قومی کی 8، پنجاب کی 3 نشستوں پرضمنی انتخاب کا دنگل سج گیا، پولنگ جاری
شیئر کریں
قومی اسمبلی کی 8اور پنجاب اسمبلی کی 3 نشستوں پرضمنی انتخابات کیلئے پولنگ شروع ہو گئی، پنجاب میں 3 قومی، 3 صوبائی، خیبرپختونخوا میں 3 اور کراچی میں 2 قومی اسمبلی کی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے لیے پولنگ ہو رہی ہے، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کے 7 حلقوں سے امیدوار ہیں، پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے سکیورٹی کے انتظامات کو حتمی شکل دی گئی، پنجاب کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے چھ حلقوں میں مجموعی طور پر 21 لاکھ41ہزار490 ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کے 8 حلقوں میں ضمنی انتخاب ہو رہا ہے جن میں این اے 22 مردان تھری، این اے 24 چارسدہ ٹو،این اے 31 پشاور فائیو،این اے 108 فیصل آباد آٹھ، این اے 118 ننکانہ صاحب ٹو،حلقہ این اے 157 ملتان فور،این اے 237 ملیر ٹو،این اے 239 کورنگی کراچی ون جبکہ پنجاب اسمبلی کے تین حلقوں پی پی 139 شیخوپورہ فائیو،پی پی 209 خانیوال سیون اورپی پی 241 بہاولنگر فائیو شامل ہیں۔ ضمنی انتخابات میں امن و امان کے قیام کے لئے سکیورٹی کے فول پروف انتظامات ہیں اور پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی حکمت عملی مرتب کر لی ہے۔ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان قومی اسمبلی کے7 حلقوں میں بطور امیدوار میدان میں ہیں۔ الیکشن کمیشن نے سکیورٹی اداروں کے متعلقہ انچارج کو مجسٹریٹ کے اختیارات تفویض کر دیے۔ الیکشن کمیشن نے سکیورٹی اداروں کو اہم ہدایات جاری کر دی ہیں، الیکشن کمیشن حکام کے مطابق ہدایات وزارت داخلہ کی فراہم کردہ رپورٹس کی روشنی میں جاری کی گئی ہیں۔ پولنگ کے دن سکیورٹی کے تین حصار رکھے گئے ہیں پولیس پہلے، رینجرز، ایف سی دوسرے اور فوج تیسرے سکیورٹی حصارکیلئے موجود رہے گی۔ پاک فوج، رینجرز اور ایف سی کے ڈیوٹی انچارجز کو مجسٹریٹ درجہ اول کے اختیارات حاصل ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق پولنگ اسٹیشن کے باہر بے ضابطگیوں کی اطلاع پریذائڈنگ افسر کو دینا سکیورٹی عملے کی ذمہ داری ہوگی، پریذائڈنگ افسر کے کارروائی نہ کرنے پر متعلقہ سکیورٹی انچارج مجسٹریٹ کا اختیار استعمال کر سکے گا۔ مانیٹرنگ کے لیے ریٹرننگ افسران نے خصوصی کنٹرول روم قائم کیے ہیں، کنٹرول رومز میں متعلقہ ڈی سی، پولیس، رینجرز اور فوجی حکام موجود ہیں۔ شکایات کے ازالے کے لیے صوبائی اور وفاقی سطح پر بھی کنٹرول روم قائم ہیں۔ کنٹرول روم صبح 7 بجے سے نتائج مکمل ہونے تک فعال رہیں گے۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان جو قومی اسمبلی کی 7 نشستوں پر امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہیں وہ یہ تمام نشستیں جیت کر اپنا ہی ایک ریکارڈ توڑ دیں گے اور نئی تاریخ رقم کرکے اپنے مخالفین کو بھی سرپرائز دے سکیں گے؟ یہ تاریخ رقم کرنا اس لیے ہو گا کہ اب تک کسی بھی سیاسی رہنما نے 7 نشستوں پر بیک وقت انتخاب نہیں لڑا ہے، اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو اور پھر عمران خان بیک وقت 5 حلقوں سے الیکشن لڑ چکے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو 4 نشستوں کے فاتح اور ایک پر شکست کھائی تھی جبکہ عمران خان نے 2018 میں تمام 5 حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی۔ ملک میں بیک وقت اتنی تعداد میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر غالباً پہلی بار ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں۔ ان ضمنی انتخابات کا ڈھول اس وقت بجا جب موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے پی ٹی آئی کے مستعفی اراکین قومی اسمبلی میں سے منتخب کردہ 11 ممبران کے استعفے منظور کیے تھے جن میں دو مخصوص نشستوں پر منتخب خواتین کے استعفے بھی شامل تھے۔ استعفوں کی منظوری کے بعد 9 خالی نشستوں پر ستمبر میں ضمنی الیکشن کا اعلان کیا گیا تاہم ملک میں سیلاب کے باعث انہیں ملتوی کرکے 16 اکتوبر کو کرانے کا اعلان کیا گیا۔ جن اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کیے گئے ان میں این اے22 مردان 3 سے علی محمد خان، این اے24 چارسدہ 2 سے فضل محمد خان، این اے31 پشاور 5 سے شوکت علی، این اے45 کرم ون سے فخر زمان خان، این اے108 فیصل آباد 8 سے فرخ حبیب، این اے118 ننکانہ صاحب 2 سے اعجاز احمد شاہ، این اے237 ملیر 2 سے جمیل احمد خان، این اے239 کورنگی کراچی ون سے محمد اکرم چیمہ، این اے246 کراچی جنوبی ون سے عبدالشکور شاد شامل تھے۔ ان کے علاوہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب شیریں مزاری اور شاندانہ گلزار کے استعفے بھی منظور کیے گئے تھے۔9 انتخابی حلقوں میں سے دو حلقوں کراچی لیاری سے این اے 246 اور این اے 45 کرم ون کی نشستوں پر ضمنی الیکشن نہیں ہو رہے کیونکہ این اے 246 لیاری کراچی سے منتخب عبدالشکور شاد کی جانب سے اپنے استعفے کی منظوری کے خلاف دائر درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے این اے 246 لیاری کراچی کی نشست خالی قرار دینے کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا تھا جبکہ این اے 45 کرم میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہونے کے باعث وہاں بھی پولنگ نہیں ہو رہی جس کے باعث اب ان سات حلقوں میں پولنگ ہورہی ہے جہاں عمران خان کا براہ راست اپنے مخالفین سے ٹکراؤ ہے۔ حلقہ این اے 157 ملتان فور وہ حلقہ ہے جہاں شاہ محمود کے بیٹے شاہ زین نے پنجاب کے حالیہ ضمنی الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد استعفیٰ دیا تھا۔ یہاں سے پی ٹی آئی کی امیدوار اور شاہ محمود کی صاحبزادی مہر بانو قریشی کا پی ڈی ایم کے حمایت یافتہ پیپلز پارٹی کے امیدوار علی موسی گیلانی کے مابین کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔ پنجاب اسمبلی کی تینوں نشستیں مسلم لیگ (ن) کے ممبران پنجاب اسمبلی شیخوپورہ سے میاں جلیل احمد شرقپوری، خانیوال سے فیصل خان نیازی اور بہاولنگر سے شاہد محمود کے مستعفی ہونے سے خالی ہوئی تھیں۔اتوار کو مجموعی طور پر 11 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں سب کی توجہ قومی اسمبلی کی ان سات نشستوں پر ہے جہاں عمران خان خود میدان میں ہیں۔ ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جہاں ضمنی الیکشن عمران خان اور حکومتی اتحاد کے لیے بڑا معرکہ ثابت ہوں گے وہیں ان کے نتائج کی بنیاد پر مستقبل کا منظر نامہ بھی تشکیل دیا جائے گا جس کے لیے سیاسی صف بندیاں کہیں دور شروع بھی ہوچکی ہیں۔