 14نومبر 1991ءمیں پہلی مرتبہ ذیابیطس کا عالمی دن منانے کی بنیاد رکھی اور کوشش کی کہ دنیا بھر میں تیزی سے پھیلتی ہوئی ذیابیطس کے آگے بند باندھا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال نومبرمیں دنیا بھر کے لوگوں کو اکٹھا کرکے ذیابیطس کے متعلق آگہی فراہم کی جاتی ہے۔ اس موقع پر ذیابیطس کے ماہرین‘ تنظیمیں‘ سرکاری ادارے‘ فارما کمپنیاں اور انفرادی طور پر لوگ وسیع سطح پر مختلف سرگرمیوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان سرگرمیوں میں ذیابیطس کا شکار بچے اور بڑی عمر کے لوگ بھی بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ اس دن کئی ذیابیطس سینٹر میں فری شوگر ٹیسٹ کیمپ بھی لگائے جاتے ہیں جہاں ذیابیطس کے مریض مفت اپنی شوگر کا معائنہ کرواتے ہیں۔ہر سال عالمی یوم ذیابیطس کا موضوع مختلف ہوتا ہے اسی طرح 2016ءکا موضوع ” ذیابیطس کے مریضوں کو آنکھ میں ہونے والی پیچیدگیوں سے بچایا جائے “ ہے۔
ذیابیطس ایک موذی اور تاحیات رہنے والا مرض ہے جو نہ صرف مریض کو کمزور کردیتا ہے بلکہ اسے دیگر امراض جن میں دل کے امراض‘ ہائی بلڈ پریشر‘ آنکھوں کے امراض‘ گردوں کے امراض اور ہڈیوں کے امراض میں مبتلا کردیتا ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے مریض ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق اپنے علاج‘ غذا‘ پرہیز اور ورزش کا خیال رکھیں تو وہ بھی ایک صحت مند اور خوش گوار زندگی گزار سکتے ہیں۔
ذیابیطس کا مرض موروثی بھی ہوسکتا ہے تاہم یہ مرض ایک سے دوسرے فرد کو منتقل نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جس میں مریض کے جسم میں گلوکوز (شکر) کی مقدار مقررہ حد سے بڑھ جاتی ہے۔ یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جسم گلوکوز کو موثر طریقے سے استعمال نہیں کرپاتا اور اس کے نتیجے میں خون میں گلوکوز کی اضافی مقدار پیشاب کے ذریعے خارج ہونے لگتی ہے۔
جب کھانا کھانے کے بعد جسم میں توانائی گلوکوز کی شکل میں دوران خون میں شامل ہوتی ہے تو معدے کے پیچھے واقع لبلبہ ہارمون جسے ہم انسولین کہتے ہیں پیدا کرنا شروع کردیتا ہے۔ انسولین اس گلوکوز کو استعمال میں لانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور گلوکوز کو جسم کے خلیات میں جذب کرنے کے قابل بناتا ہے۔ جب انسولین کے ذریعے خلیے اپنی ضرورت کے مطابق گلوکوز جذب کرکے توانائی حاصل کرلیتے ہیں اور اگر گلوکوز بچ جاتا ہے تو انسولین ہی کی مدد سے جگر اسے اپنے اندر اسٹور کرلیتا ہے جبکہ ذیابیطس کے مرض میں لبلبہ انسولین پیدا نہیں کرتا اور اگرکر بھی لیتا ہے تو وہ انسولین خاطر خواہ کام نہیں کرپاتی اور اس طرح خون میں گلوکوز کی مقدار مقررہ حد سے بڑھ جاتی ہے جسے ہم ذیابیطس کا مرض کہتے ہیں۔
اگرچہ حالیہ برسوں میں شعبہ طب نے جو ترقی کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی لیکن اس کے باوجود میڈیکل سائنس بہت سے پیچیدہ امراض کا علاج دریافت نہ کرنے کے ساتھ ساتھ حتمی طور پر یہ معلوم نہیں کرسکی کہ انسان کا لبلبہ انسولین بنانا کیوں چھوڑ دیتا ہے؟ تاہم بعض ماہرین کی رائے یہ ہے کہ لبلبہ میں جو خلیے انسولین بناتے ہیں اگر وہ تباہ ہوجائیں تو ایسا ہوتا ہے۔
لبلبہ میں انسولین بنانے والے خلیے کو بیٹا خلیے کہا جاتا ہے۔ آخر یہ بیٹا خلیے کیسے تباہ ہوجاتے ہیں؟ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی وجہ سے جسم کے دوسرے خلیے لبلبہ کے بیٹا خلیوں پر حملہ کرکے انہیں تباہ کردیتے ہیں اور اس وجہ سے انسولین نہیں بن پاتی جبکہ اس عمل کو ماہرین نے خود کار مامونی ردعمل (Auto Immune Reaction) کا نام دیا ہے جبکہ خود کار مامونی ردعمل کے بارے میں سائنسدانوں نے بہت سے نظریات بھی پیش کیے ہیں۔
کچھ ماہر سائنسدانوں کی رائے یہ ہے کہ خود کار مامونی ردعمل کسی خاص وائرس یا کسی دوسرے جرثومے (بیکٹریا) کی وجہ سے ہوتا ہے اور کچھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہماری روزمرہ خوراک میں شامل کیمیائی زہر کے جسم میں پھیلنے کی وجہ سے لبلبہ کے بیٹا خلیے تباہ ہوجاتے ہیں لیکن ماہرین ابھی تک حتمی طور پر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے کہ آخر لبلبہ میں موجود انسولین بنانے والے بیٹا خلیے کس وجہ سے تباہ ہوجاتے ہیں۔تاحال ناکارہ ہونے والے لبلبہ کا کوئی علاج موجود نہیں ہے کہ لبلبہ کو مکمل طور پر دوبارہ ٹھیک کیا جاسکے سوائے لبلبہ کی پیوند کاری کے۔ لیکن لبلبہ کی پیوند کاری اتنی آسان نہیں ہے اور یہ ہمارے ملک میں نہیں ہوتی کیونکہ لبلبہ کی پیوند کاری کے لوازمات بہت مشکل اور مہنگے ہیں۔ لہٰذا ایسا طریقہ علاج اپنانا چاہیے جس سے آپ کی شوگر مکمل طور پر کنٹرول میں رہے۔
ایک صحت مند انسان کے خون میں ناشتے سے پہلے گلوکوز کی مقدار گلوکوز فاسٹنگ (mg/dl) 100ملی گرام سے کم ہونی چاہیے اور ناشتے کے دو گھنٹے بعد خون میں گلوکوز کی مقدار یعنی گلوکوز رینڈم (mg/dl) 140ملی گرام سے کم ہونی چاہیے۔ایسے نافراد جن کے خون میں ناشتے سے پہلے یعنی گلوکوز فاسٹنگ(G.F) 100سے 126ملی گرام یعنی میڈیکل سائنس کی زبان میں IMPAIRED GLUCOSE ہو اور ناشتے کے دو گھنٹے بعد (G-R) 140 سے 200ملی گرام ہو یعنی IMPAIRED GLUCOSE TOLLARNCE ،ان افراد میں ذیابیطس کا مرض ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ یہ اس ابنارمل میٹابولک کیفیت کی طرف اشارہ کرتی ہے جو نارمل گلوکوز اور ذیابیطس کے درمیان ہوتی ہے۔ ایسے افراد کو میڈیکل سائنس کی زبان میں (پری ڈائبیٹک) کہتے ہیں۔
جبکہ ایسے افراد جن کے خون میں ناشتے سے پہلے گلوکوز کی مقدار (G.F) 126ملی گرام سے زیادہ ہوتی ہے اور ناشتے کے دو گھنٹے بعد گلوکوز رینڈم (G-R) 200ملی گرام سے زیادہ ہوتی ہے ایسے افراد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔
ذیابیطس کی کتنی اقسام ہوتی ہیں؟ اس بارے میں ماہر امراض ذیابیطس پروفیسر زمان شیخ کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کی دو اقسام ہوتی ہیں۔
قسم اول ذیابیطس جسے ہم ٹائپ ون ذیابیطس بھی کہتے ہیں اس قسم کی ذیابیطس میں لبلبہ انسولین بالکل نہیں بناتا۔ یعنی لبلبہ میں موجود انسولین بنانے والے بیٹا خلیے مکمل طور پر تباہ ہوجاتے ہیں۔ ذیابیطس کی یہ قسم بچوں اور نوجوانوں میں عام ہے لیکن بڑی عمر کے لوگ بھی اس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جبکہ ذیابیطس کی دوسری قسم کو ذیابیطس دوم یا ٹائپ ٹو ذیابیطس کہا جاتا ہے۔ قسم دوم ذیابیطس کے مریضوں میں لبلبہ انسولین تو بناتا ہے لیکن اس کی پیداوار جسمانی ضروریات کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔ یایہ انسولین صحیح طرح کام نہیں کرپاتی۔ ذیابیطس قسم دوم عموماً بڑی عمر کے لوگوں کو لاحق ہوتی ہے۔ لیکن اب یہ بالغ بچوں اور نوجوانوں میں بھی بہت عام ہوتی جارہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں اور نوجوانوں میں جسمانی و رزش یا جسمانی کھیل کود میں کمی ‘ فاسٹ فوڈز کا بڑھتا ہوا رجحان‘ کولڈڈرنک اور آئسکریم کا بہت زیادہ استعمال‘ کمپیوٹر گیمز‘ ٹیلی ویژن‘ ڈپریشن وغیرہ وہ وجوہات ہیں جس کی بنا پر 11سے 13سال تک کے بچوں اور نوجوانوں میں ذیابیطس دوم تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اور ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر طرز زندگی میں تبدیلیاں نہ لائی گئیں تو آئندہ برسوں میں یہ مرض بچوں اور نوجوانوں میں وبا کی طرح پھیل سکتا ہے۔ ذیابیطس دوم کی شرح زیادہ وزن رکھنے والے افراد میں بھی زیادہ ہوتی ہے۔ کچھ حاملہ خواتین حمل کے دوسرے نصف حصے میں ذیابیطس کا شکار ہوجاتی ہیں اس قسم کی ذیابیطس کو میڈیکل سائنس کی زبان میں Gestional Diabetesکہتے ہیں۔ یہ ذیابیطس عموماً بچے کی پیدائش کے بعد ختم ہوجاتی ہے لیکن کچھ خواتین بچے کی پیدائش کے بعد بھی ذیابیطس کے مرض میں مبتلا رہتی ہیں ‘ یعنی مستقل طور پر اس ذیابیطس کا شکار ہوجاتی ہیں۔
ذیابیطس اول اور ذیابیطس دوم کی علامات کے بارے میں پروفیسر زمان شیخ کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کی کئی ظاہری علامات ہوتی ہیں جن میں ذیابیطس اول کی علامات بہت جلد یعنی چند ہفتوں میں سامنے آجاتی ہیں اور ذیابیطس اول کی علامات ذیابیطس دوم کی علامات سے بہت شدید نوعیت کی ہوتی ہیں جبکہ ذیابیطس دوم کی علامات آہستہ آہستہ سامنے آتی ہیں اور اس کی نوعیت شدید نہیں ہوتی۔
مرض کی علامات میں (1)شدت سے پیاس لگنا (2)پیشاب کی زیادتی اور خاص طور پر رات کو زیادہ پیشاب کا آنا(3) وزن میں کمی (4) جلد کا خشک ہونا اور خارش ہونا (5) تھکن کا احساس ہونا(6) بار بار بھوک لگنا (7) نظر کا دھندلا جانا (8) متلی ہونا (9) پیروں میں درد اور اینٹھن ہونا (10) جسم میں اینٹھن ہونا اور بعض لوگوں میں قبض کی شکایت ہوتی ہے۔
عموماً دوم ذیابیطس میں کئی برسوں تک علامات پوشیدہ رہتی ہیں اور جب ان کی شدت بڑھ جاتی ہے مثلاً پیروں میں تکلیف‘ نظر کا دھندلاجانا اور کوئی ایسا زخم جو ٹھیک نہ ہورہا ہو تو مریض کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ذیابیطس جیسے موذی مرض میں مبتلا ہے۔ جبکہ قسم اول ذیابیطس میں یہ علامات کم ہی ظاہر ہوتی ہیں۔ مثلاً نظر کا دھندلاجانا‘ جلد کی خارش‘ جسم میں اینٹھن وغیرہ۔
اگر ان دس علامات میں سے کوئی علامت ظاہر ہوتو فوراً اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں تاکہ وہ آپ کا جلد سے جلد ذیابیطس کی تشخیص کا ٹیسٹ کرواسکے۔ یاد رہے کہ ان علامات کا ہونا ضروری بھی نہیں اس لیے بہتر ہے کہ خون میں گلوکوز کی مقدار کا معائنہ کم از کم سال میں ایک دفعہ ضرور کروایا جائے۔
ذیابیطس کی تشخیص کے لیے خون کے دو ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں۔ جنہیں Glucose Fastingاور Glucose Randomکہا جاتا ہے۔
Glucose Fastingناشتے سے پہلے کیا جاتا ہے جبکہ Glucose Rendom ناشتے کے دو گھنٹے بعد کیا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں کئی ڈاکٹرز پیشاب میں شکر کی موجودگی کی بنا پر ذیابیطس کا مریض قرار دے دیتے ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت بے انتہا ضروری ہے کہ صرف پیشاب میں شکر کی موجودگی کی بنا پر کسی بھی مریض کو یقین کے ساتھ ذیابیطس کا مریض نہیں کہا جاسکتا جبکہ ذیابیطس کی تشخیص کے لیے شکر کی مقدار کا خون میں بڑھا ہوا ہونا لازمی ہے کیونکہ پیشاب میں شکر آنے کی وجوہات ذیابیطس کے علاوہ بھی ہوسکتی ہیں۔
ذیابیطس کے مرض کی تشخیص کے لیے ایک خاص ٹیسٹ بھی کروایا جاتا ہے اس ٹیسٹ کو گلائیکوسی لینڈ ہیموگلوبن کہا جاتا ہے۔ اس ٹیسٹ کو فیصد میں ظاہر کیا جاتا ہے یعنی اس ٹیسٹ کے ذریعے گزرے ہوئے آٹھ سے بارہ ہفتوں میں خون میں گلوکوز کی سطح کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اگر اس ٹیسٹ کی سطح 6.5فیصد سے زیادہ ہو تو مریض ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہوتا ہے ، یہ ٹیسٹ ذیابیطس کے مریض کو ہر (6) چھ ماہ بعد ضرور کروانا چاہیے جبکہ ذیابیطس کے مریضوں کو مہینے میں ایک یا دو دفعہ خون میں گلوکوز کی مقدار کا معائنہ بھی ضرور کروانا چاہیے۔
نئے تشخیص شدہ ذیابیطس کے مریض اور وہ مریض جن کے خون میں گلوکوز کا کنٹرول فی الوقت بگڑا ہوا ہو یا وہ مریض جن کی اچانک خون میں شکر کی شدید کمی یا زیادتی ہوجاتی ہو اور حاملہ خواتین کو بھی دن میں تین یا چار دفعہ اور بعض حالات میں اس سے بھی زیادہ خون میں شکر کی جانچ کرانا چاہیے۔ذیابیطس کی نوعیت عام امراض سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک تاحیات مرض ہے یعنی یہ آپ کے ساتھ ہمیشہ رہنے والا مرض ہے جو مستقل علاج سے ہی قابو میں رہتا ہے۔ اسی لیے ذیابیطس کا علاج کنٹرول کہلاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس ہونے کے بعد اس پر کنٹرول بہت ضروری ہے۔ اس لیے اس مرض میں دواﺅں کے باقاعدہ استعمال کی اہمیت کسی صورت کم نہیں کی جاسکتی‘ لہٰذا ذیابیطس کے مریضوں کو اپنے معالج کی ہدایات کے مطابق ادویات استعمال کرنا چاہئیں۔ پروفیسر زمان شیخ کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کا علاج بنیادی طور پر دو طرح کی ادویات سے کیا جاتا ہے۔ ذیابیطس کی گولیاں اور انسولین ، جو انجکشن کی صورت میں استعمال کی جاتی ہے۔ ذیابیطس دوم کا علاج بہت سی ایسی گولیوں سے کیا جاتا ہے جنہیں میڈیکل سائنس کی زبان میں اورل اینٹی ڈائیبٹک ایجنٹ کہا جاتا ہے۔ یہ گولیاں کیمیائی مرکبات سے بنائی جاتی ہیں۔ ان گولیوں کا کام لبلبہ سے خارج ہونے والی انسولین کی مقدار کو بڑھانا‘ پہلے سے تیار شدہ انسولین کے کام کو بہتر بنانا ہے۔ ذیابیطس کی گولیاں دراصل ٹائپ ٹو کے ان مریضوں میں استعمال کرائی جاتی ہیں جن کے خون میں گلوکوز کی سطح کو صرف غذائی پرہیز سے کنٹرول نہ کیا جاسکتا ہو۔ ذیابیطس کی گولیوں کا استعمال ٹائپ ٹو کے مریضوں میں اس وقت شروع کروانا چاہیے جب وہ کم از کم تین ماہ پرہیزی کھانا کھانے کے باوجود اپنی ذیابیطس کو کنٹرول نہ کرسکے ہوں۔انسولین ذیابیطس اول (Type One) کے مریضوں کے لیے موثر دوا ہے۔ انسولین کو ناشتہ اور رات کے کھانے سے تقریباً آدھا گھنٹہ پہلے یا ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق (انجکشن) کی صورت میں لگایا جاتا ہے۔ انسولین دراصل جسم میں انسولین کی پیداوار یا اس کی کارکردگی میں نقص سے پیدا ہونے والی بے قابو ذیابیطس کیفیت کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ ذیابیطس اول کے مریض شروع ہی سے انسولین استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ ٹائپ ون کے مریضوں کا علاج گولیوں سے ممکن نہیں ہوتا۔
جبکہ قسم دوم ذیابیطس کے وہ مریض جن کی شوگر خون میں کافی عرصہ تک بڑھی ہوئی رہتی ہے اور اکثر ان مریضوں میں بھی لبلبہ بالکل انسولین بنانا چھوڑ دیتا ہے۔ یعنی یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان مریضوں میں بھی انسولین بنانے والے بیٹا خلیے تباہ ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا ایسے مریضوں کی شوگر دوائیوں سے کنٹرول نہیں ہوتی اور مریض کو بھی انسولین کا استعمال کروایا جاتا ہے۔ ایسے مریضوں کو میڈیکل سائنس کی زبان میں Secondary Drug Fallureیا A-Insulinemiaکہا جاتا ہے۔
ایسے مریضوں کا علاج صرف انسولین دے کر کیا جاتا ہے۔ یا انسولین اور گولیاں (Combination Therphy) ساتھ دے کر کیا جاتا ہے۔
انسولین جانوروں کے لبلبہ سے حاصل کی جاتی ہے۔ یا مصنوعی طریقے سے لیبارٹری میں تیار کی جاتی ہے۔ آج کل لیبارٹری میں پیدا کی گئی انسولین کا استعمال حیوانی انسولین کی نسبت زیادہ ہورہا ہے۔ انسولین کا استعمال 1921ءسے شروع کیا گیا تھا۔ اس کو جنیاتی انجینئرنگ کا تحفہ کہا جاتا ہے۔ انسولین کو لیبارٹری میں جراثیم سے تیار کیا جاتا ہے۔ لیبارٹری میں موجود جراثیم میں ایک مخصوص جین داخل کیا جاتا ہے جس کے بعد وہ انسولین بنانے لگتے ہیں۔
ذیابیطس کے مریضوں کے خون میں گلوکوز کی مقدار غیر معمولی طور پر کم یا زیادہ ہوجائے تو مریض میں مختلف علامات ظاہر ہوتی ہیں‘ جو بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوتی ہیں۔ اگر مریض کے جسم میں گلوکوز کی مقدار بہت کم ہوجائے تو اس حالت کو میڈیکل سائنس کی زبان میں ہائپو گلائی سیمیا (Hypoglycaemia) کہتے ہیں۔ جبکہ اگر مریض کے جسم میں گلوکوز کی مقدار بہت زیادہ بڑھ جائے تو اس حالت کو ہائپر گلائی سیمیا (Hyperglycaemia) کہتے ہیں۔ ذیابیطس کا کوئی بھی مریض ان دونوں حالتوں میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ اس لیے ہر ایک کو ان کے بارے میں ضرور باخبر رہنا چاہیے اور مریض کو یہ بھی پتا رہے کہ وہ کیا عوامل ہیں جن سے یہ بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ ان سے بچا جاسکے اور اگر کوئی مریض ان میں مبتلا ہوبھی جائے تو اسے کیا کرنا چاہیے اور کس مرحلے پر ڈاکٹر سے فوراً رابطہ کیا جائے یا مریض کو فوراً قریبی اسپتال لے جایا جائے۔
ڈاکٹر زمان شیخ نے بتایا کہ اگر مریض میں ہائپو گلائی سیمیا کی شدت معتدل ہو تو یہ علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ کمزوری ‘ شدید بھوک ‘ پسینہ ‘ نیند‘ جسم میں لرزش یا کپکپاہٹ ‘ بے چینی‘ موڈ تیزی سے بدلنا اور چڑچڑاہٹ وغیرہ۔ معتدل ہائپوگلائی سیمیا کی حالت میں مریض کو میٹھی اشیا اور فوری طور پر پیٹ بھر کے کھانا کھلانا چاہیے یا چینی یا گلوکوز کھلانا چاہیے۔ اگر کسی مریض میں ہائپو گلائی سیمیا بہت شدید ہو یعنی مریض کے جسم میں گلوکوز کی مقدار (20سے 30ملی گرام) خطرناک حد تک کم ہوجائے تومریض شدید چکر‘ گھبراہٹ اور بے چینی محسوس کرتا ہے۔ اس حالت میں مریض بے ہوش ہوسکتا ہے اور مریض کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ اگر مریض ہوش میں ہو تو اسے فوراً میٹھا مشروب پلانا چاہیے اور اگر بے ہوش ہوجائے تو فوراً اسپتال لے جانا چاہیے۔ ہائپوگلائی سیمیا مریض میں مندرجہ ذیل کاموں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ انسولین لگانے کے بعد‘ اگر کھانا چھوڑا جائے یا دوائیاں یا انسولین لینے کے بعد کھانا کھانے میں دیر ہوجائے‘ سخت قسم کی مشقت کرنے کے بعد‘ خالی پیٹ الکحل پینے کے بعد‘ ذیابیطس کی ادویات کھانے کے بعد‘ ہائپوگلائی سیمیا سے بچنے کے لیے ذیابیطس کے مریضوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنے پاس ہر وقت‘ چینی‘ چاکلیٹ‘ میٹھے بسکٹ اور ڈیکٹروس کی گولیاں ضرور رکھیں۔ جبکہ ذیابیطس کے مریضوں میں ہائپرگلائی سیمیا (Hyperglycaemia) ہونے کی صورت میں تین طرح کی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔
ہائپر اوسمولر (Hypersosmolar): یہ عموماً ٹائپ ٹو (قسم دوم) ذیابیطس کے مریضوں میں ہوتا ہے اور زیادہ تر بوڑھے اور درمیانی عمر کے لوگوں میں ہوتا ہے۔ اس میں مریض کے جسم میں گلوکوز کی مقدار بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور انسولین کی شدید کمی ہوجاتی ہے۔ اس میں مریض کے جسم میں پانی کی شدید کمی اور پیشاب کی زیادتی ہوجاتی ہے۔ اس لیے مریض کو پہلے 24گھنٹوں میں ڈرپ کے ذریعے 6سے 8لیٹر پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
ڈائبیٹک کیٹو ایسی ڈوسز (Diabetic Ketoacidosis): اس حالت میں مریض کے جسم میں انسولین کی شدید کمی ہوجاتی ہے اور گلوکوز کی مقدار خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے اور جسم کے پٹھے چکنائی کے خلیے گلوکوز کو جذب کرنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔ اس حالت میں بھی جسم میں پانی کی شدید کمی اور پیشاب کی زیادتی ہوجاتی ہے۔ مریض کے جسم میں کیٹون کی مقدار بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور خون میں تیزابیت بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو مریض بے ہوشی میں چلا جاتا ہے اور بعض اوقات مریض کی موت بھی واقع ہوجاتی ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں میں (DKA) کی حالت اس وقت ہوتی ہے جب مریض کو جسم میں شدید انفیکشن ہوا ہو اور مریض نے انسولین نہیں لگوائی ہو۔ یہ عموماً ٹائپ ون ذیابیطس کے مریضوں کو ہوتا ہے۔ اس حالت کی خاص علامت یہ بھی ہے کہ مریض کی سانس میں سر کے کی بُوسی محسوس ہوتی ہے۔
ڈائبیٹک لیکٹ ایسی ڈوسز(Diabetic Lactacidosis):یہ عموماً ٹائپ ٹو ذیابیطس کے مریضوں میں ہوتا ہے۔ اس میں مریض سانس بہت تیز تیز لیتا ہے۔ اس کیفیت میں بھی مریض کے خون میں گلوکوز کی مقدار بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور انسولین کی شدید کمی ہوتی ہے۔ اس میں بھی بہت شدید تیزابیت ہوتی ہے‘ اور مریض بے ہوش ہوجاتا ہے۔ یہ عموماً ذیابیطس کے ان مریضوں کو ہوتا ہے جو گردے اور دل کے امراض میں مبتلا ہوتے ہیں اور جو لوگ الکحل استعمال کرتے ہیں ۔ ذیابیطس کے ایسے مریض جو ذیابیطس کی غلط دوائیاں استعمال کرتے ہیں وہ بھی اکثر اس کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ذیابیطس کے حامل افراد کے لیے خطرے کی کیا علامات ہیں؟ ذیابیطس کے حامل افراد میں اعصابی کمزوری کی صورت میں (Nerve) پیروں کے مسائل یا پیروں کے امراض ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے آپ کو چاہیے ایسی صورت میں اپنے ڈاکٹر سے باقاعدہ معائنہ کروائیں۔ اگر آپ کے اعصاب کے ٹیسٹ کے نتیجے میں یہ ظاہر ہے کہ آپ اعصاب کے مرض میں مبتلا ہیں یا آپ کے اعصاب کمزور ہیں تو آپ پیروں کے امراض یا مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں باوجود اس کے کہ آپ کی ذیابیطس کا کنٹرول اچھا ہے۔ لہٰذا اپنے پیروں کا ہر ماہ معائنہ ضرور کروائیں۔
اگر آپ 10(دس) سال سے ذیابیطس کی کیفیت کا شکار ہیں اور آپ کی عمر 60سال سے زائد ہے تو آپ کو پیروں کے مسائل ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ آپ اپنے ذیابیطس کے ڈاکٹر یا پیروں کے علاج کے ماہر ڈاکٹر سے فوری رابطہ کریں۔اپنی خون کی شکر کی مقدار کو مطلوبہ نتائج کے قریب رکھنے کی کوشش کریں۔ آپ کے لیے مطلوبہ نتائج کیا ہیں ان کا تعین کرنے کے لیے اپنے معالج سے رجوع کریں۔اپنے بلڈ پریشر (فشار خون) کو قابو میں رکھیں۔معائنے کے لیے اپنا ذیابیطس کا ریکارڈ (ادویات کا پرچہ اور خون میں شکر کے نتائج) ساتھ لے جانا نہ بھولیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں