قاضی فائز عیسیٰ سے توقعات
شیئر کریں
سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گزشتہ روز سپریم کورٹ میں پریس ایسوسی ایشن کی تقریب حلف برداری میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سب کے لیے پیغام ہے کہ وہ جھوٹ بولنا چھوڑ دیں۔ ہر موقع پر سچ بولیں ہمارے نبیؐ نے بھی فرمایا ہے کہ مومن بزدل یا کنجوس تو ہو سکتا ہے مگر جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ سچ سچ ہی رہتا ہے،جسٹس فائز عیسیٰ نے مومن کی جو صفت بیان فرمائی ہے اس سے سرمو انحراف نہیں کیا جاسکتالیکن نامزد چیف جسٹس جو 16 /ستمبر کو ملک کی عدالت عظمیٰ کے سربراہ کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے اور25/ اکتوبر 2024ء تک یعنی کم وبیش13 ماہ اس عہدہئ جلیلہ پر فائز رہیں گے یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے ہی نہیں پوری دنیا میں عدلیہ میں وکیلوں کے بغیر مقدمات چل ہی نہیں سکتے اور مقدمات جیتنے کے لیے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنائے بغیر وکلاء حضرات کا کاروبار چل ہی نہیں سکتا اور اسی چیز کی وہ بھاری فیس وصول کرتے ہیں۔ کچھ یہی صورت حال ہماری سیاست کی ہے ہماری سیاست میں جھوٹ اتنا سرایت کر چکا ہے کہ جھوٹ کے بغیر سیاست کی ہی نہیں جا سکتی۔ ہر پارٹی کے منشور میں جھوٹے وعدے ضرور ہوتے ہیں سیاستدان اگر جھوٹے دعوے نہ کریں تو ان کی پارٹی کو مقبولیت مل ہی نہیں سکتی ہمارے سیاستداں ’اتناجھوٹ بولو کہ وہ سچ معلوم ہونے لگے‘ کے گوئبلز فارمولے پرعمل کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ جھوٹ بول کر عوام کی پزیرائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سادہ لوح عوام ان کے جھوٹ پر یقین کرتے ہوئے ان رہنماؤں کے دعوؤں اور تقاریر پر تالیاں بجاتے ہیں خواہ وہ سب جھوٹ ہو۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ جھوٹ کے بغیر سیاست چل سکتی ہے نہ وکالت۔اوریہ تو کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ جج وکلاء سے ہی چُنے جاتے ہیں۔
پاکستان کی عدالتوں اور سیاست میں جھوٹ کابول بالا ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا نظام انصاف نو آبادیاتی غلامی کے دور کے قوانین اور روایات کے ہاتھوں گھائل ہے۔اب، سوال یہ ہے کیا قاضی فائزعیسیٰ بطور چیف جسٹس13 ماہ کی مختصر مدت میں اسے ’ڈی کالونائز‘ کر سکیں گے؟ اگرچہ وہ ہمت کریں اور ملک کے صف اوّل کے وکلا ء اس کام میں ان کا ساتھ دیں تو وہ اس اہم کام کی ابتداء تو کر ہی سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کام، بنیادی طور پر کسی فرد واحد کا نہیں، پارلیمان کا ہے۔ 13 ماہ کی قلیل مدت میں کسی چیف جسٹس سے کچھ زیادہ توقعات وابستہ کر لینا بھی مناسب نہیں، تاہم اس کے باوجود دل امید کی ڈوری سے بندھا ہے کہ کوئی تو اس کام کو پایہئ تکمیل تک پہنچا سکے، اس کا نقش اوّل تو بن ہی سکتا ہے۔ سماج کو تو مرہم کی حاجت ہے، ابن مریم نہ سہی کوئی ’ابن عیسیٰ‘ ہی سہی۔پاکستان کا قانون، نظام انصاف اور فلسفہ قانون، جوہری طور پر نو آبادیاتی ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ اچھی طرح جانتے ہیں ہم آج تک اپنے ’نظریہ ضرورت‘ کے علاوہ کوئی اور بیانیہ تشکیل نہیں دے سکے۔ ہمارا قانون، ہمارا فلسفہئ قانون، ہمارا نظامِ انصاف سب کچھ وکٹوریائی تصور ِکائنات کا اسیر ہے۔ یہ نظامِ قانون و انصاف، شہریوں کے لیے نہیں رعایا کے لیے تھا۔ اس کا مقصد انصاف کی حقیقی فراہمی نہیں تھی، اس کا مقصد یہ تھا کہ رعایا کبھی آئندہ سر اٹھانے کی کوشش نہ کرسکے۔ یہ قانون ہم پرمسلط کیا گیا تھا۔ یہ قانون ہماری زبان میں نہیں تھا، اجنبی زبان میں تھا۔ چنانچہ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ آج رول آف لاء کے باب میں ہم دنیا میں 130 ویں نمبر پر کھڑے ہیں اور خود جناب قاضی فائز عیسیٰ وکلاء کے ملک گیر اجتماع سے سوال پوچھ چکے ہیں کہ کوئی ہے جو اس نظام انصاف سے مطمئن ہو، تو کوئی ایک وکیل بھی ہاتھ کھڑا نہیں کرتا۔اس پر اُن کے چہرے کے اپنے تاثرات قابل دید اور اپنی وضاحت آپ تھے۔ اس نو آبادیاتی دور کے قوانین کے ہوتے ہوئے قانون کی حکمرانی کاصرف خواب ہی دیکھاجاسکتاہے۔ یہ قانون کسی بااثر مجرم کو سزا نہیں دیتا بلکہ اس کی بریت کے راستے کھول دیتاہے لیکن طاقتور جسے سزا دینا چاہیں یہ اس کا جرم تلاش کر لیتا ہے۔ اس نظام انصاف کو ڈی کالونائز کرنا آسان کام نہیں ہوگا،اس کام کے آغاز میں ہی نامزد چیف جسٹس کو شاید اپنے ہی کچھ ساتھی ججوں کی ناراضی بھی مول لیناپڑے،اور وکلا کی ناراضی تو یقینی ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ چاہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔کچھ کام ایسے ہیں جو علامتی ہیں، جن کا تعلق تہذیب و ثقافت سے ہے اور جو لاشعور میں پڑی نو آبادیاتی گرہ کھول سکتے ہیں اور کچھ معاملات قانون اور آئین کی شرح کے ہیں جو نہ صرف ہماری سمت درست کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے پہلی مشکل یہ ہے کہ نو آبادیاتی گرہ زبان کی ہے۔ آئین اور قانون انگریزی میں ہے، عدالت کی کارروائی انگریزی میں ہوتی ہے، عدالت اپنے فیصلے انگریزی میں لکھتی ہے۔ سوال یہ ہے کیا پاکستان کے شہریوں کا یہ بنیادی حق نہیں کہ انہیں ان کا قانون ان کی زبان میں لکھ کر دیا جائے تاکہ وہ اس سے آگاہ ہوں، عدالت کی کارروائی کو سمجھ سکیں اور فیصلوں کو آسانی سے پڑھ سکیں؟اجنبی زبان میں قانون لکھ کر یہ قرار دینا کہ ’قانون سے ناواقفیت کوئی عذر نہیں‘ کیا انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے؟ نو آبادیاتی دور غلامی میں تو اس مشق کی سمجھ آتی تھی کہ انگریز کے نزدیک مقامی لوگ اور ان کی تہذیب حقیر تھی اور نو آبادیاتی بندوبست انہیں ’تہذیب‘ سکھانے آیا تھا لیکن ابھی تک اسی پر اصرار کی حکمت نا قابل فہم ہے۔ قاضی صاحب یہ گرہ ایک انتظامی فیصلے سے کھول سکتے ہیں۔ اس کے لیے کسی قانون سازی کی ضرورت نہیں۔نامزد چیف جسٹس کو اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ ہمارے عدالتی فیصلوں میں جان مارشل سے لے کر خلیل جبران تک سب کے حوالے موجود ہوتے ہیں، لیکن اپنے حقیقی اسلامی دور کے قاضیوں اور خلفائے راشدین کے معرکہ آرا فیصلوں اور اپنی تہذیب کے کتنے حوالے موجود ہوتے ہیں؟ہم فلسفہئ قانون کے لیے مغرب ہی کی طرف کیوں دیکھتے ہیں، اگر ریاست کا مملکتی مذہب اسلام ہے توخلفا ئے راشدین کے دور کے عدالتی فیصلوں سے روشنی کیوں نہیں حاصل کی جاسکتی؟
از خود نوٹس لینے کے اختیارات ہوں یا بنچ بنانے کے، بہت سے معاملات اصلاح طلب ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو اختیارات سپریم کورٹ کو دیے گئے ہیں وہ بھی عملاًا فردِ واحد یعنی چیف جسٹس کی ذات میں جمع ہو گئے ہیں۔ غیر ضروری جوڈیشل ایکٹوزم بھی اصل میں اسی رویے کا ایک عملی آزار ہے۔ اس سے نجات بھی ضروری ہے۔ نو آبادیاتی نظام لوگوں کی شکایت کا ازالہ ازرہِ احسان کرتا تھا، فرض سمجھ کر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ درخواستوں میں آج بھی prayer لکھا جاتا ہے اور انصاف کی التجا کی جاتی ہے، سائل آج بھی عرض گزار ہے، وہ انصاف کی ڈیمانڈ نہیں کر سکتا۔ وہ لجاجت سے صرف التجا کرتا ہے۔ نو آبادیاتی دور کے اس پہلو کا یہ منطقی نتیجہ ہے کہ مقدمات لٹک جاتے ہیں، برسوں فیصلہ نہیں ہوتا مقدمات کا انبار لگ رہاہے لیکن کبھی جج صاحب کی طبیعت ناساز ہوتی ہے کبھی وکیل مصروف ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ لوگ بری ہوں تو معلوم ہو تاہے کہ وہ تو پہلے ہی پھانسی پا چکے ہیں۔یہ گرہ بھی قاضی صاحب کے ایک انتظامی حکم نامے سے کھل سکتی ہے کہ انصاف کے لیے التجا نہیں کی جائے گی مطالبہ کیا جائے گا، prayer نہیں لکھی جائے گی ’ڈیمانڈ‘ لکھی جائے گی اور انصاف کی فراہمی رعا یاپر احسان نہیں، منصف پر فرض ہے۔فیڈرل جو ڈیشل اکیڈمی اور لا اینڈ جسٹس کمیشن جیسے ادارے چیف جسٹس کے ماتحت ہوتے ہیں لیکن اب تک ان کی کارکردگی کیا ہے؟ لا ء اینڈ جسٹس کمیشن کے آرڈی نینس کی دفعہ 6 کا کہنا ہے کہ یہ ادارہ اسلام کے سماجی عدل کے اصولوں کے مطابق قانون میں اصلاحات تجویز کرے گا۔ کیا کمیشن کی آج تک کی سفارشات میں کہیں اسلامی سماجی عدل کا کوئی ذکر ہے؟اسی طرح ہر سال کمیشن سپریم کورٹ کے زیرِ اہتمام ایک سالانہ جوڈیشل کانفرنس کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا ایجنڈا کیسے طے کیا جاتا ہے؟ اس سال آبادی کے مسئلے پر کانفرنس تھی۔ جوڈیشل کانفرنس کا آبادی سے کیا تعلق ہے؟ اس وقت عالم یہ ہے کہ کم وبیش 52 ہزار مقدمات تو صرف سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہیں۔تو کیا انسانی آبادی کے بجائے کانفرنس اس پر نہیں ہونی چاہیے تھی کہ سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں میں ’مقدمات کے انبار‘کو کیسے کنٹرول کی جائے؟
قاضی فائز عیسیٰ چاہیں تو جج حضرات اور عدالتی حکام کو ملنے والی غیر معمولی مراعات کو ایک حکم نامے سے کم کر سکتے ہیں۔وہ اپنے ادارے سے آغاز کریں اور پھر اس کا اطلاق ساری افسر شاہی پر کر دیں۔ہمارے نظام انصاف میں جو ’اسلامی ٹچ‘ دیا گیا ہے اس کی جڑیں بھی نوآبادیاتی بندوبست میں ہیں۔ ہمارے ہاں شریعت اپیلٹ بینچ کے ججوں کے ساتھ ہر اعتبار سے سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے۔ حتی کہ انہیں جج کا درجہ بھی صرف اس مختصر دورانیے کے لیے حاصل ہوتا ہے جب وہ بینچ کا حصہ ہوتے ہیں اور سماعت کر رہے ہوتے ہیں۔شریعت اپیلیٹ بینچ عملاً غیر فعال ہے اور اس کے سامنے پچھلی صدی کے مقدمات بھی فیصلے کے منتظر ہیں۔ قاضی صاحب چاہیں تو یہ بینچ بھی فعال ہو سکتا ہے۔ اور وہ چاہیں تو تمام جج صاحبان کے لیے اسلامی قانون سے آگہی کا بھی کوئی پروگرام شروع کر سکتے ہیں تا کہ الگ سے کسی اسلامی اور شرعی عدالت کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں شریعہ اکیڈیمی بنائی ہی اسی مقصد کے لیے گئی تھی۔
ایک اور بڑے مسئلے کا تعلق تعیناتی اور احتساب سے ہے۔ ججوں کی تعیناتی اور ججوں کے احتساب کی ذمہ داری آئین نے جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل پر ڈالی ہے۔ یہ دو الگ ادارے ہیں لیکن عملاً سپریم کورٹ کے ماتحت دکھائی دیتے ہیں۔ غور طلب معاملہ یہ ہے کہ ان کی الگ حیثیت کیسے قائم کی جائے، تعیناتی کا طریقِ کار کیسے شفاف بنایا جائے اور کڑا احتساب کیسے یقینی بنایا جائے؟ ججوں کو جو اعلیٰ مقام دیا گیا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا احتساب بھی کڑا ہو اور چونکہ جج ہی ججوں کا احتساب کرتے ہیں تو انھیں مثالی نمونہ پیش کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل یا تو عضو معطل کی طرح رہتا ہے یا کسی مخصوص جج کو نشانہ بنانا ہو تو تیز رفتار کارروائی کے ریکارڈ توڑ دیتا ہے۔ایک اور بڑا مسئلہ قانون کی تشریح سے متعلق ہے۔ ہمارا صرف قانون ہی نو آبادیاتی نہیں ہے بلکہ اس کی شرح بھی بالعموم کامن لاء ہی کے تناظر میں کی جاتی ہے اور کسی بھی نکتے کی تفہیم کے لیے عملاً کامن لاء کی روایات ہی معیار ہیں۔ فواد اسحاق بنام مہرین منصور کیس کے فیصلے میں جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جناب جسٹس طارق مسعود لکھ بھی چکے ہیں کہ قدیم امریکی اور یورپی تصورات بسا اوقات ہمارے پاکستان کے جج صاحبان کے ذہن میں بھی سرایت کر جاتے ہیں۔قانون کی شرح کرتے وقت ان یورپی اور امریکی قدیم تصورات کو ججوں کے ذہنوں سے باہر نکا لنے میں بھی قاضی فائز عیسیٰ بطور چیف جسٹس اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔نظام انصاف کا اس ملک میں جو حال ہے اس میں مناجات کے تو دفتر لکھے جا سکتے ہیں لیکن سو باتوں کی ایک بات یہی ہے کہ اس نظام قانون و انصاف کو ڈی کالونائز کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی کام قائد اعظم کر رہے تھے، اور انہوں نے ایکٹ آف انڈیا کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جب اپنی دستور ساز اسمبلی کے فیصلوں کو گورنر جنرل کی توثیق سے مبرا قرار دینے کی رسم ڈالی تو یہ گویا ڈی کالونائزیشن کا ارتقائی طریقہ تھا۔ افسوس کہ سپریم کورٹ کے جسٹس منیر کی سربراہی میں وضع کیے گئے نظریہئ ضرورت نے اس سارے عمل کو پامال کر دیا۔ تاریخ اب قائداعظم کے رفیق کار قاضی محمد عیسیٰ کے بیٹے کی طرف دیکھ رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ چیف جسٹس کا منصب ِ جلیلہ سنبھالنے کے بعدعملاً کیا کچھ کرتے ہیں؟