نوح میں دہشت کی حکمرانی
شیئر کریں
معصوم مرادآبادی
ہریانہ کے شہر نوح میں فرقہ وارانہ تصادم کے بعد دہشت کی حکمرانی ہے ۔ دہشت پسندوں کی شرانگیزیوں کے بعدپولیس اور انتظامیہ مسلمانوں پر یک طرفہ قہر ڈھارہے ہیں۔ ہائی کورٹ کی مداخلت کے بعد مسلمانوں کے مکانوں اور کاروباری اداروں کے وحشیانہ انہدام کا سلسلہ تو رک گیا ہے ، لیکن اندھا دھند گرفتاریوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے ۔اس کے علاوہ مسلمانوں کے سرپہ معاشی اور سماجی بائیکاٹ کی تلوار بھی لٹک رہی ہے ۔ سپریم کورٹ میں اس معاملے کی سماعت کے دوران عرضی گذارصحافی شاہین عبداللہ نے نوح میں فرقہ وارانہ تصادم کے بعد حصار میں سمست ہندو سماج نامی تنظیم کی طرف سے مسلمانوں کے سماجی اور معاشی بائیکاٹ کی اپیل کا ویڈیو عدالت میں پیش کیا ہے ۔ عرضی گزار نے اس قسم کی ریلیوں کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوں کی طعن وتشنیع اور انھیں کھلے عام تشدد اور قتل کرنے کی اپیلوں کا اثر صرف محدود علاقوں تک نہیں رہے گا بلکہ اس سے پورے ملک میں انتشار پھیلے گا۔عرضی میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ ریاست اور ضلع انتظامیہ کو اس بات کو یقینی بنانے کی ہدایت دے کہ اس طرح کی نفرت نگیز تقاریر والی ریلیوں کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ اس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہوگی۔اس سے قبل نوح میں مسلسل کئی روز تک کی گئی غیرقانونی انہدامی کارروائی پر روک کا حکم دیتے ہوئے عدالت عالیہ نے پوچھا تھاکہ کیا نظم ونسق کے مسئلہ کی آڑ میں ایک مخصوص فرقہ کی جائیداد منہدم کی گئی ہے ؟کیا نسلی صفائے کی مشق کی جارہی ہے ؟دراصل ہریانہ سرکار نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور فساد بھڑکانے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے جس بے شرمی کے ساتھ مسلمانوں کو تباہ وبرباد کرنے کی مہم چلائی، وہ حکمرانی کے نام پر ایک سیاہ داغ ہے ۔ دستور پر ہاتھ رکھ کر سب کے ساتھ بلاتفریق مذہب وعقیدہ انصاف کرنے کا عہد کرنے والی حکومت ہی جب کمزور طبقوں کے ساتھ ظلم وستم کی علامت بن جائے تو پھر اس ملک میں باقی ہی کیا رہتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہائی کورٹ کو اس معاملے میں مداخلت کرنی پڑی اور اس نے صوبائی حکومت کی سرزنش بھی کی۔ بعد کو اس معاملہ پر سخت تبصرے کرنے والے ججوں کو تبدیل کردیا گیا۔ اس کے بعد معاملہ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے جسٹس ارون پلی کی ڈویژن بنچ کے پاس پہنچ گیا ہے ، جہاں سرکار کو تحریری جواب داخل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
اگرہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے نوح میں مسلمانوں کے مکانوں اور تجارتی اداروں پرچل رہے بلڈوزور پر روک نہیں لگائی ہوتی تو اب تک یہ علاقہ میدان جنگ کا منظر پیش کررہا ہوتا۔کئی روز تک چلی اس انہدامی کارروائی میں مسلمانوں کی سیکڑوں جائدادیں نیست ونابود کردی گئی ہیں۔اس دوران 750 سے زیادہ مکان، دکانیں،شوروم، جھگیاں منہدم کئے گئے ہیں۔انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ اس دوران 57ایکڑ زمین ناجائز قبضوں سے آزاد کرائی گئی ہے ۔ اس میں روہنگیا پناہ گزینوں کی250 جھگیاں بھی شامل ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن زمینوں پر مسلمان برسوں سے آباد تھے ، وہ فساد ہوتے ہی اچانک ناجائز اور غیرقانونی کیسے ہوگئیں؟ اگر وہ غیرقانونی تھیں تو پھر انھیں منہدم کرنے سے پہلے مکینوں کو نوٹس کیوں نہیں دئیے گئے ؟یہ اور اس جیسے ڈھیروں سوالات اس انہدامی کارروائی کی کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں، لیکن ان میں سے کسی کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
نوح میں جس یاترا کے دوران فساد برپا ہوا تھا، اس میں شرپسندوں نے مسلمانوں کو حددرجہ مشتعل کرکے ان پر حملے کئے تھے ۔ جب مسلمانوں نے اپنے دفاع میں اقدام کیا تو انھیں سرکاری مشنری نے یک طرفہ طورپر نشانہ بنایا۔ نہ صرف سیکڑوں مسلمانوں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیابلکہ ان کی املاک کو جس بے دردی اور سفاکی کے ساتھ منہدم کیا گیا ہے ، اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ نوح میں برپا ہوا تشدد پوری طرح انتظامی مشنری کی ناکامی کا مظہر تھا، لیکن کسی سرکاری اہل کار سے کوئی بازپرس نہیں کی گئی اور نہ ہی ہندو انتہا پسند تنظیموں کے ان دہشت پسندوں سے کچھ کہا گیا جنھوں نے نوح میں تشدد کا اسکرپٹ لکھا تھا۔25سے زائد مسلمانوں کے خلاف قتل کے مقدمات درج کئے گئے ہیں اور انھیں ایسی سنگین دفعات میں ماخوذ کیا گیا ہے کہ وہ ساری عمر ایڑیاں ہی رگڑتے رہیں گے ۔ اس کے برعکسمسلمانوں کو کھلی دھمکیاں دینے والے مونو مانیسر اور اور بٹو بجرنگی کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے ۔انتظامی مشنری کی جانبداری کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف سوشل میڈیا پربے ہودہ پروپیگنڈہ کرنے والے بٹو بجرنگی کو پولیس نے معمولی دفعات کے تحت گرفتار تو کیا، لیکن اسے تھانے سے ہی ضمانت دے کر آزاد کردیا گیا۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ بی جے پی اقتدار والی کسی ریاست میں مسلمانوں کو بے گھر اور بے در کیا گیا ہے بلکہ اس سے پہلے اترپردیش اورمدھیہ پردیش میں بھی ہی سب کچھ ہوچکاہے ۔مذہبی جلوس میں پتھراؤ کا الزام لگاکر سیکڑوں مسلمانوں کے مکانوں اور دکانوں کو منہدم کیا گیاہے ۔ آج بی جے پی کے اقتدار والی کئی ریاستوں میں مسلمان بڑی بے بسی اور بے کسی کی زندگی گزاررہے ہیں۔یہی سب کچھ ہریانہ کے نوح اور دیگر شہروں میں بھی ہوا ہے ۔سب کے ساتھ یکساں انصاف کرنے کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی حکومتیں مسلمانوں کے ساتھ جس ظلم وناانصافی کا مظاہرہ کررہی ہیں، وہ ہندوستانی دستور کا کھلا مذاق ہے ۔ دستور میں واضح طور پر بلاتفریق مذہب وعقیدہ سبھی شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں کے کاندھوں پر ڈالی گئی ہے ۔لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دستوری ضمانت بے معنی ہوچکی ہے ۔ اندھی فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی ہی بی جے پی سرکاروں کا ایجنڈا ہے جس پر پوری بے شرمی کے ساتھ عمل کیا جارہا ہے ۔ ہریانہ میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی اور نفرت انگیز تقاریر کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے ملک میں نفرت انگیز تقریروں پر مرکزی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے پورے ملک میں اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے کمیٹی بنانے کا حکم جاری کیا ہے ۔سپریم کورٹ نے کہا ہے کہفرقوں کے درمیان ہم آہنگی ہونی چاہئے ۔ جسٹس سنجیو کھنہ اور ایس وی این بھٹی کی بنچ نے نفرت انگیز تقریروں پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کو کوئی قبول نہیں کرسکتا۔سپریم کورٹ کے روبرو مرکز کی نریندرمودی حکومت نے اس قسم کی نفرت انگیز تقاریر سے پلہ جھاڑتے ہوئے کہا کہ وہ اس کی حمایت نہیں کرتی تاہم حکومت نے عدالت کو یہ نہیں بتایا کہ ہریانہ میں اسی کی حکومت ہونے کے باوجود اس طرح کے عناصر کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہورہی ہے ؟
نوح کے واقعات کے بعد پوری ریاست میں مسلمانوں کا جینا محال کردیا گیا ہے ۔ سیکڑوں خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ کئی
پنچایتوں میں ان کے سماجی اور معاشی بائیکاٹ کی تجاویز منظور کی گئی ہیں، لیکن ان معاملوں میں سرکاری مشنری نے خاطیوں کو سزا دینے کے لیے کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی ہے ۔گروگرام میں مسلمانوں کو ملازم رکھنے والوں کو وارننگ دی گئی ہے کہ اگر انھوں نے ایسا کیا تو وہ قوم کے غدار کہلائیں گے ۔ غرضیکہ ہریانہ میں اس وقت مسلمان ہونا سب سے بڑا جرم ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہریانہ کے متاثرہ مسلمانوں کی ہرسطح پر دادرسی کی جانی چاہئے اور انھیں ہرقسم کی قانونی، معاشی اور اخلاقی امداد فراہم کی جائے ، تاکہ وہ موجود حالات سے نبرد آزما ہو سکیں۔ نوح میں مسلمانوں کی کمر توڑ دی گئی ہے ۔
٭٭٭