میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
طالبان کے خلاف افغان حکومت کا پروپیگنڈا ، مذاکرات کی بنیاد مشکوک کرنے کی مہم

طالبان کے خلاف افغان حکومت کا پروپیگنڈا ، مذاکرات کی بنیاد مشکوک کرنے کی مہم

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۶ اکتوبر ۲۰۲۰

شیئر کریں

باسط علی
۔۔۔۔۔

٭افغان صدر اشرف غنی اپنے مستقبل سے مایوس طالبان کے خلاف ایک ایسی جنگ جیتنا چاہتے ہیں جو وہ میدانوں اور محاذوں پر بُری طرح ہار چکے ہیں

٭افغان طالبان اپنے لامحدود صبر اور خاموشی سے حالات پر قابو پاتے ہیں جبکہ پروپیگنڈے کی کسی مہم نے انیس سال میں طالبان کو ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹایا

 

افغان صدر اشرف غنی اپنے مستقبل سے مایوس طالبان کے خلاف ایک ایسی جنگ جیتنا چاہتے ہیں جو وہ میدانوں اور محاذوں پر بُری طرح ہار چکے ہیں۔ انتہائی معتبر ذرائع کے مطابق اُن کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے جو وفد تشکیل دیا گیا وہ مذاکرات سے زیادہ طالبان کو مختلف قسم کے تنازعات میں اُلجھانا چاہتا ہے، چنانچہ افغان حکومتی وفدنے طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کو مختلف بنیادوں میں بانٹتے ہوئے بنیادی نوعیت کے مسائل پر بات کا دروازہ عملاً بند کرنا شروع کردیا ہے۔
طالبان جن کی تمام کوششوں اور زندگیوں کا واحد مقصد اسلامی نظام کا افغانستان میں مکمل نفاذ ہے، افغان وفد اُن سے مذاکرات کی بنیاد پر بحث برائے بحث پر تُلا ہوا ہے۔ طالبان کے خلاف فارسی بولنے والے بعض نامہ نگاروں (جن کے مخصوص مذہبی رجحانات بھی ایک محرک ہے) کے ذریعے یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ وہ افغان حکومتی وفد کے ساتھ مذاکرات کی بنیاد پر متفق نہیں ہورہے۔ اس ضمن میں جو فسادی نکتہ اجاگر کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ افغان حکومتی وفد تو مذاکرات کی بنیاد’’ قرآن‘‘پر رکھنا چاہتا ہے جبکہ طالبان اس حوالے سے مُصر ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات امریکا کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی روشنی میں کریں گے۔ بظاہر اس سے یوں لگتا ہے کہ افغان طالبان جن کی شہرت ہی یہ کہ وہ اسلامی نظام کا نفاذ اپنی سرزمین پر دیکھنا چاہتے ہیں وہ اسلام یا قرآن کو کو مذاکرات کا بنیادی حوالہ ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اس سلسلے میں افغان حکومت اپنے زیراثر خطے کے تمام ذرائع ابلاغ میں مخصوص قسم کا پروپیگنڈا کررہا ہے کہ طالبان کے ساتھ امن مذکرات طالبان کے باعث تعطل کے شکار ہیںاور اس کا سبب صرف ایک ہی ہے کہ ’’ امن مذاکرات کی بنیاد کیا ہو‘‘؟ یاد رہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین قطر میں مذاکرات کا آغاز ہوئے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے مگر یہ بالکل ابتدا میں ہی تعطل کا شکار ہوچکے ہیں۔

 

دلچسپ امر یہ ہے کہ طالبان کے خلاف پروپیگنڈا یہ کیا جارہا ہے کہ وہ مذاکرات کی بنیاد قرآن ماننے کو تیار نہیں، جبکہ امریکا کی تخلیق کردہ لبرل ، سیکولر اور اسلام بیزار افغان حکومت کے نمائندے چاہتے ہیں کہ امن مذاکرات کی بنیاد قرآن کے سوا کچھ نہیں ہونی چاہیے ، کیونکہ دونوں فریق مسلمان اور افغان ہیں۔اس کے برعکس یہی حلقے طالبا ن کا موقف جو بیان کررہے ہیں وہ کچھ یوں ہے کہ طالبان امریکا کے ساتھ طے پانے والے طالبان امن معاہدے کا تسلسل میں ہی مذاکرات کے خواہاں ہیںاور وہ اسے بین المذاہب بات چیت کا دوسرا باب قرار دے رہے ہیں جو تقریباً دو سال قبل شروع ہوا تھا اور دوحہ معاہدے کی بنیاد بنا۔ اگر یہ پروپیگنڈا درست تسلیم کرلیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ طالبان ایک وسیع المشرب حکومت کا قیام افغانستان میںچاہتے ہیں جبکہ اشرف غنی کی لبرل، سیکولر اور اسلام بیزار حکومت افغانستان میں درحقیقت ایک ’’بنیاد پرست حکومت ‘‘چاہتی ہے جو ایک دوسرے مغربی معنی میں انتہا پسند حکومت بھی ہوگی۔دلچسپ امر یہ ہے کہ افغان حکومت مذاکرات میںتعطل کی وجہ صرف یہی باور کرارہا ہے۔

 

اس حوالے سے جاری پروپیگنڈے کی ایک اور جہت یہ ہے کہ افغان طالبان مذاکرات کی ا س بنیاد کے باعث باہمی طور پر تقسیم ہوچکے ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ امریکا انیس سال کی طویل جنگ ، پیسہ اور اسلحہ کے بے دریغ استعمال کے باوجود جن طالبان کو تقسیم نہیں کرسکے،اس کے متعلق اُن مذاکرات کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ جو ابھی شروع بھی نہیں ہوئے ، طالبان تقسیم ہو چکے۔ ایک سخت اور رضاکارانہ نظم وضبط کے باعث جسے طالبان اپنے اوپر نفاذِ اسلام کے جذبے کے تحت نافذ رکھتے ہیں، اشرف غنی کی حکومت یہ پروپیگنڈا کررہی ہے کہ وہ مذاکراتی عمل کی بنیاد پر باہم تقسیم ہوچکے۔ اس حوالے سے یہ کہا جارہا ہے کہ طالبان کے قطر دفتر میں تنازعات بڑھتے جارہے ہیں۔ یہ تنازعات ابتدا میں ملا برادر اور شیر محمد عباس استانکزئی کے مابین تھے ۔ مگر اب طالبان وفد تین گروہوں میں تقسیم ہے۔ پہلے گروپ کی قیادت ملا برادر کرتے ہیں اور ملا خیر اللہ خیرخواہ اور ملا فاضل مظلوم جیسے لوگ ان کے قریب تصور کیے جاتے ہیں۔ دوسرا گروپ عباس ا ستانکزئی کے ساتھ ہم آہنگی رکھتا ہے ۔ مذاکراتی ٹیم کے سربراہ شیخ عبد الحکیم اور ملا عمر کے بھائی بھی عباس استانکزئی کی حمایت کرتے ہیں۔عباس استانکزئی پر الزام یہ عائد کیا جارہا ہے کہ وہ امن عمل کو ناکام بنانے چاہتے ہیںاور مذاکرات کو قطر سے کسی دوسرے عرب ملک بھی منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ فضول اور غیر منطقی پروپیگنڈا مخصوص ذرائع ابلاغ پر جاری ہے۔ جن کی مخصوص لسانی اور مذہبی شناخت ہے۔ وہ ملابرادر اور عباس استانکزئی کو ایک دوسرے کاحریف باور کرانے پر تُلے ہیں۔ اس پروپیگنڈے کے تحت یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ مذاکرات کے آغاز اور دوحہ میں مذاکرات کے لیے ملابرادر کی آمد پر ہی یہ تنازع شروع ہوچکا تھا۔ مگر اب اس میں شدت آگئی ہے۔ اور ملابرادر اور عباس استانکزئی ایک دوسرے پر بدعنوانی کا الزام بھی عائد کررہے ہیں۔ یہی الزام ملا برادر اور شیخ حکیم کے تعلق کے حوالے سے بھی لگایا جارہا ہے۔ طالبان کی اندرونی تقسیم میں ایک تیسرا گروہ وہ بیان کیا جارہاہے جو قطری آفس سے بے دخل کیا گیا تھا لیکن وہ پاکستان واپس جانے کو تیار نہیں ۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ طالبان کے ان باہمی اختلافات کی کوئی معمولی پرچھائی بھی اُن کے کسی بھی اقدام میں کہیں نظر نہیں آرہی مگراس نوع کے پروپیگنڈا عام کیا جارہا ہے۔

 

طالبان اپنے لامحدود صبر اور خاموشی سے حالات پر قابو پاتے ہیں جبکہ پروپیگنڈے کی اس مہم نے انیس سال میں طالبان کو ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹایا۔ اس دوران طالبان کی اپنی قیادت میں دوبار تبدیلیاں ہوئیں ۔ ملاعمر کے بعد یکے بعد دیگرے دو امیر آئے مگر طالبان کا نظام اپنی جگہ مستحکم رہا ۔ اس دوران کسی بھی اہم آدمی کو تبدیل کرنے کا کوئی انتظامی معاملہ درپیش آیا تو کبھی کسی نزاع کے بغیر یہ کام بآسانی انجام پزیر ہوا اس حوالے سے طالبان کے ایک اہم رہنما اور ملاعمر کے دستِ راست ملا طیب آغا کی مثال سامنے ہے جوامیر المومنین ملاعمر کے انتہائی مقربِ خاص سمجھے جاتے تھے اور جنہیں ملاعمر کے بعد نئے امیر پر بعض سوالات اُٹھانے پر الگ کردیا گیا۔ مگر اس سے مجموعی نظم پر کوئی بھی سوال نہیں اُٹھا۔ جہاں تک ملا عبدالغنی برادر کا تعلق ہے تو وہ ملاعمر کے انتہائی مقربِ خاص سمجھے جاتے ہیں۔ اُنہیں خود طالبان تحریک میں اولین رہنماؤں کی فہرست میں بھی تین چار ابتدائی ساتھیوں میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے اُن کی حیثیت تمام طالبان رہنماؤں میںمسلمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کا احترام طالبان کے تمام حلقوں میں یکساں طور پر پایا جاتا ہے۔
یوں لگتا ہے کہ افغان حکومت کے ذمہ داران اپنے مستقبل سے مایوس ہو کر ایک ایسی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں جس میں مذاکرات سے خاموش تبدیلیوں کے بجائے افغانستان کو ایک مستقل جنگ کے ماحول میں رکھ کر اپنا وجود برقرار کھا جاسکے۔ اشرف غنی اپنے چراغ کی لرزتی لو کی حفاظت اب پروپیگنڈے کی ڈھول میں کرنا چاہتے ہیں۔ مگر اس حوالے سے وہ طالبان کے اُس مضبوط نظم کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائیں گے جسے اب تک امریکا بھی شکست نہیں دے سکا، یہ خوش فہمی نما سوال ابھی جواب کا منتظر ہے۔
افغان امن عمل میں امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے گزشتہ دنوں افغان صدر اشرف غنی کو ایک ایسے موقع پر ایک مشورہ دیا تھا جب وہ قطر کے تین روزہ دورے پر تھے، اُنہیں زلمے خلیل زاد نے یہ پیغام دیا تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے اس موقع کو ضائع نہ کریں‘‘۔درحقیقت طالبان کسی مذاکرات سے کوئی طاقت حاصل نہیں کرتے، جبکہ اشرف غنی ان مذاکرات سے اپنی اس حکومت کے لیے طاقت حاصل کرناچاہتے ہیںجو کابل کی دوتین عمارتوں سے زیادہ کہیں قائم بھی نہیں۔ یہ دیکھنا باقی رہ گیا ہے کہ طالبان کے افغان حکومتی وفد سے مذاکرات کیا ڈرامائی رخ اختیار کرتے ہیں؟

 

 

افغان حکومت اپنے زیراثر خطے کے تمام ذرائع ابلاغ میں مخصوص قسم کا پروپیگنڈا کررہا ہے کہ طالبان کے ساتھ امن مذکرات طالبان کے باعث تعطل کے شکار ہے اور اس کا سبب صرف ایک ہی ہے کہ ’’ امن مذاکرات کی بنیاد کیا ہو‘‘؟ یاد رہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین قطر میں مذاکرات کا آغاز ہوئے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے مگر یہ بالکل ابتدا میں ہی تعطل کا شکار ہوچکے ہیں۔

 

 

افغان امن عمل میں امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے گزشتہ دنوں افغان صدر اشرف غنی کو ایک ایسے موقع پر ایک مشورہ دیا تھا جب وہ قطر کے تین روزہ دورے پر تھے، اُنہیں زلمے خلیل زاد نے یہ پیغام دیا تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے اس موقع کو ضائع نہ کریں‘‘۔درحقیقت طالبان کسی مذاکرات سے کوئی طاقت حاصل نہیں کرتے، جبکہ اشرف غنی ان مذاکرات سے اپنی اس حکومت کے لیے طاقت حاصل کرناچاہتے ہیںجو کابل کی دوتین عمارتوں سے زیادہ کہیں قائم بھی نہیں ۔
٭٭٭٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں