یوم آزادی پر پاک فوج کے سربراہ کی قوم کوتلقین
شیئر کریں
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستان بہت محنت اور لازوال قربانیوں کے بعد حاصل ہوا اور اس کو نقصان پہنچانے والے دشمنوں کے عزائم کو خاک میں ملا دیں گے۔واہگہ کی سرحد پر پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاک فوج کے سپہ سالارنے کہا کہ جس قوم کا جذبہ اس قدر شاندار ہو اور جو ملک اللہ اور رسول ؐ کے نام پر حاصل کیا گیا ہو، اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو معاشی، سیاسی اور دفاعی لحاظ سے کمزور تھا کیونکہ بھارت نے ہمارے حق پر قبضہ کر لیا تھا لیکن قلیل وسائل کے باوجود ہمارے بزرگوں نے انتھک محنت کر کے اس ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا اور آج پاکستان ایک مضبوط ملک ہے جو دن بدن ترقی کرتا جا رہا ہے۔آرمی چیف نے کہا کہ اس سفر میں ہم سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں جن سے ہم نے سیکھا اور آج اللہ کے کرم سے ملک اپنے اصل راستے پر گامزن ہے جو آئین اور قانون کا راستا ہے، ہر ادارہ ایمانداری اور تندہی کے ساتھ اپنا کام کر رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب ہم پاکستان کو قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کا پاکستان بنا کر دم لیں گے۔آرمی چیف نے اس موقع پر یہ واضح کیاکہ ہمارے دشمن مغرب میں ہوں یا مشرق میں ہم ہر طرح سے ہوشیار اور تیار ہیں، دہشت گردوں کو چن چن کر ماریں گے اور انہیں انجام تک پہنچائیں گے، دہشت گردوں کی گولیاں ختم ہو جائیں گی لیکن ہمارے جوانوں کی چھاتیاں ختم نہیں ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ قوم کے عزائم کو کوئی خطرہ متزلزل نہیں کر سکتا کیونکہ ہر پاکستانی آپریشن رد الفساد کا سپاہی ہے اور قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ پاک فوج اور دیگر ادارے قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔
پاک فوج کے سربراہ کے اس خیال سے عدم اتفاق نہیں کیاجاسکتا کہ ہم نے حصول آزادی سے قبل اور حصول آزادی کے بعد اس سفر میں بہت سی قربانیاں دی ہیں، چاہے وہ 48، 65 یا 71 کی جنگ ہو یا کارگل کا معرکہ، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا آپریشن راہ راست و آپریشن ردالفساد، پاک فوج نے ہر مرحلے پر وطن عزیز کے لیے لازوال قربانیاں دی ہیں، آج جو چراغ جل رہے ہیں ان میں ہمارے شہیدوں کا خون شامل ہے، ہم پر اپنے ان شہیدوں کا خون قرض ہے، ہم اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جس نے سیاچن کے مشکل ترین علاقے میں اپنے جوانوں کے جسد خاکی نکالنے کیلئے پورا گلیشئرکھود ڈالا، اگر ہم اتنا کٹھن کام کر سکتے ہیں تواس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری مسلح افواج کے جوان پاکستان کے ہر دہشت گرد کو چن چن کر ماریں گے۔اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کایہ کہنا بالکل درست ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ریاستی اداروں کو باہم موثر تعاون کرنا ہوگا جب کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ امن کے حصول تک جاری رہے گی۔ شہدانے پرامن اورمستحکم پاکستان کیلئے جانیں قربان کیں۔
اس وقت ہمارے دیرینہ مکار دشمن بھارت قائداعظم کی زیر قیادت برصغیر کے مسلمانوں کی بے پایاں جدوجہد سے آزاد مملکت کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے والے ملک خداداد پاکستان کی سلامتی کے خلاف جو گھنائونی سازشیں کی جا رہی ہیںاور شہ رگ پاکستان کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے کے لیے بھارتی فوجوں اور پیراملٹری فورسز نے جس وحشیانہ انداز میں کشمیریوں کا عرصہ حیات تنگ کرکے بالخصوص کشمیری نوجوانوں کو شہید اور مستقل اپاہج کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے‘ اسکے پیش نظر یوم آزادی کے موقع پرقوم اور حکومت کی جانب سے کشمیری عوام کو انکی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی کا پیغام دینا اور ملک کی سلامتی‘ خودمختاری کے تحفظ کے لیے بھی پوری قوم کا یکجہت ہونا اور اسکے ساتھ ساتھ قیام پاکستان کے مقاصد سے بالخصوص نئی نسل کو آگاہ رکھنا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔
یہ حقیقت تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہو چکی ہے کہ متعصب ہندو اکثریت نے مسلم دشمنی کے باعث برصغیر کے مسلمانوں پرعرصہ حیات تنگ کرکے اور انہیں اپنے سے کمتر انسان کا درجہ دیکر خود دو قومی نظریے کی بنیاد رکھی تھی جو تحریک پاکستان کی بھی بنیاد بنی اور بالآخر قیام پاکستان پر منتج ہوئی‘ جس میں قائداعظم کی بے بدل قیادت میں ایک ایسے جدید اسلامی فلاحی جمہوری معاشرے کی تشکیل اور اس آزاد و خودمختار پاکستان کا تصور متعین ہوا‘۔
بدقسمتی سے قائد کے پاکستان کو پہلے مفاد پرست سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ نے جمہوری عدم استحکام پیدا کرکے نقصان پہنچایا جبکہ آج دہشت گردی کا ناسور ملک کی بنیادیں ہلا رہا ہے اور اس ناسور سے خلاصی کے لیے مشترکہ سوچ کے تحت وضع کیا گیا نیشنل ایکشن پلان بھی موثر ثابت نہیںہو رہا۔ ضرب عضب کے فالو اپ میں آپریشن ردالفساد جاری ہے مگر دہشتگردی کے خاتمے کے لیے کوئی ٹائم فریم سامنے نہیں ہے۔ گو سیاسی اور عسکری قیادتوں کی طرف سے دہشتگردوں کی کمر توڑنے کے دعوے تو کئے جاتے ہیں مگر ان کی نفی دہشت گرد وقفے وقفے سے بھیانک اور ہولناک وارداتوں سے کرتے رہتے ہیں۔ بھارت افغانستان کی سرزمین پاکستان میں مداخلت کے لیے استعمال کرتا ہے۔ پاکستان سے مفرور دہشت گردوں کے افغانستان میں ٹھکانے ہیں ، بھارت ان کو بھی استعمال کرتا ہے۔ سردست ، سہولت کاروں کے خاتمے کو ترجیح اول میں رکھنا ہوگا۔ دہشتگردی کی موجودہ فضا میں قوم کے اندر یکجہتی اور یگانگت کی اشد ضرورت ہے۔ قوم میں اتحاد پیدا کرنے کی اولین ذمہ داری سیاستدانوں کی ہے مگر سیاست میں آج جو انتشار اور خلفشار پایا جاتا ہے، ایسا ماضی میں خال خال ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ سیاستدانوں کے عدم برداشت کے رویئے قوم کو تقسیم کر رہے ہیں۔ تحمل اور برداشت کی جگہ نفرت لے رہی ہے۔اختلافات ذاتی دشمنیوں تک جا رہے ہیں۔ میاں نوازشریف کو سپریم کورٹ کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے لئے نااہل قرار دیا گیا تو وہ اسلام آباد سے لاہور پاور شو کرتے ہوئے پہنچے۔ ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ ججوں پر بھی سخت تنقید کرتے رہے جس سے ظاہرہوتاہے کہ وہ محض اپنی کرسی کے لیے اداروں کے درمیان محاذ آرائی سے بھی گریز نہیں کرنا چاہتے اور ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر عوام کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت پر یلغار کرنے کے لیے اکسارہے ہیں ، نواز شریف کے اس طرز عمل نے ان کی جمہوریت پسندی کے ساتھ ہی ان کے اندر موجود منتقمانہ جذبے اورخود غرضی کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔ ان کے مخالفین کی طرف سے کوئی قابل تحسین رویہ اختیار نہیں کیاگیا اور ان کی جانب سے بھی نواز شریف کی لاف زنی کے جواب میں سخت اور اشتعال انگیز لب و لہجہ اختیار کیا جاتا رہا ۔
اس وقت جبکہ ملک کی سلامتی کے خلاف ہمارا دشمن بھارت بھی للکارے مارتا نظر آرہا ہے علاقائی حالات بھی پاکستان کے حق میں نہیں ہیں‘ ہمیں قومی اتحاد و یکجہتی کے حوالے سے اندرونی طور پر اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ دشمن کو ہماری کسی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ اگر دہشت گردی کی جنگ میں سول اور عسکری قیادتیں باہم سر پھٹول کرتی نظر آئیں گی اور قوم کی سوچ منتشر ہوگی تو ملک کی سلامتی کو لاحق خطرات مزید گمبھیرہو جائینگے۔ یہ صورتحال کسی قومی المیئے سے کم نہیںہے کہ خوشحالی اوراستحصالی قوتوں سے آزادی کی سوچ کے تحت نیا ملک بنانے والے آج 70سال گزرنے کے باوجود اپنے ارض وطن میں گوناںگوں اقتصادی مسائل سے دوچار ہیں۔ اگر حکمران ان کے مسائل کے حل کی بھی کوئی تدبیر نہیں کر سکے اور حکمرانوں کی کمزور پالیسیوں سے دہشت گردوں اور ملک دشمن قوتوں کو بھی کھل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے جس سے ملک کی سلامتی بھی خطرات میں گھری نظر آتی ہے تو پھر قوم دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کی کس کے ساتھ توقعات وابستہ کریگی؟۔ تمام سیاسی قیادتوں کو اسی حوالے سے غور و فکر کرنا چاہیے کہ انکے سیاسی مفادات اور کوتاہ بینیاں کہیں ملک کو پھر اس جمہوریت کی پٹڑی سے اتارنے کے راستے تو ہموار نہیں کررہیں جس کی بنیاد پر بانیانِ پاکستان نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد و خودمختار ارض وطن کے خواب کو حقیقت کے قالب میں ڈھالا تھا۔ آج ہمیں جمہوریت کے تحفظ اور ملک کی سلامتی کے لیے زیادہ فکرمند ہونا چاہیے۔ دہشتگردی، سیاسی خلفشار اور علاقائی حالات قومی یکجہتی و یگانگت کے متقاضی ہیں۔
امید کی جاتی ہے کہ رہنمایان قوم ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کی پردہ پوشی کے لیے دوسروں کے خلاف الزام تراشی بلکہ بہتان تراشی کا موجودہ رویہ ترک کرکے اس وطن کے تحفظ کو یقینی بنانے اور دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے قوم کو سیسہ پلائی دیوار بنانے کے لیے اپنا فریضہ انجام دینے کی کوشش کریں گے۔
٭٭…٭٭