مسلم ممالک حماس کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں!
شیئر کریں
اسرائیل نے غزہ شہر کے تمام لوگوں سے کہا ہے کہ وہ ممکنہ زمینی حملے سے قبل حفاظت کے لیے اگلے 24 گھنٹوں میں غزہ کی پٹی کے جنوبی حصے میں منتقل ہوجائیں۔حماس کا کہنا ہے کہیں نہ جائیں۔ حماس کے ایک عہدیدار نے غزہ کے شمال میں رہنے والے لوگوں کو جنوب میں منتقل کرنے کے اسرائیل کے حکم کو ’جعلی پروپیگنڈا‘ قرار دیا ہے اور وہاں کے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ اسے نظر انداز کریں۔اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے ایسا کرنا ناممکن ہے۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل سے اس حکم نامے کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شمالی غزہ کے 11 لاکھ افراد کو نقل مکانی کے لیے کہا گیا ہے جو ’ناممکن‘ ہے۔اسرائیل کی جانب سے غزہ کی ساحلی پٹی کے شمالی نصف حصے میں رہنے والے تمام فلسطینیوں کو 24 گھنٹوں کے اندر جنوب کی جانب منتقل ہونے کا حکم ’سیفٹی اینڈ پروٹیکشن‘ کے نام سے جاری کیا گیا۔اقوام متحدہ کے بقول یہ ’تباہ کن انسانی نتائج‘ کی وجہ بن سکتا ہے۔ایک دن میں دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو منتقل کرنا بھی ممکن نہیں ہے، سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ بم گر رہے ہیں، گھر تباہ ہو چکے ہیں، بوڑھوں اور بیماروں کو مدد کی ضرورت ہے۔دنیا کے سب سے گنجان آباد علاقوں میں سے ایک مکمل طور پر ناقابل رہائش ہو جائے گا۔ اگرچہ یہ پہلے سے ایسا ہو چکا ہے۔غزہ سٹی میں فلسطینی ہلال احمر کے ترجمان نیبل فرسخ کا کہنا ہے کہ شمالی غزہ سے 24 گھنٹوں کے اندر دس لاکھ افراد کو بحفاظت منتقل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔انھوں نے بتایا ’ہمارے مریضوں کا کیا ہوگا؟ ہمارے لوگ زخمی ہیں، ہمارے پاس بوڑھے ہیں، ہمارے بچے ہیں جو ہسپتالوں میں ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ طبی عملے کے ارکان ہسپتالوں کو خالی کرنے اور مریضوں کو چھوڑنے سے انکار کر رہے ہیں۔انھوں نے کہا ’لوگوں کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ پورے علاقے میں بمباری کی آوازیں سننا اور لوگوں کو انفراسٹرکچر اور سڑکوں کی اس بڑی تباہی اور نقل و حرکت پر پابندیوں کے ساتھ خود کو دوسرے علاقے میں منتقل کرنے کے لیے کہنا ناقابل یقین ہے۔اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق غزہ کے اندر بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 423,000 تک پہنچ گئی ہے، جو اپنے محلوں اور گھروں پر پرتشدد اور شدید فضائی حملوں کے بعد پٹی میں اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 1,600 تک پہنچ گئی ہے، جن میں سے ایک تہائی بچے تھے۔ صرف گزشتہ رات ہی 120 افراد ہلاک ہوئے اور انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیل پر غزہ اور لبنان میں سفید فاسفورس استعمال کرنے کا الزام لگایا۔اقوام متحدہ کے انسانی امور کے ادارے (او سی ایچ اے) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جمعرات کی شام تک گنجان آباد سیکٹر میں بے گھر ہونے والوں کی تعداد میں تقریباً 100,000 کا اضافہ ہوا ہے۔حماس کے ایک عہدیدار نے غزہ کے شمال میں رہنے والے لوگوں کو جنوب میں منتقل کرنے کے اسرائیل کے حکم کو ’جعلی پروپیگنڈا‘ قرار دیا ہے اور وہاں کے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ اسے نظر انداز کریں۔
اسرائیل کی طرف سے غزہ کی پٹی کے رہا ئشیوں کا پانی، بجلی،خوراک، ایندھن بند کرنا قبیح جرم اور انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی ہے جس کے خلاف ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر تنظیموں کو آواز اٹھانا ہوگی، یہ فعل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ حملوں کے بعد بعض یورپی ور اسلامی ممالک میں حماس کے حق میں بڑے بڑے مظاہرے اس بات کی گواہی ہے کہ اب فلسطین کی آزادی پر ”مٹی ڈالنا“ مشکل ہے۔ا سرائیل کی اصل پریشانی یہ ہے کہ نوجوان اب بھی حماس کی آواز پر لبیک کہہ رہے ہیں یہ وہی حماس ہے جسکی ہر قیادت کو یہودی ریاست کی انتظامیہ نے بے دردی سے شہید کیا، ان میں محمد الضیف اور اسکی اہلیہ، سات ماہ کا شیر خوار بیٹا، بیٹی بھی شامل تھی، ان کا جرم کیا تھا وہ حماس کے پلیٹ فارم سے فلسطین کی آزادی کا مطالبہ کر رہے تھے، جس کے قیام کی اقوام متحدہ نے حمایت کی ہے، غزہ خالی کرنے کے اسرائیلی الٹی میٹم کے باوجود غزہ کا کوئی شہری شہر چھوڑ کر باہر نہیں گیاہے صرف معمر افراد اور بچوں کو جنگی حکمت عملی کے طورپر نسبتاً محفوظ مقام پر منتقل کیاگیا ہے غزہ خالی کرنے کے اسرائیلی الٹی میٹم کا وقت گزرنے کے بعد،حماس کے فوجی ترجمان ابو عبیدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے زمینی حملہ کیا تو اس کی فوج کو نیست و نابود کردیا جائے گا۔ اسرائیل پر حملوں کی ویڈیو جاری کرتے ہوئے حماس کے فوجی ترجمان نے دعویٰ کیا کہ جنگ کے آغاز پر ہی اسرائیلی فوج کا غزہ ڈویژن تباہ کردیا گیا ہے اور القدس کے تحفظ کے لیے ایسی مزید کارروائیوں کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ابو عبیدہ نے کہا کہ آپریشن الاقصیٰ فلڈ میں توقع سے زیادہ کامیابی ملی، اس آپریشن کے لیے خفیہ تیاری کی گئی تھی جس میں حماس مزاحمتی قوتوں کے ساتھ رابطے میں تھی۔دوسری جانب مزاحمتی تنظیم اسلامی جہاد کی القدس بریگیڈ کے ترجمان ابو حمزہ نے کہا ہے کہ جلد کئی محاذ کھولے جائیں گے، جن میں 1948 میں فلسطین کے پاس علاقے بھی شامل کیے جائیں گے۔ حماس رہنما نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ، فرانس اور دیگر ملکوں کے شہری اسرائیلی فوج کی وردیاں پہن کر جنگ میں شریک ہیں، یرغمال بنائے گئے بہت سے اسرائیلی فوجی امریکی اور فرانسیسی شہری نکلے ہیں۔
غزہ کے لوگ 75 سال سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، اسرائیل کے خاتمے کے لیے فلسطینیوں نے نسلیں قربان کی ہیں۔اسرائیل نے ایک دن میں جو بمباری کی، شاید امریکہ نے ایک سال میں افغانستان پر نہیں کی، اسرائیل فلسطین میں انسانی حقوق مسلسل پامال کر رہا ہے۔جنگ کے عالمی اصولوں کو پاؤں تلے روندا جا رہا ہے۔غزہ میں اسرائیلی فورس اور فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے درمیان کئی روز سے جاری جھڑپوں کے دوران دونوں اطراف سے ہزاروں راکٹ، میزائل، بارودی مواد گرانے والے ڈرون اور بے شمار چھوٹے ہتھیار اور گولہ بارود استعمال کیا جا رہا ہے۔مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتِ حال دیکھ کر ہر ایک کے ذہن میں یہ سوال ضرور آتا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے پاس اتنا جدید اسلحہ کہاں سے آتا ہے اور دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسیاں اس کا سراغ کیوں نہیں لگا پاتیں۔اس حوالے سے امریکہ کا ایران پر الزام عائد کرتے ہوئے یہ موقف سامنے آیا ہے کہ ایرانی حکومت حماس کو سُرنگوں اور سمندر کے راستے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے اسلحہ فراہم کرتی ہے۔دوسری جانب امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کی ورلڈ فیکٹ بک میں اس حوالے سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ حماس اسمگلنگ کے ذریعے ہتھیارحاصل کرتی ہے اور مقامی سطح پر خود بھی اسلحہ تیار کرتی ہے۔ تاہم اس سوال کا جواب اس سے بھی نہیں ملتا کہ حماس اتنے سارے ممالک اور ان کے انٹیلی جنس نیٹ ورکس کو کیسے چکما دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔اس حوالے سے لبنان میں مقیم حماس کے بیرونِ ملک قومی تعلقات کے سربراہ علی براکاکا کہناہے کہ ہمارے پاس ہر قسم کا ہتھیار تیار کرنے کے لیے مقامی سطح پر الگ الگ فیکٹریاں ہیں۔ ہمارے پاس مارٹر اور ان کے گولوں، اسی طرح کلاشنکوف اور ان کی گولیاں بنانے کی فیکٹریاں ہیں اور یہ ہتھیار ہم روس کی اجازت سے غزہ میں بنا رہے ہیں۔علی براکا نے بتایا کہ ہمارے پاس 250 کلو میٹر، 160 کلومیٹر، 80 کلومیٹر، اور 10 کلو میٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھنے والے راکٹس بنانے کی فیکٹریاں اور ان میں ماہر افراد بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے ہم اسلحہ خود تیار کر لیتے ہیں۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے احمد فواد نے میڈیا کو بتایا کہ غزہ میں اسرائیلی بمباری سے تباہ ہونے والی عمارتوں کے ملبے سے جو سریا اور وائرنگ وغیرہ نکلتی ہے اس کا استعمال بھی حماس کے لیے تیار کیے جانے والے ہتھیاروں میں ہوتا ہے۔بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فورسز کی جانب سے غزہ میں پھینکے گئے نہ پھٹ سکنے والے راکٹس اور گولہ بارود بھی حماس کے لیے ایک نعمت ہیں کیونکہ یہی اسرائیلی جنگی سامان بعد میں حماس اسرائیل کے ہی خلاف استعمال کرتی ہے۔اس طرح اسرائیلی جنگی ساز و سامان کا دوبارہ استعمال حماس کے ہتھیاروں کی سپلائی میں اضافہ کرتا ہے۔
اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد اسرائیل نے اسے اسرائیل کا نائن الیون کہا ہے اور حماس کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا ہے۔ جس پر بہت سے مبصرین اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ اسرائیل اب پوری تیاری اور طاقت کے ساتھ حملہ کرے گا اور غزہ پر مکمل طور پر قبضہ کرلے گا، ظاہر ہے اسرائیل اس وقت زخم چاٹ رہا ہے لیکن وہ خاموش نہیں بیٹھے گا، یقیناً حماس نے بھی ممکنہ حملے کی بھرپور تیاری کررکھی ہوگی، اب حماس کے بعد حزب اللہ بھی اسرائیل کے خلاف جنگ میں شامل ہوچکی ہے اور حماس کے حملوں کے بعد اسرائیل کے خوف کا بت ٹوٹ چکا ہے، حماس کے نوجوانوں کے حوصلے بلند ہیں اس کے اثرات مثبت ہوں گے اور اس سے امید کی کرن پھوٹی ہے،حماس کے نوجوانوں نے اسرائیل کو پہلی بار نکیل ڈال دی ہے۔ وہ گھس گئے ہیں ان کے علاقے میں اور جو سامنے آیا اس کو مار ڈالا یا یرغمال بنا لیا۔ اسرائیل تاریخ میں پہلی بار خوف زدہ ہے وہ اپنے 100 افراد کو قربان نہیں کریں گے۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کے تصور کو حماس نے دفن کر دیا ہے۔ لہٰذا یہ وقت نہ صرف حماس بلکہ امت مسلمہ کا حوصلہ وہمت بڑھانے کا ہے، اس وقت حکومتی اور شخصی سطح پر حماس کی مدد کرنے اور تمام مسلمانوں کو کمر بستہ ہونا چاہیے۔یہ کڑا اور آزمائش کا وقت ہے، اس وقت فلسطینیوں کو تنہا چھوڑنا دوستی نہیں دشمنی کے مترادف ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کھل کر اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ 58 اسلامی ممالک ملت واحدہ ہیں، لیکن بکھرے اور سہمے ہوئے ہیں۔ حالانکہ افغانستان میں یہ اپنی آنکھوں سے امریکہ کو بھاگتے دیکھ چکے ہیں۔ فلسطینی مجاہدین کا اسرائیل پر حملہ ا پنے علاقوں کو اسرائیل کے غاصبانہ قبضے سے چھڑانے کیلئے تاریخی معرکہ ہے، دنیا سمجھ رہی تھی کہ مسئلہ فلسطین مردہ ہو چکا ہے۔اس حملے نے اسرائیل کے دفاعی نظام اور ان کے گھمنڈ کو زمین بوس کردیا ہے، یہ حقیقت پوری دنیاکے سامنے آگئی ہے کہ اسرائیل کوئی بڑی قوت نہیں بلکہ اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین کوتسلیم کیے بغیر اور ان کا ملک ان کے حوالے کیے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ حماس نے اپنی حیثیت سے بڑا کام کر کے اپنا نام تاریخ میں امر کر دیا ہے۔ حماس کے اس دلیرانہ اقدام کے بعد پہلی بار اسرائیل حواس باختہ ہو چکا ہے۔ اسرائیلی ملک چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیں۔پوری امت مسلمہ کے حکمرانوں کو یہ موقع غنیمت جان کرحماس کے شانہ بشانہ کھڑے ہوجانا چاہئے، ورنہ تاریخ معاف نہیں کرے گی۔عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی ذمہ داری ہے کہ وہ جنگ بندی کرتے ہوئے امت مسلمہ کے دیرینہ مسئلہ کو انصاف کی بنیاد پر حل کرے، حماس اور حزب اللہ کی قیادتوں کے بیانات امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل کے لئے واضح پیغامات ہیں کہ فلسطین کے مسئلہ پر مذاکرات میں اگر انھیں دور اور الگ رکھا گیا تو پھر خطہ میں امن اور استحکام کی ضمانت نہیں دی جا سکتی، حماس کی جانب سے تنگ آمد اور بجنگ آمد کے مصداق کے طور پر اسرائیل پر حملہ کی عالمی حمایت وقت کی آواز ہے، ایسے حملوں سے بچنے کا واحد حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فلسطین کی آزاد ریاست کا قیام ہے۔