پی ٹی آئی رہنماؤں کیخلاف نیب کی نمائشی کارروائیاں
شیئر کریں
(رپورٹ: شعیب مختار) پی ٹی آئی رہنماؤں کیخلاف قومی احتساب بیورو نمائشی کارروائیاں کرنے لگا وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے دستِ راز خسرو بختیار کیخلاف جاری انکوائری سرد خانے کی نذر کر دی گئی حکومت میں عہدہ ملنے کے بعد وفاقی وزیر اور ان کے خاندان کے اثاثوں میں بے تحاشہ اضافہ ہونے کی گتھی ڈیڑھ برس بعد بھی تاحال نہ سلجھ سکی وفاقی وزیر اور ان کے اہلخانہ کی 10کمپنیوں اور چار شوگر ملوں سے متعلق تفتیشی رپورٹ دبا دی گئی ذرائع کے مطابق2004 میں حکومت میں عہدہ سنبھالنے سے قبل وفاقی وزیر کے نام پر 1217 کنال اراضی،والد کے نام پر 1598کنال اراضی،والدہ کے نام پر 450کنال اراضی اور دیگر اہلخانہ میں عمر نامی ان کے رشتہ دار کے نام 1217کنال جبکہ ایک اور رشتہ دار ہاشم کے نام پر1220کنال اراضی موجود تھی جن کی کل تعداد 5707 کنال تھی بعد ازاں خسرو بختیار کے حکومت میں عہدہ سنبھالنے کے بعد ان کے اہلخانہ اثاثوکے ں میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آ یا ہے جس کے تحت وفاقی وزیر کی جانب سے حکومت میں آنے کے چند برسوں بعد ہی 2078کینال اراضی خریدی گئی ہے جس کے بعد ان کی اور ان کے اہلخانہ کی ملکیت میں شمار کی جانے والی موجودہ اراضی کی تعداد 7780کنال بتائی جاتی ہے ۔وفاقی وزیر اور ان کے خاندان کے افراد کی چار شوگر ملوں میں بھی شراکت داری ہے جن میں رحیم یار خان شوگر مل،شاہ تاج شوگر مل،کمالیہ شوگر مل اور اتحاد شوگر مل شامل ہیں ان تمام تر شوگر ملوں میں وفاقی وزیر اور ان کا خاندان مالکانہ حقوق کا حامل بتایا جاتا ہے 2006 میں ان کے خاندان کی جانب سے سب سے زیادہ اراضی خریدی گئی ہے ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر اور ان کے خاندان کے نام پر پانچ پاور جنریشن کمپنیاں 4کیپیٹل انویسٹمنٹ کمپنیاں اور ایک ایتھنال کمپنی کے علاوہ کروڑوں روپے کی جائیدادیں موجود ہیں جن میں لاہور کینٹ کے علاقے میں تین کنال کا بنگلہ،خیابان بخاری ڈیفنس میں ایک بنگلہ،ڈی ایچ اے اسلام آ باد میں ایک بنگلہ،لاہور کے علاقہ شامی کیولری گراؤنڈ میں ایک بنگلہ شامل ہے جو ان کی رشتہ دار حنا ہاشم کے نام پر موجود ہے جبکہ لاہور کے علاقے گلبرگ میں ایک بنگلہ،ڈی ایچ اے لاہور میں ایک کنال کے تین پلاٹ جبکہ 5/5مرلہ کے دو پلاٹ بھی وفاقی وزیر اور ان کے اہلخانہ کی ملکیت میں شمار کیے جاتے ہیں جن کی قیمتیں اعداد و شمار کے مطابق کھربوں روپے بنتی ہیں نیب ملتان کی جانب سے جون 2018 میں احسن عابد ایڈوکیٹ کی شکایت پر خسرو بختیار کیخلاف تحقیقات کا آغاز کیا گیا تھا جس پر حکومتی شخصیات کی مداخلت پر انکوائری بند کر دی گئی ہے اور مسلسل تا خیری حربے اپنائے جا رہے ہیں۔