میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سرشاری بمقابلہ تکبر

سرشاری بمقابلہ تکبر

ویب ڈیسک
پیر, ۱۶ اکتوبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جونہی افغانستان میں دنیاکی ایک سپرپاورسوویت یونین کوافغان مجاہدین کے ہاتھوں ناقابل یقین شکست کے بعدبالآخراسی کے بطن سے چھ مزیدمسلم ریاستوں کاوجودمعرضِ وجود میں آیامگربدقسمتی سے افغانوں کی اس عظیم الشان فتح کاسارافائدہ امریکا اورمغرب کی جھولی میں جاگراجس کے بعدبدنام زمانہ امریکی یہودی سیکریٹری خارجہ ہنری کسنجرکے خفیہ ”ورلڈآرڈر”کابھی انکشاف ہوگیاکہ دنیاپرمکمل حکمرانی کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیرنہیں ہوسکتاجب تک مسلمانوں کے اندرسے اسلامی ریاست اوراس کے حصول کیلئے جہادکے تصور کو بزور طاقت ختم نہیں کردیاجاتا۔یہی وجہ ہے کہ اپنے ان مکروہ مقاصدکے حصول کیلئے اب تک عالم اسلام میں خانہ جنگی کاخونی ماحول جاری و ساری ہے۔ امریکااورمغرب اپنے مقاصدمیں پے درپے ناکامیوں سے بری طرح نہ صرف جھنجلا گئے ہیں بلکہ اب امریکاکی طرف سے ننگرہارافغانستان میں سب سے بڑے غیرجوہری بم کے حملے بعدشمالی کوریا کی آڑمیں چین اورروس کوخوفزدہ کرنے کیلئے جہاں کوریائی سمندی خطے میں بین ال البراعظمی ایٹمی میزائل پھینک کرقصرسفیدکے فرعون نے اپنے چہرے سے نقاب اتارپھینکا، وہاں اسرائیل نے دمشق کے بین الاقوامی ہوئی اڈے کے قریب واقع فوجی اڈے پرحزب اللہ کے اسلحے کے ڈپوکوتباہ کرکے کھلی بربریت کرکے واضح پیغام بھی دیا تھا۔اس کے بعدایک طویل عرصہ تک شام کوخانہ جنگی کاسامناکرناپڑاجس میں بدقسمتی سے کچھ اہم مسلمان ملکوں نے منافقت کاشرمناک کرداراداکیا۔اب ایک مرتبہ پھرمحصورغزہ اورظالم صہیونی اسرائیل کی اچانک جنگ کے بعدمحسوس ہورہاہے کہ کیاواقعی دنیا بڑی تیزی کے ساتھ پتھرکے دور کی طرف لوٹ رہی ہے؟
صرف سمجھانے کیلئے ایک لمحے کیلئے فرض کرلیتے ہیں کہ اسلامی تنظیموں کی جانب سے امریکااورمغرب کے خلاف جنگ کاسلسلہ بدستور جاری ہے،ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ اسلام کے نام پرگزشتہ عشروں کے دوران کیے جانے والے تمام حملے اسی جنگ کاایک ناگزیرحصہ تھے اوریہ کہ موجوہ تصادم جواب تقریبا50ممالک سے زائد تک پھیل چکاہے اور لاکھوں افرادکی جانیں لے چکاہے جس میں سرفہرست افغانستان، عراق”’عرب بہار”کے نام پرلیبیا،تیونس میں امریکااوراس کے اتحادیوں کی یکطرفہ جارحیت،مسلمانوں کی آپس میں باہمی خونریزی (شام)کے واقعات اوراب مظلوم غزہ بھی شامل ہیں،یہ سب کچھ اس اعلان جہادکافطری نتیجہ ہے جوان تنظیموں نے شروع کر رکھاہے۔اگرفی الواقع ایسی جنگ جاری ہے توواقعات اورشواہدکودیکھتے ہوئے10/اسباب اوروجوہ ایسی ہیں جن کی بناپراسلام اور مسلمانوں کے خلاف امریکااوراس کے تمام اتحادیوں کی طرف سے جاری یہ جنگ کبھی کامیابی سے ہمکنارنہیں ہوپائے گی !یہ اسباب اور وجوہ درج ذیل ہیں۔
1۔غیرمسلم دنیاموجودہ واقعات کے جوازاورعدم جوازکے حوالے سے باہمی طورپراورسیاسی اعتبارسے بھی مکمل طورپرمنقسم ہے۔ان میں سے بعض غیرمسلم ممالک توایسے ہیں جنہوں نے ایسی کسی بھی جنگ کے وجود کوتسلیم کرنے سے یکسرانکارکردیاہے چنانچہ ان کے خیال میں ایسی کوئی جنگ کہیں بھی لڑی نہیں جارہی اوروہ اس بنیادپر اسے مسترد کرتے ہیں جبکہ ان کے برعکس چند ممالک اوراقوام جوجارج بش جونیئر کے ہمنواتھے کہ جوجنگ ہم لڑ رہے ہیں وہ اکیسویں صدی کی ایک فیصلہ کن نظریاتی جنگ ہے،چنانچہ ان منقسم اور متضاد آراء اور خیالات نے اس معاملے کو مذاکرات مکالمے اورگفت وشنیدسے لے کرجوہری ہتھیاروں تک کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیااورپبلک ڈپلومیسی سے لے کرمسلمانوں کے اہم ترین مقامات پرقبضے کامشورہ بھی دیاجن میں مکہ کامقدس شہربھی شامل ہے۔اس اختلافِ رائے نے ان دوطرح کے طبقات کے مابین مسئلے کوحل کرنے کی غرض سے بھی ایک وسیع خلیج پیداکررکھی ہے۔ چنانچہ ایک طبقے کا خیال ہے کہ اس جنگ کوبراہ راست مخالف جنگجوگروپوں تک لے جاناصحیح ہوگاجبکہ دوسرا گروہ اس خیال کامخالف ہے۔اس کاکہناہے کہ ایسی کسی بھی جنگ کاخواہ وہ داخلی شہری آزادیوں کے حوالے سے لڑی جائے یا پھر حریفانہ جیو پولیٹکل اندازوں کے پیش نظرجاری رکھی جائے،ہردوصورتوں میں ایسی کسی بھی جنگ کابظاہرکوئی جوازاور فائدہ نظرنہیں آتا۔بالآخرافغانستان سے امریکااوراس کے 50اتحادیوں کے رسواکن انخلا نے یہ ثابت کر دیاکہ طاقت کے زورپریہ ممکن نہیں۔
2۔واقعات اورشواہدکے پیش نظراسلام کوکسی بھی قیمت پرشکست سے دوچارنہیں کیاجاسکتا۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی عالمی برادری اوردنیابھرکے مسلمانوں کی مجموعی قوت،طاقت اوراستطاعت کاابھی پوری طرح سے کوئی اندازہ نہیں لگایاگیا۔اس کے برعکس اس کی اہمیت کوگھٹاکردیکھااورپیش کیاجارہاہے۔اسلام کی نوعیت فطرت اور سرشت کوٹھیک طور سے سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی،نہ ہی یہ امن کا مذہب ہے نہ اس مذہب کوکسی نے ہائی جیک کیاہے اورنہ ہی بعض لوگ اسے اپنے محض اغراض ومقاصداور مفادات کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ اس کے برعکس اس مذہب کااخلاقی نظام جہادی اخلاقیات اورکسی بھی غیراسلامی نظام اقدارکے ساتھ عدم اشتراک کارویہ آپس میں مل کراس مذہب کی تعریف کاتعین کرتے ہیں اورقران میں بھی اس کاجوازموجودہے۔آپ روایتی اصطلاحات کااستعمال کرتے ہوئے اسلام کومحض ایک مذہب بھی قرارنہیں دے سکتے یہ ایک ماورائے قوم سیاسی اوراخلاقی تحریک ہے جس کے مطابق بنی نوع انسان کے تمام مسائل کاکافی اورشافی حل اس کے پاس موجودہے چنانچہ اسلام کی رو سے یہ بات خود انسانیت اوربنی نوع انسان کے اپنے مفادمیں ہے کہ وہ اسلامی حکومت کے اندراسلام کی حکمرانی کے تحت اپنی زندگی بسرکریں اس طرح مغرب کی جانب سے مسلمان ممالک میں مغربی جمہوریت کی بحالی اورفروغ کاتصورمحض مہمل اوربے معنی ہوکررہ جاتاہے۔حقیقت یہ ہے کہ مغربی جمہوریت کاتصور اسلامی تعلیمات کے تناظرمیں قطعی طورپرناقابلِ تسلیم ہے۔اس کاثبوت خوداسلامی تاریخ میں بھی موجودہے۔اسی طرح اسلامی تحریک کے فوجی اورسیاسی بازؤں کوبھی ایک دوسرے سے علیحدہ اورالگ کرنے کاتصوربھی خاصامضحکہ خیز نظرآتاہے۔ اس حوالے سے امریکی وزیردفاع ڈونلڈ رمسفلیڈ کایہ بیان احمقانہ تھاکہ عراق میں لڑنے والے باغی مسلمان کسی بھی وژن سے محروم ہیں اسی لیے وہ شکست خوردہ ہیں ۔ وقت نے یہ ثابت کردیاکہ اس جنگ میں اگرواقعی اسے جنگ کہاجاسکتاتھاتواس میں حقیقی شکست ان لوگوں کوہوئی جواس جنگ کو چھیڑنے کے ذمہ دارتھے۔
3۔اسلام کے مغرب کے مقابل ناقابل شکست ہونے کاتیسرا سبب یہ ہے کہ مغربی قیادت کی سطح جتنی بلند ہونی چاہیے تھی اس قدر بلند نہیں۔ اس کے برعکس اس کی سطح بہت نیچی ہے بالخصوص گزشتہ دودہائیوں سے امریکی قیادت پرتویہ بات بالکل صادق آتی ہے۔یاد کیجیے اسلامی احیااورنشا ةالثانیہ کی نصف صدی کے دوران سفارتی سیاسی اورعسکری اعتبار سے اسلامی حکومتیں اپنے عروج پرتھیں،اس کے برعکس گزشتہ کئی دہائیوں سے امریکی حکومت اورانتظامیہ کے پاس کوئی اسٹرٹیجک سمت موجودنہیں ہے نہ ہی اس کے جنگی منصوبے کسی مشترکہ غوروخوض کے نتیجے میں جنگی ضروریات کودیکھ کربنائے گئے حتی کہ اپنے مقاصدکی وضاحت کیلئے اس کے پاس موزوں اورمناسب زبان اورذریعہ اظہاربھی موجودنہیںہے! یہاں مشہور فلسفی اینڈمنڈبرک کامارچ1775 کایہ قول یادآرہاہے”ایک عظیم الشان سلطنت اورچھوٹے دماغ ایک دوسرے کے ساتھ کبھی نہیں چل سکتے”۔ چنانچہ اسلام کے خلاف اس جنگ میں اگرواقعی اسے جنگ کہا جاسکے،مجھے برک کایہ قول سچ ہوتادکھائی دے رہاہے کہ ایک عظیم الشان سلطنت چھوٹے دماغوں کے ساتھ کبھی نہیں چل سکے گی۔
4۔ چوتھا سبب مغربی پالیسیوں کا ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہ ہوناہے۔ان پالیسیوں کی انانیت کی کشمکش کوعجلت کے نتیجے میں ان افرادنے تیارکیاجواسلام کے حوالے سے نہایت اشتعال انگیزرویوں کے حامل ہیں۔ان لوگوں میں اسلام سے خوفزدہ افراد بھی شامل ہیں جو اسلام کے نام پریہ پالیسیاں وضع کررہے ہیں۔اس محاذجنگ کوبھی یہ پالیسی ساز افراداپنی ذات کے فروغ کی غرض سے استعمال کررہے ہیں اوران میں سے بیشترکاخیال ہے کہ ان کی آراء اورخیالات بے حداہمیت کے حامل ہیں بہ نسبت ان مسائل کے جن کے بارے میں وہ یہ پالیسیاں وضع کررہے ہیں۔چنانچہ یہ اسی بدحواسی اورخودپرستی کانتیجہ ہے کہ مغربی پالیسیاں کسی مستقل اورباقاعدہ نوعیت سے محروم اورناکام ہیں۔
5۔پانچواں سبب ترقی پسند حلقوں کے ذہن میں موجودوہ کنفیوژن ہے جس کاتعلق اسلام کی ترقی فروغ اورپیش رفت کے حوالے سے ہے۔کمیونزم سوشلزم اورسوویت روس کے زوال کے بعدیہ ترقی پسندافراداپنی بنیادی اوراصل شناخت سے محروم ہوچکے ہیں لیکن رسی جل جانے کے بعدان کے بل نہیں گئے چنانچہ وہ آج بھی نوآبادیاتی نظام کے مخالفانہ مؤقف پرہی انحصارکرنے پر مجبورہیں۔بہرطورمغرب کے ان مسائل کوبھی اس کے نوآبادیاتی ماضی کاایک لازمی نتیجہ قراردیناایساکچھ غلط بھی نہیں ہے۔ تاہم اس کے باوجوداسلامی احیااورنشا ةالثانیہ کی اندرونی قوت اورداخلی طاقت کوبھی نہ سمجھناایک زبردست غلطی ہوگی۔یہ طاقت اورقوت نوآبادیاتی نظام کاشکاررہنے کے نتیجے میں نہیں پیداہوئی بلکہ اس کاتمام ترانحصاراپنے عقیدے کی بڑھتی ہوئی قوت اوراپنے عقائدکے نظام کی حقانیت پرہے۔مزید برآں یہ بات بھی اسلام کے حق میں جاتی ہے کہ آج کے بیشترترقی پسندوں کے پاس بھی روایتی طورپراسلام کے رجعت پسندانہ اورفرسودہ تصورات کے بارے میں کہنے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے نہ ہی وہ اپنے مخالفین کے سلسلے میں اسلام کے مظالم کاذکرکرتے ہیں نہ ہی خواتین کے ساتھ بدسلوکی کاکوئی تذکرہ ان کی زبانوں پر آتاہے۔یہودیوں اورہم جنس پرستوں سے اس کی شدیدنفرت پربھی اب کوئی تبصرہ نہیں کیاجاتاجن کے خلاف اسلام میں پورا منصفانہ جوازموجودہے۔
6۔اسلام کی روزافزوں بڑھتی ہوئی قوت اورطاقت کاایک اہم سبب ان غیرمسلموں کاپراسراررویہ اوراظہارِاطمینان ہے جن کا تعلق امریکاکی پسپائی سے بتایاجاتاہے چنانچہ ایسے غیرمسلم جواس قسم کے اطمینان کااظہارکررہے ہیں درحقیقت ٹروجن گھوڑے ہیں جن کی تعدادروزبروزبڑھتی جارہی ہے۔ان میں بعض اس اصول پرعمل پیراہیں کہ دشمن کادشمن دوست ہوتاہے جبکہ دیگرکاخیال یہ ہے کہ وہ اسلام کے خلاف مغرب کی اس جنگ میں کسی بھی صورت میں مغرب کی حمایت نہیں کریں گے ،وہ سمجھتے ہیں کہ ان کافیصلہ بالکل درست اورصحیح ہے۔تاہم ان تمام حقائق کے باوجودنتائج ان سب کیلئے یکساں ہی ہیں۔اسلام کی پیشرفت کے نتائج کویہ دونوں طبقات یکساں طورپربھگتنے کیلئے مجبورہیں۔
7۔مغرب کی اخلاقی غربت اوراخلاقی اقدارکے مجموعی نظام کے افلاس میں مضمرہے بالخصوص امریکاکااخلاقی نظامِ اقدار زوال اورتباہی کی حدوں کوچھورہاہے چنانچہ آزادمنڈی کی معیشت آزادانہ انتخاب تجارتی مقابلہ اورکاروباری مسابقت کووہاں آزادی اورلبرٹی کانیانام دیاگیاہے۔ان چیزوں کااسلام اوراس شریعت سے قطعاکوئی مقابلہ نہیں کیاجاسکتا خواہ آپ اسے پسند کریں یانہ کریں۔اسلام کے اخلاقی نظامِ اقدارمیں ایسی چیزوں کی کوئی گنجائش موجودنہیں ہے۔تعجب خیزواقعہ تویہ ہے کہ دلوں اور دماغوں کے نام پرجوجنگ لڑی جارہی ہے اسی کے دوران امریکاکی پہلی کیولری ڈویژن نے آدم اسمتھ آپریشن کاآغازکرتے ہوئے عراق جیسے جنگ زدہ ملک کوتجارتی اورکاروباری مارکیٹنگ کے اسرارو رموز سکھاناشروع توکردیے مگران حالات اورحقائق کی روشنی میں کم ازکم امریکاکوتووہاں کامیابی اورفتح حاصل نہیں ہوسکی۔یہاں مجھے شیخ محمد الطباطبائی کے وہ الفاظ یادآرہے ہیں جوانہوں نے مئی2003میں بغدادکی ایک مسجدکے نمازیوں سے خطاب کے دوران کہے تھے:مغرب ہمیشہ آزادی اورخودمختاری کی دہائی دیتارہتاہے۔اسلام ایسی کسی آزادی کوتسلیم نہیں کرتا۔اصل آزادی اللہ تعالی کی عبادت اوراطاعت ہی میں مضمرہے۔
8۔آٹھواں سبب اسلام کے ناقابل شکست ہونے کا یہ ہے کہ اس کی موجودہ پیش رفت ترقی اورآگے ہی آگے بڑھتے رہنے کی رفتاراسی طرح بدستورجاری رہے گی کیونکہ اس غرض اورمقصد سے دستیاب ذرائع ابلاغ کوبڑی خوبی اورمہارت کے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی ویب سائٹ کے ذریعے الیکٹرانک جہادکے فروغ کے علاوہ مغربی نظریات کے پرچارکی مسلمان علمااوراسکالرزکی جانب سے شدیدمخالفت بھی جاری ہے۔آپ اسے درپردہ ایک سیاسی شراکتی معاہدہ بھی کہہ سکتے ہیں جومسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین اسلام کے عالمی نقطہ نظرکی پہنچ کووسیع ترکرنے کی غرض سے عمل میں آچکاہے۔اس سلسلے میں مغرب کے پروڈیوسرزاوربراڈ کاسٹرزکی جانب سے الجزیرہ ٹی وی چینل کوفراہم کی جانے والی مددکا تذکرہ بطورحوالہ پیش کیاجاسکتاہے۔
9۔نواں سبب جواسلام کی مزید پیش رفت کاضامن ہے وہ ہے مسلم ممالک اورعربوں کے مادی اورمعدنی ذرائع اوروسائل پر امریکاکاکلی انحصار! یاد رہے کہ اپریل1917میں سابق امریکی صدرروڈروولسن نے امریکی کانگریس کویہ مشورہ دیاتھا کہ وہ جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کردے جس کے بارے میں وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ یہ جنگ چھیڑنے میں ہمارا کوئی ذاتی مفاداورمقصدپوشیدہ نہیں ہے۔اس وقت تو اس نوعیت کااعلان جنگ ممکن بھی تھالیکن آج کی تبدیل شدہ صورتحال اس بات کی ہرگزاجازت نہیں دے گی کیونکہ امریکا کی صارفانہ
احتیاج اورمختلف شعبوں میں کیے جانے والے معاشی اوراقتصادی نوعیت کے اقدامات اورضروریات لامتناہی حدتک بڑھ چکی ہیں جن کیلئے اسے مسلم اورعرب ممالک کے ذرائع اوروسائل پرکلی انحصارکرناپڑتاہے چنانچہ آج کے امریکاکامکمل انحصارمشرقِ وسطی میں موجودتیل کے کنوؤں سے برآمدہونے والے تیل کے ایک ایک بیرل تک ہی محدود ہوکررہ گیاہے اورمستقبل میں بھی یہ صورتحال جوں کی توں رہے گی چنانچہ وہ اس حیثیت میں ایسا کوئی خطرہ مول لینے کیلئے تیارنہیں ہوگا۔
10۔آخرمیں مغرب کواس بات کاپورایقین ہوچلاہے کہ ٹیکنالوجی پرمبنی مغربی معاشرے کاجدید ترین لائف اسٹائل اورمنڈی کی معیشت پرمبنی اس کی اقتصادی ترقی اورپیش رفت بالآخرپسماندہ اورقدامت پرست اسلام کے تصورات کی بہ نسبت زیادہ ترقی یافتہ اعلیٰ اور برتر ہے، یہ بھی مغرب کی ایک پرانی غلط فہمی یاخوش فہمی ہے۔1899میں سابق برطانوی وزیراعظم سرونسٹن چرچل نے اس خیال کااظہارکیاتھاکہ پوری دنیامیں اسلام سے زیادہ رجعت پسندی کسی بھی مذہبی نظریے میں موجودنہیں ہے۔ بہرطورایک صدی سے زائدکاعرصہ گزرنے کے بعد آج امریکااورمغرب کواس بات پرپختہ یقین ہے کہ جدید ترین ہارڈویئر اسلحہ اوراسٹاروار کے دفاعی حربے ان کواس جنگ میں فتح سے ہمکنار کردیں گے لیکن یہ اس صدی کی سب سے بڑی خوش فہمی یاغلط فہمی ہوگی۔
اس کاواضح ثبوت حالیہ حماس کے”طوفانِ اقصیٰ”حملے ہیں جنہوں نے دنیابھرپراسرائیلی پروپیگنڈے کی قلعی کھول دی ہے کہ دنیابھرمیں سب سے زیادہ طاقتوراس کی انٹیلی جنس ہے جواڑتی چڑیاکے چونچ کے ارادوں سے بھی باخبرہوتی ہے۔دنیاکے تمام دفاعی تجزیہ نگارانگشت بدنداںہیں کہ یہ سب کیسے ہوگیا؟حماس کے جنگجوؤں کی چونکادینے والی برق رفتاری نے اسرائیلی دفاعی نظام کوخاک میں ملا دیا اور 800 سے زائداسرائیلی فوجی جس میں ان کے جنرل بھی شامل ہیں،آج غزہ کے مختلف کونوں میں ان مجاہدوں کی قیدمیں ہیں۔حماس کے حملے کا سب سے اہم پہلو”سرپرائز”تھایعنی اسرائیل کواس کی بالکل خبرنہ تھی۔اسرائیلی خفیہ اداروں کوحماس کے اس حملے کی منصوبہ بندی کی بِھنک بھی نہیں پڑسکی۔ یقینااسرائیل اپنی اس بے خبری کی کئی تاویلیں پیش کرے گالیکن دنیابھرمیں یہ رسوائی اس کے ماتھے پرکنندہ ہوکررہ گئی ہے۔حماس نے اپنے پلان کی کامیابی کیلئے ہزاروں راکٹ برساکرجوخوفناک آغازکیا،اسرائیلی آسمان سے برستی ہوئی آگ سے اس قدربوکھلا گئے کہ انہیں سنبھلنے کاموقع ہی نہ مل سکا۔ حماس کے جنگی پلان تیارکرنے والوں نے بیک وقت ڈرون حملوں سے اسرائیل کی جانب سے غزہ پرنظر رکھنے کیلئے نصب آلات پرحملوں سے انہیں ناکارہ بنادیااورفوری سکیورٹی رکاوٹوں میں دھماکوں اورگاڑیوں کی مدد سے80سے زیادہ مقامات پرراستہ بنالیا۔گلائیڈرزاورموٹرسائیکلوں پرسوارتقریبا800سے ایک ہزار مسلح افرادسیلاب کی طرح غزہ سے نکل کراسرائیل میں متعدد مقامات پرپھیل گئے۔حماس کی کامیاب حکمت عملی اسرائیلی دفاعی نظام پرحاوی ہونے میں مددگارثابت ہوئی جس نے اسرائیلی کمانڈاورکنٹرول مراکزمیں کھلبلی مچادی جس کے بارے میں اسرائیل نے مشہورکررکھاتھاکہ یہ دشمنوں کے خوابوں کوبھی کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔
حماس کے جنگجوؤں نے عام اسرائیلی شہری آبادیوں کوکوئی گزندپہنچائے بغیران فوجی چوکیوں اوراڈوں کونشانہ بنایاجہاں آئے روز معصوم
اوربے گناہ فلسطینیوں پرظلم وستم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے اوراسرائیل کے حامیوں نے ان مظالم پرآنکھیں بندکر رکھی تھیں۔یہ امربھی حیران کن ہے کہ چند فوجی چوکیوں پراتنی آسانی سے قبضہ کرلیاگیاکہ اسرائیلی ٹینک تک حماس کے قبضے میں تھے۔حماس کی ایک اورکامیابی یہ بھی رہی کہ اپنے مختصرقبضہ کے دوران انہوں نے باآسانی اسرائیلی یرغمالیوں کوغزہ کی پٹی میں نامعلوم مقامات پرلیجانے میں کامیاب ہو گئے۔ حماس نے ان تمام قیدیوں کی زندگی کی ضمانت اوران کی بہتردیکھ بھال کی ضمانت تودی ہے لیکن اسرائیلی حملوں کے جواب میں اگریہ قیدی ہلاک ہوجاتے ہیں تواس کی ذمہ داری اسرائیل پرہوگی۔
طویل عرصے سے اسرائیلی فوج اورخفیہ ادارے مشرق وسطیٰ میں ہی نہیں بلکہ دنیابھرمیں دفاعی صلاحیت کے اعتبارسے اوّلین صف میں شامل کیے جاتے ہیں لیکن حماس کے مجاہدوں نے اسرائیل کے اس تمام پروپیگنڈے کے غبارے کوپھوڑکردنیا کوباورکرادیاکہ ظلم وستم اورطاقت کے بل بوتے پرصرف اپنی زندگی سے محبت کرنے والوں کامقابلہ جب موت کے ہاتھ پربیعت کرنے والوں سے ہو گا تو نتائج ”سرپرائز”کی صورت میں ہی نکلیں گے۔قطرنے بیک ڈورچینل پرمذاکرات کاآغازکردیاہے لیکن اس بات کی کون ضمانت دے گاکہ اقوام متحدہ کی طرف سے”دوریاستی نظام”پرعملدرآمدکون کروائے گا؟
جون 2004میں سعودی عرب کے مشہوراسکالرسلیمان العمرنے یہ اعلان کیاتھاکہ اسلام ایک خاص منصوبے کے تحت رفتہ رفتہ پیش رفت کررہاہے جوایک دن مغرب اورامریکا کی مکمل شکست وریخت اورتباہی وبربادی کاباعث بن جائے گا۔آج جو حقائق اورصورتحال ہمیں نظرآرہی ہے اوراسلام کوشکست نہ ہونے کے جو10/اسباب بیان کیے ہیں ان کی روشنی میں حالیہ حماس اوراسرائیل کے درمیان خونخوارجنگ کے تناظرمیں سعودی اسکالرسلیمان العمرکادعویٰ بالکل صحیح اوردرست معلوم ہوتاہے۔اس کیلئے اب انتہائی ضروری ہو گیا ہے کہ عالم اسلام کے ساتھ فوری بہترتعلقات بنانے کیلئے مغرب اورامریکاکواپنے ناجائزبچے اسرائیل کی تائیدمیں بحری بیڑہ بھیجنے کی بجائے منصفانہ امن کیلئے پہل کرنے میں تاخیر نہیں کرناچاہئے اوران پرہونے والے مظالم کاخاتمہ کرنے کیلئے ان کے دیرینہ مسائل(فلسطین اور کشمیر) کے منصفانہ حل میں مزیدتاخیرنہ روارکھی جائے۔نجانے کیوں مجھے حضرت خالدبن ولیدکا قول بڑی شدت سے یادآرہاہے جوانہوں نے اس وقت کی سپرطاقت رومیوں کومخاطب کرکے کہاتھا:یادرکھو!تم اپنی تعداداوراسلحے کے گھمنڈپرنہ رہنا،جان لو ! تمہارامقابلہ آج اس قوم سے ہے جسے موت اتنی ہی عزیزہے جتنی تمہیں زندگی!
جوکوئی زمین میں ہے،فناہونے والاہے اورباقی رہے گی ذات تیرے رب کی بزرگی اورعظمت والی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں