جامہ عریانی کا قامت پہ مری آیا ہے راست
(ماجرا۔۔محمد طاہر)
شیئر کریں
’’مجھے ڈرائنگ روم اور دیوان خانوں میں بیٹھ کر بکواس کرنے والے سیاست دانوں کی رتی بھر پروا نہیں‘‘۔
نپولین کے یہ الفاظ قومی ریاستوں کے اندر سیاسی کشمکش کے مقتدر کھیل میں ہر طاقت ورفریق کی سوچ کے آئینہ دار ہیں۔ آپ کیا بول رہے ہیں ، اس سے نہیں، فرق اس سے پڑتا ہے کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ نون لیگ کاالمیہ یہ ہے کہ اس کی تمام سیاست ’’اشرافی‘‘ہے مگر اس کے تمام دعوے ’’عوامی‘‘ ہیں۔اس دوئی کو نون لیگ کبھی اپنے عمل سے دور نہیں کرسکی۔ مولانا فضل الرحمان کا’’ دھرنا‘‘ ایک بار پھر اس حقیقت حال کو عریاں کررہا ہے۔ الفاظ کے خراچ عمل کے قلاش نکلے تو ان کی اگلی سیاست زیادہ مشکل اور طاقت ور حلقوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت زیادہ کمزور ہوسکتی ہے۔
نون لیگ اپنی سیاسی مقبولیت اور سیاسی فیصلوں کے مابین مقابلے کی فضاء میں مستقبل کا تعین کررہی ہے۔مکرر عرض ہے کہ نون لیگ کی سیاسی مقبولیت کا مقابلہ عمران خان یا اُن کی اب تک کی حامی اسٹیبلشمنٹ سے اتنا نہیں جتنا خود اپنے سیاسی فیصلوں سے ہیں۔مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کا یہ کرشمہ ہے کہ اس سے نون لیگ کے سیاسی قد قامت اور مستقبل کے عزائم کا بھی اعلان ہوجائے گا۔ یوں ابہام کی کثیف چادر میں نون لیگ کے لیے اپنا آپ چھپانا ممکن نہ رہے گا۔پاکستان کی سیاست میں دھرنا ایک جبر کی طرح سیاسی جماعتوں پر مسلط ہو گیا ہے، جس نے حکومت کی مانند اپوزیشن کو بھی پریشان کررکھا ہے۔ نون لیگ اس کی سب سے زیادہ شکار ہے۔ وہ دھرنے کی حمایت سے بچ بھی نہیں سکتی اور اپنی حد کے بے حد شعور کے باعث اس میں زیادہ سرگرم بھی نہیں ہوسکتی۔ یوں دھرنے کی حمایت ومخالفت کے درمیان نون کے تن کی عریانی چھپائے نہیں چھپ رہی۔
جامہ عریانی کا قامت پر مری آیا ہے راست
نون لیگ کے حوالے سے شریف برادران کے باہمی روابط ان دنوں پھر زیر بحث آگئے ہیں۔نوازشریف اور شہباز شریف کے مختلف المزاج سیاسی تیور نے نون لیگ کے اندر ایک واضح تقسیم پید اکردی ہے۔ یہ تقسیم اس اعتبار سے بھی لائق توجہ ہے کہ اس میں ’’طاقت ور‘‘ حلقوں کا کوئی کردار نہیں۔ نوازشریف سے اقتدار چھننے کے بعد سے اب تک نون لیگ میں کوئی دھڑا الگ نہیں کیا جاسکا یا پھر نہیں کیا گیا۔ اِسے نونیوں نے اپنی سیاسی طاقت یا پھر شریف برادران نے اپنی مقبولیت پر قیاس کیے رکھا۔ اگر چہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں یہ خود فریبی خاصی حد تک بھاپ بن گئی۔تاہم اس میں ایک پہلو تو بالکل ظاہر وباہر ہے کہ یہ کام طاقت ور حلقوں نے اتنی مرتبہ کیا ہے اور ایک ایک سیاست دان کے ’’ضمیر‘‘ اتنی مرتبہ جگائے ہیں کہ وہ خود بھی اپنے لیے قابلِ اعتبار نہیں رہے۔ چنانچہ ہر ’’باضمیر‘‘ کچھ اس کیفیت کی تصویر بنا ہوا ہے کہ ’’عزت جہاں ملے وہیں مر جانا چاہئے‘‘۔اسے لیے ’’اشارہ‘‘ کے منتظر رہنے والے سیاست دان بھی اب آہٹ پہ کان، در پہ نظر رکھنے کے بجائے دل میں اضطراب چھپائے پھرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہم کچھ نیا سیکھ نہیں سکے اور طریقہ کار کے پُرانے پن سے لوگ اوبھ بھی گئے ہیں۔ اب ذرائع ابلاغ میں دکھائی دینے والے چہرے اور بولے جانے والے فقرے ہی بتاد یتے ہیں کہ کون کہاں سے بیعتِ شوق رکھتا ہے۔ اس کے باوجود یہ کام انتہائی ’’عزت‘‘ کے ساتھ جاری ہے۔ مسلم لیگ کے باب میں یہ ایک حیران کن امر رہا کہ اس جماعت کے اندر تاحال کوئی چیر پھاڑ سامنے نہیں آسکی۔کیا طاقت ور حلقے اب کی بار کچھ الگ کرنا چاہتے ہیں؟اس سے قطع نظر نون لیگ کے مختلف رہنماؤں کو احتساب کی چکی میں باریک پیسنے کا عمل ایک تھکاوٹ ضرور پیدا کرچکا ہے۔ چنانچہ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں شمولیت یا حمایت کے فیصلے پر اس تھکاوٹ کے اثرات صاف دکھائی دیتے ہیں۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو خواجہ آصف ، احسن اقبال اور حنیف عباسی کے موجودہ حالات میں اصل موقف کی معلومات حاصل کریں۔ براہ مہربانی اخباری بیانات ،پریس بریفنگ پر کان نہ دھریں۔
پاکستان کے طاقت ور حلقوں کی طرح نون لیگ بھی اپنے طریقہ کار میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکی۔چنانچہ ایک جیسا کھیل ہر جگہ سے جاری ہے۔ نون لیگ کے صدر شہبازشریف مجلس عاملہ کے گزشتہ دو اجلاسوں میں مولانا کے دھرنے میں شمولیت کے خلاف اپنی مستحکم رائے پیش کرچکے ہیں۔ مگر ہمیشہ کی طرح ٹیپ کا یہ بند بھی دہراتے رہے کہ وہ نون کے قائد محترم نوازشریف کے ہر فیصلے پر سرِ تسلیم خم کریں گے۔ اُنہوں نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اُن کی یہ اطاعت زبانی کلامی ہوگی ،وہ عملاً کسی بھی احتجاج میں براہِ راست شرکت نہیں کریںگے۔ اس کا سبب اُنہوں نے اپنے بیمار وجود کو قرار دیا ہے۔ پاکستان کو بیمار وجود سے زیادہ بیمار ذہنیت کا خطرہ ہے۔ بیمار ذہنیت اچھے بھلے صحت مند آدمی کو بھی بیمار کردیتی ہے اور صحت مند ذہن بیمار آدمی میں بھی تاب وتوانائی پیدا کردیتاہے۔ چنانچہ نوازشریف کی جانب سے بھی اس پر کسی نوع کا اِصرار نہیں کیا جارہا ، اُن کی جانب سے یہ واضح کردیا گیا ہے کہ شہبازشریف کی جگہ پارٹی کے دیگر قائدین آزادی مارچ میںنمائندگی کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ جب اقتدار کی راہداریاں شریف خاندان پر وا ہوتی ہیںتو پھر یہ ’’بیماریاں‘‘اُن کی راہ میں کیوں حائل نہیں ہوتیں۔ ایسا کیوں ہے کہ ’’عزیمت‘‘ کی راہ پر اور لوگوں کو چلایا جاتا ہے اور خود کو حکومت کی راہ کے لیے وقف رکھا جاتا ہے۔اردو کا کیا حسب ِ حال محاورہ ہے کہ دکھ سہیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں ! شاعر نے کہا تھا:
سردار وہ ہے جو سرِ دار بھی آئے
ظہور الاسلام جاوید نے کیا غضب کا مضمون باندھا:
شاید اسی میں سارے مسائل کا حل ملے
سردار ہے جو اس کو سرِ دار کرکے دیکھ
نون لیگ کے اپنے وفادار بھی شہبازشریف سے یہ امید نہیں رکھتے۔ نوازشریف اور اُن کی صاحبزادی نے 13؍جولائی 2018 کو جب لندن سے واپسی کے لیے رخت ِسفر باندھا تو لاہور ائیرپورٹ پر شہبازشریف اُن کے استقبال کے لیے نہ پہنچ سکے تھے۔ دوروز قبل ہی ’’باخبر‘‘ حلقوں سے یہ بات سامنے آرہی تھی کہ شہباز شریف خود کو امتحان میں نہیںڈالیںگے، پھر ایسا ہی ہوا۔ اگرچہ شہباز شریف کو اس کا کچھ زیادہ فائدہ نہیں ہوسکا۔ کیونکہ وہ طاقتور حلقوں کی خواہش اور بڑے بھائی سے وفاداری کے درمیان قائم بال سے باریک پُل صراط پر تنہا اور بغیر سہارے لڑکھڑاتے لڑکھڑاتے چلتے چلے آرہے ہیں۔ اور اس کیفیت میں پہلا دوسرے کا اور دوسرا پہلے کا زیادہ اُنہیں بہی خواہ سمجھتا ہے۔ شہبازشریف تب شاید کوئی انتخاب بھی رہے ہوں، جب دوسرے مہرے نہ آزمائے گئے ہو۔ مگر اب تو معاملہ کچھ مختلف ہے۔ طاقت ور حلقے پرانے چہروں سے زیادہ نئے چہروں کو فوقیت دے رہے ہیں۔ وہ زمیں کے میروسلطاںسے بیزار ہونے کا بخوبی ادراک کرچکے ہیں۔پھر پرانے کھیل پرانے ہی چہروں کے ساتھ باربار دُہرائے جانے سے یہ ایک آزمودہ کھیل بن جاتا ہے جس میں اعتبار کہیں پر بھی باقی نہیں رہتا۔ چنانچہ اگر کھیل پرانا نہ بدلا جاسکتا ہو تو چہرے بدل کر اس میںندرت کا مغالطہ ضرور پیدا کیا جاسکتا ہے۔ یہ سوچ شہباز شریف کے لیے مستقبل کو امید افزا نہیں رہنے دیتی۔ اس کے باوجود اپنے حال کو کم پریشان کن تو بنایا جاسکتا ہے۔ اور اسی لیے شہبازشریف اپنے آزمودہ راستے پر ہی چلنے کے خواہش مند ہیں۔
مسلم لیگ نون کی مجلس عاملہ کے اندر جاری مباحث کی خبریں اب عام ہو رہی ہیں۔ جسے پروپیگنڈا کہہ کر خود پروپیگنڈے کے غلاف میں لپیٹا جارہا ہے۔ مگر یہ خبریں غلط تھیں تو نون لیگ کو یہ کیوں کہنا پڑا کہ اس کی تحقیقات کی جارہی ہیں کہ اجلاس کے اندرہونے والے مباحث باہر کیسے آرہے ہیں۔ یہ بات بھی عجیب ہی ہے کہ نون لیگ کو گزشتہ روز اپنی مجلس عاملہ کے مشاورتی اجلاس میں پارٹی رہنماؤں کے فون باہر رکھوانے پڑے۔ اب بھی کیا کوئی یہ مانے گا کہ باہمی اختلافات کی خبریں درست نہیں۔ درحقیقت اشرافی سیاست کو عوامی سیاست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس میں طاقت ور حلقوں کی شدید مخالفت کا دھڑکا ہے اور یہ دھڑکا، دھرنے سے زیادہ خطرناک ہے۔ چنانچہ مسلم لیگ کے اہم رہنما خود کو اس کھیل سے باہر رکھنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے نون لیگ کے پہلے مشاورتی اجلاس میں 21 رہنماؤں میں سے 13 نواز شریف کے ساتھ اور 8شہباز شریف کے ساتھ تھے۔ بعدازاں شہبازشریف نے دیگر رہنماؤں کو اعتماد میںلیتے ہوئے کہا تھا کہ دھرنے میں شرکت کے مخالفین کی تعداد اکثریت میں ہیں۔اس معاملے میں کچھ خاموش رہنما بھی اُن کے ساتھ ہیں۔ بعدازاں اس پر ایک اور مشاورتی اجلاس میں زیادہ رہنما دھرنے کی مخالفت کرتے ہوئے دکھائی دیے۔ نوازشریف کے خط کے بعد نون لیگ کی مجلس عاملہ کوبالاخر اس معاملے پر بحث کا دروازہ بند کرنا پڑا۔ اب جو کچھ ہورہا ہے ، وہ لیپاپوتی ہے ۔ نون لیگ مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ میں اپنی محدود شرکت اور زیادہ گرم جوشی سے کام چلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہی کچھ مسلم لیگ نون کے بس میں ہے۔ اس سے زیادہ کا خواب دیکھنے والے یاد رکھیں کہ نون لیگ اپنے ہی طے کردہ نوازشریف کے عوامی استقبال پر بھی زیادہ کچھ نہیں کرسکی تھی، پھر اس دھرنے کو تو بیگانے کی شادی جیسا واقعہ خود نون لیگ کہہ رہی ہے، اس میں عبداللہ دیوانہ ہو کر کیا کرے گا۔ نپولین نے سچ ہی تو کہا تھا۔دیوان خانوں میں بیٹھ کر بکواس کرنے والے سیاست دانوں کی پروا کون کرتا ہے۔یہ طاقت کا کھیل ہے، یہاں انقلاب لفاظی سے نہیں، جاں سوزی سے آتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔