بھارت کو ادھیڑنے کا سنہری موقع (صحرا بہ صحرا.. انیس الرحمان)
شیئر کریں
بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جو کارروائیاں کی گئی ہیں اس کے روز اول سے لیکر اب تک جو حقائق کھل کر سامنے آئے ہیں ان کے مطابق:
٭ بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں اقدامات میں امریکااس کا برابر کا شریک ہے۔
٭ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے دانستہ کشمیر کے معاملے میں زیادہ دلچسپی دکھانے کی کوشش نہیں کی۔
٭ اسرائیل خود اس خطے میں پاکستان کے خلاف بھارت کی مدد کرنے کی غرض سے مقبوضہ کشمیر میں اپنے عسکری ماہرین اور کمانڈوز اتار چکا ہے۔
٭ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد مودی کے بین الاقوامی خصوصا خلیجی ممالک کے دورے بڑی منصوبہ بندی کا حصہ تھے جس کی پہلے سے تیاری کی جاچکی تھی۔
٭ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کو امریکی شہ اس وقت ملی جب افغانستان میں افغان طالبان اور امریکا کے درمیان امریکی شرائط پر معاہدے کی کوشش کی جارہی تھی۔
ان تمام چیدہ نکات کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں بھارت کو امریکا، یورپ اور اسرائیل کی مکمل تائید حاصل ہے اس لیے یہ بات طے ہے کہ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر کی جنگ اکیلے ہی لڑنا ہے۔ اس جنگ میں روس اور چین تو پاکستان کے طرفدار ہیں لیکن باقی تمام دنیا بھارت کے ساتھ کھڑی ہے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان حق پر نہیں بلکہ اس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ دنیا کسی طور بھی مسلمانوں کے معاملات اور بحرانوں کو سلجھانے کے لیے تیار نہیں بلکہ اس وقت دنیا کی تمام دجالی صہیونی قوتیں اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے اور ان کے وسائل پر اپنا قبضہ جمانے کی بد نیت لیے ہوئے ہیں۔ چار پانچ دہائیوں کی مسلسل کوششوں سے دنیا کو ایک ’’معاشی درندے‘‘ میں تبدیل کردیا گیا ہے جہاں دین، عقیدے، اخلاقیات اور انسانیت کی کوئی اہمیت نہیں ہے یہی ان دجالی قوتوں کا مقصد حقیقی ہے۔یہی وجہ ہے کہ عالمی جغرافیہ میں پاکستان جہاں واقع ہے یہ عالمی اقتصادیات کا دہانہ بن چکی ہے ۔ امریکاکو افغانستان میں اسی خاص مقصد کے تحت بھیجا گیا تھا ورنہ القاعدہ اور افغان طالبان تو محض ایک بہانہ تھے۔ اس بات کو بھی ہمیشہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ امریکا افغانستان میں مٹی کے گھروندوں پر بمباری کے لیے نہیں آیا تھا بلکہ جس مقصد کے لیے عالمی دجالی صہیونی قوتوں نے اسے افغانستان کی جانب دھکیلا تھا اس کا مقصد اولین پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو ٹھکانے لگانا اور چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی قوت کے سامنے بند باندھنا تھا تاکہ وسط ایشیائی ریاستوں کے معدنی وسائل پر آسانی سے ہاتھ صاف کیے جاسکیں اور مشرق وسطیٰ میں جس وقت اسرائیل کی عالمی دجالی سیادت کا اعلان ہو تو کوئی اسے روکنے والا نہ رہے۔
اس سلسلے میں دیکھنا یہ ہے کہ اس وقت دنیا کی واحد سپر طاقت کہلانے والا امریکا بذات خود کیا ہے اور دجالی اسٹریٹیجک میں اس کا کیا مقام ہے؟ یہ یہ بات بھی ہمارے بہت سے قارئین کو عجیب لگے گی کہ امریکا عالمی دجالی صہیونی بساط کا ایک طاقتور مہرہ تو ضرور ہے لیکن حکمت عملی میں اسے آزاد نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے مالیاتی امور صہیونیوں کے ہاتھ میں ہے، اس کے عسکری منصوبے دجالی صہیونی لابی ترتیب دیتی ہے، اس کی معاشی اور معاشرتی پالیسیوں میں عالمی صہیونیت پوری طرح دخیل ہے یوں کہا جاسکتا ہے کہ امریکا جغرافیے کے نام پر ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں پر عالمی دجالی صہیونی منصوبہ بندی کے تحت دنیا کے سرد گرم پر حاوی ہوا جاتا ہے۔ یہ عالمی دجالی صہیونی نیٹ ورک ایک ریاست کی شکل بھی رکھتا ہے جسے دنیا اسرائیل کے نام سے جانتی ہے اس لیے حقیقی معنوں میں دنیا پر اس وقت غلبہ امریکی کور میں اسرائیل کا ہے امریکا بذات خود کچھ نہیں۔۔۔!! اس کی صرف افرادی قوت فوج کی شکل میں اور معاشی قوت اخراجات کی شکل میں صرف کی جاتی ہے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے امریکی اور یورپین سفارتخانے اسرائیلی مفادات کے اڈے ہیں۔اس لیے اگر امریکی مائیں افغانستان میں اپنے بیٹوں کی ہلاکتوں کا ماتم کرتی رہیں تو اس سے عالمی دجالی صہیونی قوتوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر افغانستان کی مہم پر اب تک ایک ٹریلین ڈالر خرچ ہوچکے ہیں تو کوئی بات نہیں یہ خطیر رقم تو امریکی ٹیکس دہندگان کی جیبوں سے نکالی گئی ہے نہ کہ عالمی صہیونی سیسہ گروں نے اس کی ادائیگی کی ہے۔ ایک عام امریکی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جارہا ہے علاج اور سوشل کے نام پر اسے جو سہولیات درکار تھیں وہ مدتوں پہلے ختم کردی گئی ہیں۔
دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ دنیا کی ہر بڑی ٹیکنالوجی کے ادارے کا صدر دفاتر اسرائیل منتقل کیا جاچکا، عالمی مالیاتی اداروں اور بینکوں کے تمام مراکزاور ڈیٹا تل ابیب میں ہے، دنیا کی سب سے پہلی سلی کن ویلی تل ابیب میں قائم ہوئی تھی اس کے بعد امریکا کا نمبر آیا تھا۔امریکا میں صرف مذاکرات ہوتے ہیں فیصلے نہیں ہوتے، فیصلے تل ابیب میں کیے جاتے ہیں، یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت امریکا کی حیثیت ایک ’’فرنٹ مین‘‘ کی سی ہے جس کے تمام امور وہ شخص چلاتا ہے جسے دنیا ڈونالڈ ٹرمپ کا داماد جیرالڈ کوشنر کے نام سے جانتی ہے اور جو نیویارک کے ایک بڑے یہودی صہیونی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اسرائیل کی کابینہ میں نصف کے قریب انتہا پسند یہودی ربائی وزراء کی حیثیت سے کام کرتے ہیں لیکن دنیا کو اس پر اعتراض نہیں، بھارت میں آر ایس ایس نامی دہشت گرد تنظیم اقتدار میں آکر بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہے لیکن دنیا کو اس پر بھی اعتراض نہیں کیونکہ یہ سب کچھ اسرائیل کی انتہا پسند حکومت کے حق میں ہے لیکن اگرپاکستان میں عدم ثبوت کی بناپرحافظ سعید کو آزاد کردیا جائے تو تمام دنیا کے پیٹ میں مروڑ اٹھ جاتی ہے۔کیا یورپ اور امریکا کے عیسائی حکمران اس بات سے واقف نہیں کہ مودی کا بھارت نہ صرف مسلمانوں بلکہ عیسائیوں کا بھی اتنا ہی دشمن ہے ۔
کیا بھارتی گرجا گھروں کو نذر آتش اور عیسائیوں کو زندہ جلانے کے واقعات عالمی میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوئے لیکن یورپ کی کسی عیسائی ریاست یا امریکا نے محض مذہب کے نام پر ہی بھارتی عیسائیوں کی حمایت میں کوئی بیان دیا ہو، لیکن ایسا نہیں ہو ا۔ ایک عرصے سے اسرائیلی فوجی فلسطینی مسلمانوں کے بچے عالمی میڈیا کے سامنے اغوا کرکے جیلوں میں بند کررہے تھے لیکن عالمی حکومتوں نے چپ سادھے رکھی اب یہی کام بھارتی فوج اور آر ایس ایس RSSکے غنڈے مقبوضہ وادی میں کررہے ہیں لیکن اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی انسانی حقوق کے ادارے خاموش ہیں۔
یہ ہے وہ صورتحال جس میں اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے اپنے کمانڈوز سیاحوں کے روپ میں مقبوضہ وادی میں اتار دیے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں لھیا کے مقام پر اسرائیلی ـ’’سیاحوں‘‘ کی بھرمار ہوچکی ہے کہا جاتا ہے کہ اسرائیلیوں کے سوااس وقت مقبوضہ کشمیر میں کوئی غیر ملکی سیاح موجود نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں جب کسی علاقے میں کشیدگی انتہا کو پہنچ چکی ہو وہاں سے غیر ملکی سیاح بہت پہلے نکل یا نکالے جاچکے ہوتے ہیں لیکن اسرائیلی ’’سیاحوں‘‘ کی آمد کا سلسلے اس وقت شروع ہوا ہے جب خطے میں کشیدگی عروج پر پہنچ چکی ہے اور جنگ کی تلوار دونوں ملکوں کے سر پر لٹک رہی ہے۔ ایسے میں اسرائیلی سیاحوں کا مقبوضہ وادی میں پہنچنا چہ معنی دارد ؟
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بھارتی حکومت کی جانب سے اسرائیلی ’’سیاحوں‘‘ کی حفاظت کا ذمہ بھی بھارتی سیکورٹی فورس کے ذمہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق مقامی باشندوں کے مطابق بہت سے اسرائیلی ’’سیاح‘‘ خود اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ ماضی میں اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ اس لیے یہ بات اب پوری طرح عیاں ہوتی جارہی ہے کہ اسرائیل خود اس خطے میں پاکستان کے خلاف عسکری مہم جوئی کا حصہ بننے مقبوضہ کشمیر میں موجود ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہورہا 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد سقوط ڈھاکا میں اسرائیل نے کس طرح بھارت کی پاکستان کے خلاف مدد کی تھی وہ اب تاریخ کے اوراق پر عیاں ہوچکی ہے ۔ پاکستان کے جوہری پروگرام کی تکمیل کے دوران بھارت اور اسرائیل کس کس انداز میں اس کے خلاف منصوبہ بندی کرتے رہے ہیں وہ اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے گزشتہ فروری میں بھارتی مہم کے دوران پاکستانی شاہینوں نے جب بھارتی طیاروں کو زمین پر ناک رگڑوائی تھی تو اس میں اسرائیلی طیارے بھی موجود تھے اور ایک پائلٹ تاحال پاکستان کی قید میں ہے۔ اس لیے آنے والے وقت میں جنگ کا دائرہ کس حد تک وسیع ہوسکتا ہے اس کا اندازہ لگانا اب مشکل نہیں۔
بھارت کے لیے پاکستان کے خلاف مہم جوئی اب اس لیے بھی ضروری ہوتی نظر آرہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اٹحایا جانے والا مودی کا قدم خود اس کے گلے پڑ چکا ہے۔ بھارتی بنئے کو جو سبز باغ عالمی صہیونیت نے دکھایا تھا اس کے مطابق ایسا ہی لگتا ہے کہ بھارتی حکومت یہ سمجھ رہی تھی کہ آئین کی شق 370ختم کرکے اور مقبوضہ وادی میں مزید فوج بھیج کر اور کشمیری مسلمانوں کوان کے گھروں میںقید کرکے چند دنوں میں یہ مسئلہ حل کرلیا جائے گا۔ یہی وہ سبز باغ ہے جو امریکا اور یورپ کو افغانستان پر حملے سے پہلے دکھایا گیا تھا کہ ـپاکستان جیسے افغان طالبان حکومت کے حمایتی ملکوں کو زیر کرلیا گیا ہے، نیٹو کی بھرپور عسکری قوت اور شمالی اتحاد کی بھرپور معاونت کے بل بوتے پر چند دنوں میں طالبان مجاہدین کو افغانستان کے نقشے سے مٹا دیا جائے گا۔اس تصور کے ساتھ امریکا بہادر کو افغانستان روانہ کردیا گیا لیکن کچھ عرصے بعد کیا ہوا ؟ خود امریکی اتحاد میں شامل برطانیا اور فرانس جیسے ملکوں کو افغانستان میں اپنے دستوں پر حملہ نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ اس کی قیمت ڈالروں کی شکل میں افغان طالبان کو ادا کرنا پڑتی تھی اس کے بعد پہلی فرصت میں یہ امریکی اتحادی افغانستان سے بھاگ گئے اور امریکی پاکستان کو کوسنے دینے لگے ایک فیصلہ عالمی دجالی صہیونیت کا تھا اور ایک فیصلہ رب العالمین کا تھا اور نتائج ہمیشہ رب العالمین کے فیصلوں کے مطابق نکلا کرتے ہیں۔
دجالی صہیونی قوتیں صرف فیصلہ کرسکتی ہیں لیکن ان کے نتائج پر کائنات میں اللہ رب العزت کے سوا کسی کا اختیار نہیں۔کیا سوویت یونین جیسی قاہرانہ قوت اس لئے افغانستان آئی تھی کہ آخر میں اس کا وجود تاریخ کا حصہ بن جائے ۔ افغانستان آنے کا فیصلہ ماسکو کا تھا لیکن اس کے نتائج کا اسے گمان تک نہ تھا۔ یہی حال اب امریکا کا ہے اور یہی حال اب آگے چل کر بھارت کے انتہا پسند ہندوبنیے کا ہونے جارہا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا صرف فیصلہ ہی بھارتی ہندو بنیا کرسکتا تھا جو اس نے کیا لیکن بعد میں ہوگا کیا اس کا علم صرف اللہ رب العزت کی ذات کو ہے۔ بھارتی قصاب مودی کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ جنوبی ہند میں واقع بھارتی ریاستوں کی علیحدگی پسند تنظیمیں مزید شدت کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوں گی، اس نے بیس لاکھ سے زائد آسام کے مسلمانوں کی بھارتی شہریت منسوخ کرکے انہیں غیر ملکی قرار دے کر ان کی اربوں روپے کی جائدادیں ہتھیانے کا منصوبہ بنا لیا ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ خبریں ہیں کہ بڑے بڑے قصبوں کی طرح ایسے کیمپ بنائے جائیں گے جہاں ان مسلمانوں کو رکھا جائے گاآگے چل کر اگر یہی کیمپ تربیتی کیمپوں میں تبدیل ہوگئے تو کوئی کیا کرسکے گا؟ آنے والے وقت میں جو ہڑبونگ بھارت میں ہونے جارہی ہے اس کے دوران کوئی بے وقوف سرمایہ کار ہی ہوگا جو بھارت میں سرمایہ لائے گا۔
امریکا، اسرائیل، یورپ یا چند عرب ملک اگر مقبوضہ کشمیر کی سرزمین پر سرمایہ کاری کی بنیاد پر فیکٹریاں یا کچھ اور قائم کرنے کی سوچ رہے ہیں تو ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اگر گڑ بڑ کے نام پر امریکہ مقبوضہ کشمیر میں ’’امن فوج‘‘ کے نام پر عسکری مداخلت کا خیال رکھتا ہے تو یہ اتنا آسان نہیں کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ افغانستان میں جو مار تاحال امریکا کو پڑ رہی ہے اس کا دائرہ مقبوضہ وادی تک پہنچ جائے اور روس اور چین اسے کیسے برداشت کریں گے اس کا بھی کسی کو کوئی علم نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم اس جانب اشارہ کررہے ہیں کہ آنے والے وقت میں وادی کی صورتحال سے گھبرا کر اگر بھارت پاکستان پر حملہ کردیتا ہے تو ہمیں اس کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ دنیا کہیں کی کہیں جاچکی ہے سفارتی، سیاسی اور اخلاقی معاملات کی بساط الٹ چکی ہے عالمی مالیاتی دجالی قوتوں نے دنیا کو معاشی وحشت ناکی میں تبدیل کردیا ہے اور مالیاتی مفادات کے سوا کسی کی کوئی اہمیت نہیں رہی اس لئے پاکستان کو چاہئے کہ وہ سفارتی سطح پراور بیانات کی سیاست تک محدود نہ رہے ۔ ہم ستر برس تک اقوام متحدہ کی سرخ بتی کے پیچھے لگے رہے ہیں لیکن بھارت نے آج ہمیں پھر 1948ء والے مقام پر لا کھڑا کیا ہے اور وہ بھی اس صورتحال میں جب ہماری معاشی صورتحال سابق سیاستدان اور حکمران قومی دولت کی لوٹ مار کرکے مخدوش کرگئے۔
اس موقع پر جرأت مندانہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ پاکستان اپنی پراکسیز کو آزاد کرے، لائن آف کنٹرول کی باڑ کو اکھاڑ پھینکے۔ معاملات کو صرف مقبوضہ کشمیر تک اب محدود نہ رکھا جائے بلکہ بھارتی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے تحفظ کا بھی علم بلند کیا جائے۔ ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ بھارت ایک مصنوعی ملک ہے یہ تاریخ میں کبھی اس طرح متحد نہیں رہا۔ بھارتی برہمن نے اکھنڈ بھارت کی آڑ میں موجودہ ہندوستان کو متحد رکھنے کی کوشش کی ہے تاکہ یہاں پر دیگر ذاتوں اور اقلیتوں کو زیر دام رکھا جاسکے، تاریخ میں
کسی ’’اکھنڈ بھارت ‘‘ کا کوئی وجود نہیں۔ اس وقت ہندوتواکے نام پر بھارت کی بنیا اسٹیبلشمنٹ نے خود اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری ہے۔ اقوام متحدہ نے زبان نہ کھول کر پاکستان کے ہاتھ پائوں کھول دیے ہیں جو اس نے اس سے پہلے ’’استصواب رائے‘‘ کی رسی سے باندھ رکھے تھے ۔ دونوں ملک چونکہ اٹیمی قوت ہیں اس لیے دونوں جانب سے ایٹمی جنگ کا فی الحال کوئی خطرہ نہیں لیکن روایتی اور پراکسی جنگ میں بھارت پاکستان کا مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھ ودیگر غیر ہندو اقلتیں بھی پاکستان کا دست بازو ہیں۔ مسلمانوں کی جہادی قوت جتنی زیادہ بے سروسامان رہی اتنی ہی کامیاب بھی رہی ہے، افغان طالبان اکیسیوں صدی کا معجزہ ہیں ۔ ایک طرف دوحہ میں وہ امریکا کے اصرار پر مذاکرات کررہے ہیں تو دوسری جانب افغانستان میں اس کی دُرگت بنا رہے ہیں۔ ایک طرف خبر آتی ہے کہ دوحہ میں ہونے والے ’’امن مذاکرات‘‘ کو افغان طالبان نے حوصلہ افزا قرار دیا ہے تو اسی وقت دوسری خبر یہ بھی آتی ہے کہ افغان طالبان نے شمالی افغانستان پر دھاوا بول دیا ہے اور قندوز میں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔